"AHC" (space) message & send to 7575

سید الانبیاءﷺ اور عالمی امن

حضرت سلیمان علیہ السلام کی جو بادشاہت تھی وہ نبوت و رحمت کے رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔ ان کی حکمرانی اپنے زمانے کی لاجواب سپر پاور تھی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام دنیا چھوڑ کر اپنے رب کریم کے پاس چلے گئے تو وقت کے لمبے دھاروں کے بعد بنو اسرائیل ہر طرح کے ظالمانہ اندھیروں کا شکار ہو گئے۔ تب بخت نصر‘ جو بابل کا حکمران تھا‘ ان پر مسلط ہوا اور اس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی بنائی ہوئی مسجد (ہیکل سلیمانی) کو زمین بوس کر دیا۔ بنو اسرائیل کا بے دریغ قتل کیا اور باقیوں کو قیدی بنا کر عراق یعنی بابل میں لے گیا۔ اس دوران بنو اسرائیل کے بارہ قبائل میں سے بعض لوگ اپنے علماء کی نگرانی اور رہنمائی میں سرزمین عرب میں جا بسے۔ ان کے علماء نے انہیں آگاہ کردیا تھا کہ اسی سرزمین میں ایک آخری رسول (حضرت محمد کریمﷺ) تشریف لائیں گے تو ہم ان کا انتظار کرتے ہیں۔ یہ لوگ حجاز‘ یمن اور دیگر قریبی علاقوں میں بس گئے۔ سینکڑوں سال بعد ایران کے بادشاہ سائرس نے بابل پر قبضہ کیا تو اس نے بنو اسرائیل کو دوبارہ سرزمین فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دے دی۔ یوں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ایک بار پھر موقع عطا کیا۔ چنانچہ حضرت سلیمان کی تعمیر کردہ مسجد دوبارہ بن گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان کے اندر پھر بگاڑ پیدا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ایک ہی زمانے میں انہیں تین پیغمبروں کی نبوت سے نوازا۔ حضرت زکریا علیہ السلام‘ ان کے بیٹے حضرت یحییٰ علیہ السلام۔ پھر یہ کہ حضرت زکریا علیہ السلام حضرت مریم علیہا السلام کی کفالت بھی کر رہے تھے کہ جو حرمِ قدس کیلئے وقف‘ اللہ کی عبادت میں مصروف رہتیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم علیہا السلام کو ایک معجزانہ بیٹا عطا کیا جو نبی اسرائیل کی طرف تیسرا پیغمبر اور رسول تھا۔ اس پر بنو اسرائیل نے حضرت مریم پر تہمت لگائی تو انہوں نے اپنی گود میں موجود بچے کی طرف اشارہ کیا۔ بچہ بولا: میں اللہ کا رسول ہوں‘ مجھے کتاب بھی دی گئی ہے‘ میری ماں پاک دامن ہے۔ بنو اسرائیل یہ معجزات دیکھ کر دنگ رہ گئے اور خاموش ہو گئے۔
اسی بچے کا نام حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہے۔ جواں سال روح اللہ حضرت مسیح علیہ السلام نے بنو اسرائیل کو دعوت دینا شروع کی۔ انہیں باور کرایا کہ تمہاری نافرمانیوں اور شریعت کے خلاف سرکشی کی وجہ سے رومی بت پرستوں کی غلامی تم پر مسلط ہے۔لہٰذا اپنی اصلاح کر لو۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بنو اسرائیل نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر فتویٰ لگا دیا کہ ان کا ہمارے دین سے کوئی تعلق نہیں رہا لہٰذا ان کے افکار اور خیالات کی سزا صرف موت ہے۔ یوں بت پرستوں کی عدالت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو موت کی سزا سنا دی گئی اور ان کے خیال میں اس پر عملدرآمد بھی کر دیا گیا۔ آخری پیغمبر حضرت محمدﷺ پر نازل ہونے والی آخری کتاب قرآن مجید نے واضح کیا کہ ان لوگوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نہ تو قتل کیا اور نہ ہی صلیب پر لٹکایا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا۔ جی ہاں! اس واقعے کے ٹھیک ستر سال بعد بنو اسرائیل نے رومی حکمرانوں کے خلاف بغاوت کر دی تو دوسری بار ان کی مرکزی عبادت گاہ (ہیکل سلیمانی) کو مسمار کر دیا گیا۔ ان کا قتل عام کیا گیا‘ یروشلم میں ان کا رہنا ممنوع قرار دے دیا گیا؛ چنانچہ یہ دنیا میں تتر بتر ہو گئے۔ تب سے لے کر 1948ء میں صہیونی مملکت کے قیام تک یہ دنیا میں بھٹکتے رہے۔ ان دو ہزار سالوں میں ان کے بعض لوگ اپنے علماء(ربیّون) کے کہنے پر سرزمین عرب میں آباد ہو گئے۔ یثرب میں ان کے تین قبیلوں بنو نضیر‘ بنو قریظہ اور بنو قینقاع نے اپنی اپنی بستیاں بنائیں۔ خیبر میں انہوں نے اپنی علاقائی حکمرانی قائم کر لی۔ یمن کے ایک بڑے علاقے میں بھی ان کی حکمرانی قائم ہو گئی۔ سب اسی بات کا انتظار کر رہے تھے کہ آخری رسول حجاز کے علاقے یثرب میں تشریف لائیں گے تو سب سے پہلے ہم ان پر ایمان لائیں گے۔
یمن کے حکمرانوں پر ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جب وہاں کے حکمران اپنے آپ کو ''تبع‘‘ کہلواتے تھے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاتھ پر وہاں کی ملکہ مسلمان ہو گئی تھی۔ وہ یمن کے علاقے ''سبا‘‘ کی حکمران تھی۔ اس زمانے کے بھی صدیوں بعد تک یہاں دینِ اسلام کے اثرات تھے۔ ایک ''تبع‘‘ جس کا نام سعد ابو کریب الحمیری تھا‘ وہ تورات پر ایمان رکھتا تھا۔ ڈاکٹر علی حسن خربوتلی اپنی کتاب ''تاریخ کعبہ‘‘ (مطبوعہ بیروت) میں لکھتے ہیں کہ یہ وہی بادشاہ ہے جس کا ایک شہزادہ یثرب میں گیا تو وہاں کے بنو اسرائیل نے اسے قتل کردیا۔ بادشاہ کو خبر ملی تو وہ بیٹے کی موت پر سخت رنجیدہ اور شدید غصے میں مبتلا ہو گیا۔ اس نے یثرب پر حملے کا پروگرام بنایا۔ وہ لشکر لے کر ثیرب جا پہنچا اور یثرب کے کنارے پر جب حملے کے لیے تیاری ہو رہی تھی تو یثرب کے یہودی علماء کا ایک وفد شاہِ یمن کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی شائع کردہ کتاب‘ جس کا عربی سے انگریزی ترجمہ ''آلفریڈگیوم‘‘ نے کیا ہے‘ وہاں بھی سیرت ابن اسحاق کے حوالے سے بتایا گیا کہ یہود کے جلیل القدر علماء نے بادشاہ کو آگاہ کیا کہ یہ وہی شہر اور علاقہ ہے جہاں رسول آخر الزمان حضرت محمدﷺ تشریف لائیں گے؛ چنانچہ اس شہر پر حملے کا مت سوچو۔ اس پر بادشاہ نے اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا کہ میں یثرب آیا تو میرا دل اپنے لختِ جگر کے انتقام میں جل رہا تھا۔ میں نے قسم کھا رکھی تھی کہ میں اس شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دوں گا مگر بنو قریظہ کے ایک بڑے عالم اور دیگر نے مجھے بتایا کہ وہ سچا رسول جو قریشی اور عربی ہوگا‘ وہ مکہ سے یہاں تشریف لائے گا۔ ان کی عزت و تکریم کو سامنے رکھ کر اس شہر کو مامون رہنے دیں تو میں نے آخری رسول کی خاطر سب کو معاف کردیا‘ سب کو امن دے دیا۔ میں اپنے بیٹے اور اس کے قاتلوں کا معاملہ حشر کے دن اللہ تعالیٰ پر چھوڑ رہا ہوں۔ میں اپنے چند لوگ اس آخری رسول کے استقبال کے لیے چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ میں نے اپنے قحطانی ساتھیوں میں سے اپنے ایک قرابت دار کو آخری رسول کے نام ایک خط بھی دیا ہے کہ نسل در نسل یہ خط محفوظ رہے اور جب وہ یثرب تشریف لائیں تو یہ خط ان کی خدمت میں پیش کر دیا جائے۔ مجھے امید ہے کہ ربِ تعالیٰ مجھے میرے پُرامن کردار کا صلہ عطا فرمائے گا۔ خط میں لکھا تھا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت احمد(ﷺ) اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔ اگر میں آپ جناب کے یہاں تشریف لانے کے زمانے میں زندہ رہا تو آپ سرکار میرے بادشاہ ہوں گے اور میں آپ کا ساتھی اور وزیر ہوں گا۔ اور اگر میں اس سے پہلے اس دنیا سے رخصت ہو گیا تو یہ گواہی ہے اس بات کی کہ میں آپ پر ایمان لاتا ہوں۔ محترم عبدالحمید قادری‘ جو 32 سال مدینہ منورہ میں مقیم رہے‘ اپنی ضخیم کتاب ''جستجوئے مدینہ‘‘ میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں: نسل در نسل یہ خط ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ منتقل ہوتا رہا۔ تاآنکہ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے پاس پہنچا اور انہیں وہ خط حضور سرورِ کائناتﷺ کی خدمت اقدس میں پیش کرنے کا فخر حاصل ہوا۔
لوگو! ہم سب صدقے اور قربان حضرت محمدکریم و عظیمﷺ کی پاک اور مبارک ذاتِ گرامی پر کہ آپﷺ کی تشریف آوری سے صدیوں قبل یمن کے بنو اسرائیل سے یثرب کے بنو اسرائیل کو امن ملا۔ انہیں معافی نامہ ملا تو ختم المرسلینﷺ کے پاک ناموں سے ملا کہ آپﷺ محمد ہیں اور آپﷺ ہی احمد ہیں۔ میں دنیا کے 57 مسلم ممالک کے حکمرانوں اور امورِ خارجہ کے وزرا سے گزارش کروں گا کہ مندرجہ بالا حقائق کو ایک دستاویز کی صورت میں مرتب کریں اور یہ دستاویز دنیا کے ہر حکمران تک پہنچائیں۔ اسرائیل اور دنیا بھر کے بنو اسرائیل تک پہنچائیں۔ ان کے بڑے چھوٹے علماء(ربیون) تک پہنچائیں کہ جس آخری رسولﷺ کے پاک و مطہر نام پر آپ لوگوں کو امن ملا‘ وہی امن اہلِ دنیا کو لوٹا دیں۔ اہلِ غزہ کو امن دے دیں‘ اہلِ فلسطین کو امن دے دیں۔ ایسا کرو گے تو اپنا بھی بھلا کرو گے اور دنیا کا بھی۔ پُرامن انسانیت زندہ باد! پاکستان پائندہ باد!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں