پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے میرے پرانے رفیق کار اور دوست مشاہد حسین سیّد ایک بہترین مقرر ہی نہیں بلکہ ایک بلند پایہ لکھاری بھی ہیں۔ 1980ء کی دہائی میں اسلام آباد سے شائع ہونے والے ایک انگریزی روزنامہ ''Muslim‘‘ کے ادارتی صفحات پر اُن کے ملک کی اندرونی اور بیرونی سیاست پر لکھے گئے مضامین اور اداریے اس بات کے گواہ ہیں۔ اپنی تقاریر اور تحریروں میں وہ دو محاوروں کو اکثر استعمال کرتے ہیں۔ پہلا‘Road to Islamabad lies through Washington‘ یعنی اسلام آباد کا راستہ واشنگٹن سے ہو کر جاتا ہے اور دوسرا There is no free lunch in America‘ جس کا عام فہم الفاظ میں ترجمہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ امریکہ کوئی کام مفت میں یا معاوضے (Quid Pro Quo) کے بغیر نہیں کرتا۔
پاک امریکہ تعلقات کی گزشتہ چھ دہائیوں پر مشتمل تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ دونوں محاورے اس پر فِٹ بیٹھتے ہیں۔ پاکستان اور امریکہ کے مابین عسکری اور معاشی شعبے میں قریبی تعاون کی بنیاد 1950ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں رکھی گئی۔ اس کے تحت پاکستان نے 1954ء میں چین مخالف امریکی دفاعی معاہدے ''سیٹو‘‘اور 1955ء میں عرب قوم پرستی کے خلاف مغربی ممالک کے اتحاد کو مضبوط بنانے کیلئے معاہدۂ بغداد‘ جو بعد میں ''سینٹو‘‘ کے نام سے جانا گیا‘ میں شمولیت اختیار کی۔ اس کے عوض پاکستان کو امریکہ کی طرف سے ہتھیار اور اقتصادی امداد ملنے لگی مگر اس کی قیمت چکانے کیلئے پاکستان کو نہر سوئز بحران (1956ء) میں مصر پر حملہ آور برطانیہ اور فرانس کی حمایت کرنا پڑی اور یوں مسئلہ فلسطین پر عرب ممالک کے مؤقف کی پُرزور حمایت کرکے عالم عرب میں پاکستان کو جو مقام حاصل ہوا تھا‘ اس سے محروم ہونا پڑا۔ کمیونزم (روس اور چین) کے خلاف سرد جنگ میں امریکی اتحادی بننے کے بعد پاکستان کی سیاست میں چند اہم تبدیلیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ تھا۔ مثلاً 1958ء میں پاکستان کے پہلے دستور 1956ء کو منسوخ کر کے اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان کی طرف سے مارشل لاء کے نفاذ میں امریکی ہاتھ کی یہ وجہ بتائی جاتی ہے کہ اس آئین کے تحت ہونے والے انتخابات میں پاکستان کی بائیں بازو اور دفاعی معاہدوں میں ملک کی شمولیت کی مخالف سیاسی قوتوں کے جیتنے کا امکان تھا۔ ایوب خان کے دور میں پاکستان کمیونسٹ پارٹی کے ایک نوجوان کارکن حسن ناصر کی لاہور کے شاہی قلعہ کے عقوبت خانوں میں ٹارچر اور موت میں بھی امریکی سی آئی اے ہی کا ہاتھ بتایا جاتا ہے کیونکہ امریکہ کو شک تھا کہ 1961ء میں جب ذوالفقار علی بھٹو تیل‘ گیس اور قدرتی معدنیات کی وزارت کے انچارج وزیر تھے‘ پاکستان اور روس کے مابین گیس اور تیل تلاش کرنے کے معاہدے میں حسن ناصر نے سہولت کار کا کردار ادا کیا تھا۔ 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ سینئر سیاستدان‘ سابق صدر ایوب خان کے بھائی اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف سردار بہادر خان کو کہنا پڑا کہ ملک میں ہر سیاسی اور حکومتی تبدیلی میں امریکہ کا ہاتھ رہا ہے مگر یہ عمل یکطرفہ نہیں تھا۔ مختلف مراحل پر مختلف سیاسی اور عسکری شخصیات نے بھی امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ملک کے سٹرٹیجک مفادات کو ذاتی مفادات کی خاطر داؤ پر لگا دیا تھا۔ 1953ء میں وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کی برطرفی کے بعد امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے گورنر جنرل غلام محمد نے امریکہ میں پاکستانی سفیر محمد علی بوگرہ کو وزیراعظم نامزد کیا حالانکہ وہ آئین ساز اسمبلی کے رکن نہیں تھے۔ اپنی خود نوشت ''فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ میں جنرل ایوب خان بڑے فخر سے بیان کرتے ہیں کہ دفاعی معاہدوں میں پاکستان کی شرکت ان کی کوششوں کا نتیجہ تھی۔ جنرل ضیا الحق امریکہ کو خوش کرنے کیلئے سینے پر ہاتھ رکھ کر بڑے فخر سے اپنے آپ کو ''دائیں بازو‘‘ کے نظریات کا پیرو کار کہا کرتے تھے۔ پاکستان کے ایک سینئر سیاستدان خان عبدالقیوم خان‘ جو صدر اسکندر مرزا کی سیاسی ریشہ دوانیوں کو کھل کر بے نقاب کرتے تھے‘ اکثر کہا کرتے تھے کہ جب امریکہ میں ڈیمو کریٹک پارٹی برسر اقتدار آتی ہے تو پاکستان میں ڈیمو کریٹک فرنٹ قائم ہو جاتا ہے اور جب ریپبلکن پارٹی کی حکومت قائم ہوتی ہے تو پاکستان میں بھی ریپبلکن پارٹی وجود میں آ جاتی ہے۔ خان عبدالقیوم خان کا اشارہ 1954ء کے صوبائی انتخابات (مشرقی بنگال) میں عوامی لیگ اور کرشک سرامک پارٹی کی سربراہی میں مسلم لیگ کے خلاف ڈیمو کریٹک فرنٹ کے قیام اور مغربی پاکستان میں ڈاکٹر خان صاحب کی قیادت میں صدر اسکندر مرزا کی پس پردہ کوششوں سے مسلم لیگ کو نیچا دکھانے کیلئے ریپبلکن پارٹی کی تشکیل کی طرف تھا۔
پاک امریکہ تعلقات کی طویل تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ زیادہ تر براہِ راست ملٹری ٹو ملٹری رہے ہیں مگر سویلین قیادت بھی امریکہ کے ساتھ قریبی اور دوستانہ تعلقات کی حامی رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ چھ دہائیوں میں اتار چڑھاؤ کے باوجود دونوں ملکوں کے مابین تقریباً ہر اہم شعبے میں تعلقات گہرے اور وسیع ہوئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کے سیاسی عمل کو متاثر کرنے کی امریکی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس صلاحیت کو اپنے مفاد کے تحفظ یا فروغ کیلئے استعمال کرنے والوں میں محض غیر جمہوری عناصر ہی نہیں بلکہ سیاستدان بھی شامل ہیں۔ تازہ ترین مثال بانی پی ٹی آئی کی ہے جن کے حامیوں کی کوششوں سے امریکہ کے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ خان کی جیل سے رہائی کی کوششوں پر آمادہ نظر آتی ہے۔ اس سے قبل سب کو معلوم ہے کہ 1986ء میں ضیا الحق کے دور میں پاکستان میں نظر بند بینظیر بھٹو کو امریکہ جانے کی اجازت دلانے میں امریکہ کا ہاتھ تھا‘ مگر امریکیوں کے بارے میں دوسرے محاورے یعنی There is no free lunch in America کے تناظر میں بانی پی ٹی آئی کی رہائی کی صورت میں Quid Pro Quo (معاوضہ) کیا ہوگا۔ بینظیر بھٹو کے معاملے میں امریکی مداخلت اور حمایت کا سبب ضیا الحق سے امریکہ کی یہ ناراضی تھی کہ پاکستانی قیادت نے ملک کے ایٹمی پروگرام کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت بھی حاصل کر لی تھی۔ امریکہ نے اس امید پر‘ کہ بینظیر بھٹو ضیا الحق کے برعکس ملک کے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے پر راضی ہو جائیں گی‘ان کی حمایت کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم جب بینظیر بھٹو نے بھی برسراقتدار آ کر نہ صرف ایٹمی پروگرام کو جاری رکھا بلکہ شمالی کوریا کی مدد سے اس کیلئے ڈلیوری سسٹم کا بھی اہتمام کر لیا تو امریکہ کو سخت مایوسی ہوئی۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ امریکی صدر‘ جنہوں نے ابھی 24 دن بعد اپنے عہدے کا حلف اٹھانا ہے‘ کے نمائندہ خصوصی رِچرڈ گرینیل کی طرف سے پاکستان میں قید بانی پی ٹی آئی کی رہائی میں مدد فراہم کرنے کے عوض کیا معاوضہ رکھا گیا ہو گا؟ رِچرڈ گرینیل نے ٹرمپ انتظامیہ کے اس ارادے کا ذکر کرتے ہوئے صدر بائیڈن کو‘ جن کی مدتِ صدارت 20جنوری کو ختم ہو جائے گی‘ پاکستان کے میزائل پروگرام کو نظر انداز کرنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ کیا ٹرمپ انتظامیہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے بدلے میں پاکستان کا میزائل پروگرام ختم کرنا چاہتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو امریکہ کو پہلے کی طرح‘ ایک بار پھر سخت مایوسی ہو گی کیونکہ پاکستان کا کوئی بھی سیاستدان ملک کے ایٹمی پروگرام اور اس کے ڈلیوری سسٹم کو ختم یا معطل کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔