اللہ تعالیٰ کی کائنات میں ہم انسانوں کا جو محلہ ہے‘ اسے ہم ''مِلکی وے گلیکسی‘‘ مان لیں اور اس محلے کے بازاروں‘ مکانوں اور کمروں کی تعمیر میں جو اینٹ لگی ہے‘ اسے ''ایٹم‘‘ کہہ لیں تو اسے عرب سائنسدانوں کے ہاں ''ذرۃ سے مجرّۃ تک‘‘ کہا جاتا ہے۔ ذرہ ایٹم ہے تو مجرّہ کہکشاں ہے۔ ہماری کہکشاں میں اربوں‘ کھربوں نظام ہائے شمسی ہیں۔ ان میں سے ایک ہمارا ''نظامِ شمسی‘‘ ہے جس میں ایک زمین نامی سیارہ ہے جو سورج کے گرد گردش کر رہا ہے۔ اس زمین کے ہر ذرے کا جو نظام ہے‘ اس میں الیکٹران اور پروٹان وغیرہ اپنے مرکز کے گرد گردش کرتے ہیں۔ یہی نظام ''نظامِ شمسی‘‘ میں ہے کہ سورج کے گرد آٹھ کے قریب سیارے گردش کر رہے ہیں اور یہی نظام ''ملکی وے‘‘ میں ہے کہ تمام نظام شمسی اپنے مرکز کے گرد گردش کر رہا ہے۔ اگلی بات یہ ہے کہ خلا میں گردش کرتے ہوئے جو فاصلہ ایٹم کے ذیلی ذرات کا ہے‘ وہی فاصلہ نظامِ شمسی میں آٹھ کے قریب سیاروں کا ہے اور جس طرح وہ ایک دوسرے سے دور ہیں‘ ایسی ہی دوریاں''ملکی وے‘‘ کے اندر شمسی نظاموں کی ہیں۔
قارئین کرام! درختوں اور پودوں یعنی نباتات کے خلیات کے مابین بھی فاصلے اسی طرح ہیں۔ خلیات کے اندر ہر خلیے کے اندر فاصلوں کی دوری اسی طرح ہے۔ جانداروں کے خلیات کی سائنس بھی یہی ہے۔ انسان کے خلیے کی سائنس بھی یہی ہے۔ ''ریڈرز ڈائجسٹ‘‘ میں کچھ عرصہ قبل میں نے سائنسدانوں کی ایک تحقیق پڑھی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ اگر انسانی جسم کے خلیات کے باہمی فاصلے ختم کر دیے جائیں تو ٹھوس شکل میں ایک انسان ایک ذرے کی مانند رہ جائے گا۔ اس ذرے کے باہمی فاصلے مزید کم کر دیے جائیں تو نہ دکھائی دینے والا ایک نقطہ رہ جائے گا۔ قارئین کرام! بتانا یہ چاہتا ہوں کہ انسانی اعضا کے خلیات کے درمیان خلا ہی خلا ہے‘ لہٰذا جب موت کا فرشتہ اپنے نورانی اور ملکوتی ہاتھوں کو انسانی جسم کی جانب بڑھاتا ہے تو وہاں رکاوٹ نام کی کوئی شے نہیں ہوتی۔ انسان سمندر کی تہہ میں آبدوز کے اندرہو تو کوئی رکاوٹ نہیں۔ زمین کے سینکڑوں فٹ اندر جا کر دھاتوں اور سیمنٹ سے بنے ہوئے بنکر میں ہو تو موت کے فرشتے کے لیے یہاں بھی کوئی رکاوٹ نہیں‘ہر جگہ خلا ہی خلا ہے۔ موت کا فرشتہ ہر جگہ انسان کے پاس ہوگا۔ سر کے قریب بیٹھے گا‘ ہاتھوں کو بڑھائے گا اور 'نفسِ انسانی‘ کو اپنے قبضے میں کر لے گا‘ اس کے بعد اسے قبر میں جانا ہو گا۔
پچھلا جمعہ میں نے چولستان کے آخری شہر ''مروٹ‘‘ میں پڑھایا۔ میرا ہم سفر ساتھی حذیفہ‘ جو مجھے بیٹوں کی طرح عزیز ہے‘ گاڑی کو ڈرائیو کر رہا تھا۔ مروٹ میں میرے ہم نام نوجوان امیر حمزہ رافع نے ہزاروں لوگ میدان میں جمع کر رکھے تھے۔ یہاں سے فارغ ہوئے تو مغرب کے بعد جلسہ چشتیاں کے گاؤں گجیانہ میں تھا۔ میں نے حذیفہ سے کہا: رات خانیوال کے قریبی گاؤں میں تمہارے گھر گزاروں گا تاکہ تم اپنے بیوی بچوں اور والدین سے مل لو۔ رات ہم نے وہاں گزاری۔ فجر کی نماز محلے کی مسجد میں پڑھائی۔ درسِ قرآن دیا۔ حذیفہ کے والد محترم محمد یونس ہمارے میزبان تھے۔ ان سے بات چیت ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ میرے گاؤں کا جو شخص بھی فوت ہوتا ہے‘ اس کی قبر میں کھودتا ہوں۔ میں نے پوچھا کہ ذریعہ معاش کیسے چلتا ہے؟ حذیفہ نے بتایا کہ ابو جی ٹھیکے پر زمین لیتے تھے‘ اس پر گزارہ چلتا تھا‘ پھر جب ہم تینوں بھائی محنت مزدوری کرنے کے قابل ہو گئے تو ابا جی نے‘ جو اب ماشاء اللہ 60 برس کے ہو چکے ہیں‘ کاشتکاری ترک کر دی ہے اور اپنے ایک دوست کے ہمراہ قبریں کھودتے ہیں۔
قارئین کرام! کوئی وقت تھا کہ گاؤں کا کمہار مٹی کے برتن بناتا تھا‘ قبر بھی وہی نکالتا تھا۔ عوضانے میں اسے گائوں والوں سے چھ ماہ بعد گندم ملتی تھی اور چھ ماہ بعد مونجی ملتی تھی۔ اسی سے سال بھر کا خرچہ چلتا تھا۔ میں حیران تھا کہ محمد یونس جوانی کے دور سے قبریں کھود رہا ہے‘ ابھی تک کھود رہا ہے اور فی سبیل اللہ یہ خدمت کر رہا ہے۔ محمد یونس نے بتایا کہ ایک بار ہمارے مولوی صاحب نے کہا: میں اعلان کر دیتا ہوں کہ ہر قبر کی کھدائی پر لوگ آپ کی خدمت کریں‘ مگر میں نے کہا: مولوی صاحب! اس مزدوری کا بدلہ میں نے اپنے اللہ سے لینا ہے‘ بندوں سے نہیں لینا۔
لوگو! محمد یونس نے مجھے قبر کے کھدائی کا ایک عجیب واقعہ بھی سنایا‘ جو انہی کی زبانی سنیں۔ گرمیوں کے دنوں میں ایک قبر کی کھدائی مکمل کی‘ قبر کی لمبائی اور چوڑائی کا جائزہ لینے کیلئے میں اس میں لیٹ گیا۔ لیٹتے ہی اس قدر سکون ملا کہ بیان نہیں کر سکتا۔ شدید گرمی میں بھی ٹھنڈک کا اس طرح احساس ہوا کہ جیسے بھینی بھینی سی خوشگوار ہوا مجھے تھپتھپا کر اطمینان اور راحت میں لیے چلی جا رہی ہو۔ تب میں نے سوچا کہ کوئی بندہ نیک ہے جس کی آج قبر تیار ہوئی ہے۔ میں‘ جو قبروں کی کھدائیاں کرتے کرتے ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ گیا ہوں‘سوچنے لگ گیا کہ یہ ایک پیغام بھی تو ہو سکتا ہے کہ محمد یونس کو اس کا رب قبر میں سکون‘ راحت اور اطمینان کی نعمت سے نوازے گا۔ یہ تو جیتے جی خوشخبری کی مانند ہے۔ محمد یونس کی باتیں سن کر میں اپنے مولا کریم کی توفیق کا شکریہ ادا کرنے لگ گیا کہ میں اللہ اور اس کے بندوں سے محبت کرنے والوں کے محلے میں آیا اور محمد یونس سے ملاقات کی نعمت مل گئی۔ محمد یونس پانچ وقت کے نمازی‘ سادہ اور مسکین آدمی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو ایسے لوگ پسند ہیں۔ فرشتوں کے لیے قبر کی مٹی کوئی رکاوٹ نہیں‘ ان کے لیے تو خلا ہی خلا ہے۔ مجھے ایسے لگتا ہے کہ اس قبر میں آنے والا بندہ یا بندی ایسی نیک اور صالح روح تھی کہ فرشتے اس کی قبر کے پاس پہلے ہی موجود تھے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کی موجودگی کا احساس محمد یونس کو بھی دلایا گیا۔ہم میں سے ہر ایک کو سوچنا چاہیے کہ وہ اپنے لیے اگر ایسی قبر جیسی قبر چاہتا ہے تو کیا گفتار اور کردار اس قابل ہے کہ ایسی قبر اس کو میسر آ جائے؟
اگر کاروبار میں جھوٹ بولتا رہا‘ ملاوٹ کرتا رہا‘ دھوکا دہی سے باز نہ آیا‘ قبضہ مافیا کا یہ سرغنہ تھا‘ اپنا پیٹ حرام مال سے بھرتا رہا‘ اس نے جو رہائش گاہ بنائی وہ حرام اور لوٹ کے مال سے بنائی‘ تفتیش کی تو رشوت لے کر مجرم کو بری کرنے کا سامان فراہم کر دیا‘ بے گناہ کو مجرم بنا دیا‘ فیصلہ سازی میں بددیانتی کا مرتکب ہوا‘ رشوت کا جو مال تھا اس سے دنیا کی آسودگیاں حاصل کیں‘ کیا ایسے مُردے کو ایسی آرام دہ قبر مل سکتی ہے جس میں محمد یونس نے لیٹ کر راحت کا نظارہ کیا؟ حسد میں جلنے والے کو کیا ایسی قبر مل سکتی ہے اور حسد میں جل کر کوئی اپنے مخالف پر جھوٹا مقدمہ کرا دے یا جادو گر کے پاس جا کر اس پر جادو کرا دے‘ شیطانوں کی مدد حاصل کرکے اپنے بھائی یا بہن کا نقصان کر دے تو حسد میں جلنے والے ایسے شخص کو کیا قبر میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا مل سکتا ہے؟ آہ! لوگ اللہ تعالیٰ کو بھی دھوکا دینا چاہتے ہیں کہ ہم پر آیت الکرسی اور چاروں قل شریف والی چادر ڈال دی جائے گی‘ کفن پر کلمہ لکھ دیا جائے گا‘ قبر پر قرآن مجید کی تلاوت کا بندوبست کر دیا جائے گا‘ کئی دنوں تک کھانوں کی دیگوں کا انتظام کر دیا جائے گا تو سب کچھ معاف ہو جائے گا۔ یاد رکھیں! انسانوں پر کیا ہوا ظلم قبر میں اندھیرے کا سبب تو بن سکتا ہے‘ مگر راحت کا سامان نہیں بن سکتا۔ قبر کی گھٹن پسلیاں تو توڑ سکتی ہے مگر آرام و سکون نہیں لا سکتی۔ راحت اُسی کے لیے ہے جو اللہ کی مخلوق کے لیے راحت کا سامان کرتا ہے۔