اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت '' کتاب و سنت‘‘ ہے۔ قرآن و حدیث سے حاصل کردہ حکمت یہ ہے کہ سیاست میں فراست نہ ہو تو وہ دہشت اور وحشت بن جاتی ہے اور مذہب میں سینہ فراخ نہ ہو‘ کردار میں امن نہ ہو تو وہ مذہب کے نام پر ظلم بن جاتا ہے۔ یہ ظلم جب اپنی تمام حدود کو پھلانگ جاتا ہے تو وہ ''خارجی فتنہ‘‘ بن جاتا ہے۔ آج میرا وطن عزیز انہی دو آزمائشوں میں گھرا ہوا ہے۔ میرا دلی میلان وقت کے تقاضوں پر لبیک کہتا ہے تو ہر کالم اسلام اور جدید سائنس کی ریسرچ کا تقاضا کرتا ہے مگر ملکی اور بین الاقوامی حالات سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا؛ چنانچہ ان موضوعات پر لکھنا بھی ایک سماجی ذمہ داری ہے۔
اہلِ سنت اور اہلِ تشیع میں بہت سے ایسے علما اور دانشور ہیں جو ملتِ اسلامیہ پاکستان کو جوڑنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ایسی ہی ایک کوشش کا ایک گوشہ میرے سامنے آیا۔ یہ کردار مولانا سید جواد نقوی حفظہ اللہ کا ہے۔ وہ کچھ دن قبل بیمار ہوئے تو ان کی تیمارداری اور عیادت کیلئے حاضر ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں صحت سے نوازا ہے۔ اب انکے علم کی فراست اور کردار کا گوشہ نقل کرنے جا رہا ہوں جسے میں '' حضرت عمر فاروقؓ کی حکمرانی کو خراجِ تحسین بزبانِ مثل کستوری سید جواد نقوی‘‘ کا عنوان دے رہا ہوں:
''خلفاء میں خلیفہ دوم حضرت عمرؓ کا تذکرہ زیادہ ہوتا ہے۔ پاکستان اور باقی دنیا میں آج بھی انکے نظامِ حکومت کا تذکرہ زیادہ ہوتا ہے۔ چونکہ فتوحات بھرپور ہوئیں۔ انہی فتوت کے فاتحین کی حکمرانی تھی۔ وہ ریاست جو مدینہ منورہ سے پھیلنا شروع ہوئی براعظموں تک جا پہنچی۔ یہ سب کچھ ان دس سالوں میں ہوا جن میں خلیفہ دوم کی حکمرانی تھی۔ یہ ایک کارنامہ تھا جبکہ دوسرا یہ تھا کہ انہوں نے بہت سارے ادارے قائم کر دیے تھے۔ ان میں پولیس کا بھی ایک محکمہ ہے۔ یہ محکمہ خلیفہ کا ایجاد کردہ ہے۔ اسی طرح انہوں نے بیت المال قائم کیا تھا۔ اس کا مکمل حساب کتاب اور جانچ پڑتال تھی۔ سامعین کرام! آپ نے یہ سب کچھ سن تو رکھا ہے مگر پڑھتے نہیں۔ پڑھیں اور مطالعہ کیا کریں۔ جس سے اختلاف ہو‘ اسے تو ضرور ہی پڑھیں۔ ایک اور خصوصیت جو تاریخ میں ان کی شخصیت کے حوالے سے لکھی ہوئی ہے... اختلاف کے باوجود شیعہ مورخین نے بھی یہ خصوصیت لکھی ہے کہ خلافت کی تمام اقتصادی رونق جو چار براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اس کی اقتصادی حالت صفر سے اٹھ کر آسمان پر جا پہنچی تھی۔ اس میں مہاجرین اور فقیر فقرا‘ کہ جن کے لباس پیوند زدہ اور جوتے پھٹے ہوئے تھے وہ اربوں کھربوں کے مالک اور درہم و دینار کی فراوانی میں محلات کے مکیں بن گئے تھے۔ اہم ترین سوال یہ ہے کہ اس اقتصادی رونق سے خلیفہ نے کیا فائدہ اٹھایا؟ خلیفہ نے اپنی اولاد کو کیا دیا؟ کچھ بھی نہیں۔ نہ اپنے لیے ''بیت المال‘‘سے کچھ بنایا‘ نہ اپنے بچوں کیلئے کچھ بنایا۔ ان کو قریب تک نہیں آنے دیا۔ مزید برآں! اپنی اولاد پر‘ نہ اپنے خاندان پر اور نہ ہی اپنی ذات پر کچھ خرچ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ کچھ بھی نہیں بنایا۔ کوئی سرمایہ نہیں بنایا۔ بس جو کچھ اپنا ذاتی تھا‘ وہی تھا۔ اقتصادی نظام میں خلیفہ اور خلافت کی یہ بہت بڑی خصوصیت ہے۔ اقتصادی نظام میں حضرت عمرؓ کا رویہ شدت پر مبنی تھا۔ اس نظام میں ان کا کنٹرول سخت ترین تھا‘‘۔
قارئین کرام! آج سے کوئی37 برس قبل میں پارا چنار (کرم ایجنسی) گیا تھا۔ وادی پارا چنار میں سے گزرتے ہوئے افغانستان کے صوبہ پکتیا تک اس وادی کی سیر کی۔ اس کے بعد متعدد مرتبہ وادیٔ ہنزہ سے گزر کر بابِ خنجراب تک گیا‘ جو چین اور پاکستان کی سرحد پر محبت اور دوستی کا دروازہ ہے اور ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ پاکستان کے شمال سے لے کر شمالی جنوب تک‘ دونوں کنارے دو خوبصورت وادیاں ہیں۔ دونوں میں شیعہ سنی مسلمان باہم رہتے ہیں۔ وادیٔ ہنزہ اور گلگت‘ بلتستان امن وامان کے اعتبار سے مثالی علاقے ہیں۔ دو تین مرتبہ یہاں مذہب کے نام پر فساد کا آغاز ہوا مگر تمام مسالک کے نیک دل علما اور رہنما اکٹھے ہوئے‘ جن میں راقم بھی شامل تھا۔ سب نے مل کر کردار ادا کیا اور بحمدللہ یہ علاقے پہلے کی طرح امن وامان اور باہمی محبتوں کا گہوارا بن گئے۔ گلگت بلتستان کی طرح پار ا چنار کا علاقہ بھی انتہائی خوبصورت ہے۔ یہاں بھی دونوں مسالک کی آبادی تقریباً برابر ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے انگریز کے دور میں بھی یہاں زمین کی بنیاد پر جھگڑے اور فساد ہوتے تھے مگر مذہبی فساد نہ ہونے کے برابر تھا۔ جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس ایجنسی میں مذہبی فساد بھی ہونے لگا۔ اس بار جو فساد ہوا اس میں تو حد ہی ہو گئی۔ دیہات پر حملے ہوئے‘ مسافروں پر حملے ہوئے۔ چھ ماہ کے بچے کی شہادت نے تو ہر آنکھ کو اشکبار کر دیاتھا۔ ایسی درندگی اللہ تعالیٰ کو اس قدر ناپسند اور غصہ و غضب دلانے والی ہے کہ قیامت کا دن ہوگا‘ درندہ قاتل اللہ کے دربار میں ساری مخلوق کے سامنے کھڑا ہوگا۔ قرآن بتاتا ہے: معصوم مقتول سے پوچھا جائے گا ''کس جرم کی پاداش میں اسے قتل کیا گیا؟‘‘ یعنی قاتل پر اس قدر اللہ کا غضب ہے کہ اسے پوچھنے کے بجائے مقتول سے پوچھا جائے گا۔ جی ہاں! پھر منظر یوں بنے گا کہ فرشتے ظالم درندے کو پکڑیں گے اور اوندھے منہ جہنم کے گڑھے میں پھینک دیں گے‘ جو ستر سال کی مسافت جتنا گہرا ہو گا۔ حکومت کے نظام عدل پر سوالیہ نشان ہے کہ وہ دیوانی مقدمات کو سالوں کے حساب سے لٹکاتی ہے تو ملک میں قتل کا کلچر بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ امن و امان کا نسخہ یہی ہے کہ نظام عدل اپنا کام کرے اور مذہبی رواداری کیلئے علما میدان میں آئیں۔ مفتی تقی عثمانی‘ سید جواد نقوی اور پیر سید ہارون علی گیلانی جیسے علما آگے بڑھیں۔ اس قافلۂ امن و رواداری کی فہرست دس‘ پندرہ بھی ہو سکتی ہے اور اس کا حصہ بننا مجھ جیسے عاجز کے لیے اعزاز ہوگا۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سے پشاور میں میری صرف ایک ملاقات ہے۔ علما کے وفد کا میں بھی حصہ تھا۔ اہلِ غزہ کے لیے خوراک اور میڈیکل ایڈ موضوع تھا۔ علی امین گنڈاپور نے اچھے خیالات کا اظہار کیا۔ پاراچنار ان کے صوبے کا حصہ ہے‘ انہیں پاراچنار میں علما اور عمائدین کو لے کر ڈیرہ دار بن جانا چاہیے تھا مگر وہ تو اس موقع پر اسلام آباد پہ چڑھائی کا پروگرام بنا کر ایسی سیاست میں سرگرم تھے کہ جس میں فراست صاف صاف اور آوازِ بلند بتا رہی تھی کہ ریاست کے مقابل آنے کی سیاست دہشت میں بدلے گی تو نقصان سیاست کا ہوگا اور جیت ریاست کی ہوگی۔ ہونی بھی چاہئے‘ اس لیے کہ ریاست کی جیت نہ ہو گی تو ملک انارکی کی جانب جائے گا۔ عراق‘ شام‘ لبنان‘ لیبیا‘ سوڈان اور افغانستان میں کچھ سال قبل ہم نے ریاستوں کو ناکام ہوتے دیکھا اور پھر اس کا انجام ان ممالک کی تباہ کاریوں میں دیکھا۔ کئی دہائیوں کے بعد اب جا کر یہ ممالک کچھ کچھ سنبھلنے لگے ہیں۔ ہم سب کا وطن عزیز اس صورتحال سے بحمداللہ محفوظ چلا آ رہا ہے۔ پاکستان کی حکومت اور ریاست جس طرح پُرتشدد ہجوم اور جتھوں کو کنٹرول کرتی ہے اس میں قوت کے ساتھ فراست‘ اپنے عوام کی محبت اور حکمت بھری چال ہوتی ہے۔ یہ اندازِ حکمت کامیاب اور کامران ہے۔ یہی انداز وطن عزیز کو ناکام ریاست بننے سے محفوظ رکھے ہوئے ہے۔
آخری گزارش یہ ہے کہ جس طرح محترم سید جواد نقوی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں محبتوں بھرے حقائق قوم کے سامنے رکھے‘ اسی طرح اہلِ سنت علماء کی بھی ایک کثیر تعداد ہے جو حضرت حیدر کرار‘ فردوس کے سرداران حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین اور اہلِ بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی شان بیان کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے بارے میں منفی سوچ کا تیاپانچہ کرتے ہیں۔ لازم ہے کہ ہماری زبان اور قلم سے کوئی ایسا جملہ ادا نہ ہو کہ جس سے اہلِ پاکستان میں امن کی فاختائیں خون آلود ہوں۔ ہماری یاست میں فراست لازم ہے‘ تو مذہب میں امن کا چاند اور اس کی ٹھنڈی کرنیں نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونی چاہئیں۔ ہم سب کا پاکستان زندہ باد!