امریکہ میں قیام کے دوران جو پہلی چیز خریدی تھی وہ کتاب تھی اور جو آخری چیز خریدی‘ وہ بھی کتاب تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلی کتاب جو خریدی وہ ہیلری کلنٹن کی خود نوشت تھی اور پاکستان واپسی سے پہلے جو کتاب خریدی وہ بل کلنٹن کی خودنوشت تھی۔ جب ہیلری کلنٹن کی کتاب خرید رہا تھا تو مجھے علم نہ تھا کہ بل کلنٹن کی نئی کتاب بھی مارکیٹ میں آ چکی ہے۔ لگتا ہے دونوں میاں بیوی نے ایک ساتھ ہی اپنی کتابیں لکھی ہیں۔ اگرچہ دونوں کا موضوع‘ ممکن ہے ایک جیسا ہو لیکن کتابوں کے اندر مواد بہت مختلف ہے۔ ہیلری کلنٹن نے جو موضوع چُنا وہ ہے کہ اس نے اپنی اب تک کی 76 سالہ زندگی میں کیا کھویا اور کیا پایا۔ اس کی زندگی بہت ہائی پروفائل رہی ہے‘ امریکی صدر کی بیگم ہونے کے ناتے اس نے آٹھ سال وائٹ ہائوس میں گزارے‘ ٹرمپ کے خلاف صدر کا الیکشن لڑا‘ بارک اوباما کی وزیر خارجہ رہیں‘ ٹرمپ سے زیادہ ووٹ لے کر بھی الیکشن ہار گئیں۔ اب اندازہ کریں جب اس بیک گرائونڈ کی خاتون اس عمر میں کتاب لکھے گی تو اس میں میچورٹی کا کیا لیول ہو گا اور آپ کو کیا کچھ سیکھنے کا موقع مل سکتا ہے۔ میں نے ابھی یہ کتاب شروع ہی کی تھی کہ ورجینیا میں اپنے لاہوری دوست ناصر محمود سے بارنز اور نوبلز (Barnes & Noble) پر ملاقات ہوئی جہاں کافی پر گپ شپ لگی۔ ان کو بیٹی کی شادی کی مبارکباد دینا تھی جس میں بوجوہ شرکت نہ کرسکا اور اس کی معذرت بھی کرنا تھی۔ امریکہ میں تحفے کے طور پر میری کتابوں کا بل ہمیشہ ناصر محمود ادا کرتے ہیں اور میں بھی ان کی سخاوت کا فائدہ اٹھا کر مروت ایک طرف رکھ کر درجن بھر کتابیں ضرور لیتا ہوں کہ پتا نہیں اب دوبارہ کب امریکہ آنا ہو۔ یقین کریں امریکہ میں ایسی ایسی شاندار کتابیں چھپتی ہیں کہ دل کرتا ہے بندہ پورا بارنز اینڈ نوبلز ہی اٹھا کر پاکستان لے جائے۔ وہیں میں نے بل کلنٹن کی نئی کتاب Citizen دیکھی تو فوراً اٹھا لی۔ پاکستان واپسی پر جہاز میں اس کتاب کو ہی پڑھتا رہا۔ مجھے یہ کتاب ہیلری کلنٹن کی کتاب سے زیادہ دلچسپ اور اہم لگی ہے۔ کلنٹن نے اس کتاب میں اُن 23 برس کا احاطہ کیا ہے جو انہوں نے وائٹ ہائوس سے نکل کر‘ دوبارہ ایک عام شہری کے طور پر گزارے ہیں۔
اس کتاب کے باقی حصوں کو وقتی طور پر ایک طرف رکھتے ہیں‘ جس بات نے میری توجہ پکڑ لی وہ مونیکا لیوِنسکی سکینڈل کے بعد بل کلنٹن کے خلاف ہونے والی لیگل کارروائی اور اس پر اٹھنے والے اخراجات ہیں۔ کلنٹن پر مونیکا لیونسکی کے حوالے سے ایک بڑا الزام جھوٹ بولنے کا تھا۔ اس جھوٹ پر کلنٹن کو صدارت سے ہٹانے کیلئے کانگریس نے کارروائی شروع کی‘ جسے پوری دنیا میں لائیو دکھایا گیا۔ اس دوران کلنٹن لاکھوں ڈالرز کا مقروض ہو گیا کیونکہ اسے وکیل درکار تھے اور یہ وکیل وائٹ ہائوس کے بجٹ سے ہائر نہیں کیے جا سکتے تھے۔ کلنٹن کو اپنی جیب سے تمام لیگل اخراجات ادا کرنا تھے۔ جب وہ وائٹ ہائوس سے نکلا تو لاکھوں ڈالرز کا قرض اس کے کندھوں پر تھا۔ اسے راتوں کو نیند نہیں آتی تھی کہ وہ لاکھوں ڈالرز کا قرض کیسے اتارے گا۔ بعد میں اس نے مختلف فورمز پر لیکچر دے کر اور اپنی خود نوشت کی رائلٹی اکٹھی کر کے اپنا قرض اتارا۔
اب ایک لمحے کیلئے یہاں رک جاتے ہیں۔ میں دوبارہ بل کلنٹن کی طرف آتا ہوں کہ اس ساری کہانی میں وہ کہاں فٹ ہو رہا ہے لیکن پہلے ذرا ڈونلڈ ٹرمپ کے نئے مشیر رِچرڈ گرینیل کے ٹویٹس پڑھیں۔ وہ عمران خان کو رہائی دلانے کیلئے کوششیں کر رہے ہیں۔ جو بات اہم ہے وہ یہ کہ عمران خان پر لگنے والے کرپشن الزامات کو وہ الزامات نہیں بلکہ سیاسی انتقام سمجھ رہے ہیں۔ امریکی پاکستانی سیاستدانوں کو ہونے والی جیل اور سزا کو ہمیشہ سیاسی انتقام ہی سمجھتے آئے ہیں۔ ان کے نزدیک پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک کے سیاستدان فرشتے ہیں‘ جو غلط کام کر ہی نہیں سکتے۔ اگر ان پر کرپشن کے الزامات ہیں بھی تو وہ سب جھوٹ ہیں۔ لہٰذا یہ سب سیاسی قیدی ہیں نہ کہ ملزم‘ اور یوں ان کو فوراً رہا کیا جائے اور اس سلسلے میں امریکیوں کے نزدیک پاکستان کے ملکی قوانین اور عدالتی پراسیس کی کوئی اہمیت نہیں۔ لہٰذا رچرڈ گرینیل عمران خان کو بھی ایک سیاسی قیدی سمجھتا ہے جسے فوراً رہا کیا جانا چاہیے۔ آپ کے علم میں ہو گا کہ امریکی عمران خان سے پہلے نواز شریف‘ بینظیر بھٹو‘ آصف زرداری اور دیگر کو بھی سیاسی قیدی کا درجہ دیتے رہے ہیں۔ ان کے نزدیک پاکستان میں کوئی لیڈر کرپشن کرتا بھی ہے تو یہ سیاست اور جمہوریت کا حسن ہے‘ نہ کہ کوئی جرم۔
اگر آپ کو یاد ہو تو جب نواز شریف کو پرویز مشرف نے قید کیا تھا تو یہ بل کلنٹن ہی تھے جنہوں نے اسلام آباد میں نواز شریف کی سفارش کی تھی بلکہ انہیں ملک سے باہر بھجوانے میں بھی مرکزی کردار بل کلنٹن کا تھا جو سعودی عرب کے فرنٹ پر ہونے کی وجہ سے دب گیا تھا۔ بل کلنٹن کے نزدیک جو کچھ نواز شریف نے کیا‘ وہ کوئی جرم نہیں تھا اور نہ ہی امریکیوں کے لیے نواز شریف کی دنیا بھر میں پھیلی جائیدادیں کوئی مسئلہ تھیں۔ اسی طرح 2006ء اور 2007ء میں بینظیر بھٹو اور جنرل مشرف کے درمیان دبئی میں جو خفیہ ملاقاتیں ہو رہی تھیں‘ وہ بھی امریکی ہی کرا رہے تھے۔ ان خفیہ مذاکرات کے پیچھے امریکی سیکرٹری خارجہ کونڈولیزا رائس تھیں۔ تب امریکی بینظیر بھٹو کو این آر آو دلانے کی کوششیں کررہے تھے۔ اس وقت بینظیر بھٹو کو جینوا میں کچھ مقدمات پر سزا ہوچکی تھی۔ آصف زرداری پر ساٹھ ملین ڈالرز کا کیس موجود تھا۔ انہیں جینوا عدالت سے ٹوکن سزا ہوچکی تھی۔ یہ بات اب راز نہیں رہی کہ پاکستان سے ساٹھ ملین ڈالرز کی منی لانڈرنگ کی گئی تھی جس پر نواز شریف نے اپنے دوسرے دورِ حکومت میں باقاعدہ سوئس حکومت کو خط لکھا تھا کہ یہ ساٹھ ملین ڈالرز‘ جو وہاں زرداری صاحب کے بینک اکاونٹ میں تھے‘ وہ پاکستانی عوام کا پیسہ ہے لہٰذا یہ پاکستانی حکومت کو واپس کیا جائے۔ یہ خط اس وقت کے اٹارنی جنرل محمد فاروق نے لکھا‘ جو موجودہ وفاقی وزیرخزانہ محمد اورنگزیب کے والد ہیں۔ بینظیر بھٹو اس مقدمے سے خوفزدہ تھیں کیونکہ ان کے ریڈ وارنٹ بھی نکل چکے تھے۔یوں امریکیوں نے این آر او کرا کے بینظیر بھٹو اور زرداری کے مقدمات ختم کرائے کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ یہ سب مقدمے سیاسی تھے‘ نہ کہ کرپشن کا کوئی ایشو تھا۔
امریکی عہدیدار عمران خان پر قائم مقدمات کو بھی سیاسی انتقام سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک خان صاحب کا کسی پراپرٹی ٹائیکون سے عطیات کے نام پر چار سو کنال زمین لینا‘ بیس‘ تیس کروڑ روپے نقد عطیہ لینا‘ ہیرے جواہرات کی انگوٹھیاں لینا یا سعودیوں کے کروڑوں روپوں کے تحائف دبئی میں بیچ کر منافع کمانا کوئی جرم نہیں۔ ان کے نزدیک یہ سب سیاسی مقدمات ہیں۔ لہٰذا جیسے نواز شریف‘ بینظیر بھٹو اور زرداری مظلوم تھے اور وہ سیاسی انتظام کا نشانہ بنے ‘اسی طرح اب عمران خان سیاسی انتقام کا نشانہ بن رہے ہیں۔
شروع میں بل کلنٹن کی جس کتاب کا ذکر کیا‘ اب دوبارہ اس طرف چلتے ہیں۔ امریکی اپنے لیے جس لیڈر کا انتخاب کرتے ہیں اس کا معمولی سا جھوٹ بھی برداشت نہیں کرتے۔ اپنے صدر کا کانگریس سے ٹرائل کرایا اور اس ٹرائل کو ٹی وی کے ذریعے براہِ راست ساری دنیا کو دکھایا۔ بل کلنٹن ایک جھوٹ بول کر بدنام ہوا‘ دلوالیہ ہوا اور مقروض ہو گیا کیونکہ امریکیوں نے دل بڑا نہ کیا‘ لیکن وہی امریکی پاکستان کے ہر سیاسی حکمران کو لوٹ مار کے باوجود مظلوم سمجھتے ہیں۔ جو رعایت یا شک کا فائدہ امریکی نواز شریف‘ بینظیر بھٹو اور اب عمران خان کو دے رہے ہیں‘ وہی شک کا فائدہ انہوں نے بل کلنٹن کو نہیں دیا۔ اس کا جرم ایک معمولی سا جھوٹ ہی تو تھا۔اس پر اپنے صدر کو اتنا بدنام کرنے‘ اس کا ٹرائل کرنے اور اسے دلوالیہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟