"AHC" (space) message & send to 7575

ڈیورنڈ لائن اور محسن افواج پر حملہ کیوں؟

اللہ حلیم و قدیر نے کیا حوصلہ دیا ہے پاک وطن کی افواج کو‘ کہ افغانستان کی سرحد کے ساتھ ان کے حلم و حوصلے کی ایک تاریخ ہے جو شمسی کیلنڈر کے حساب سے 78 جبکہ قمری کیلنڈر کے حساب سے 80 برسوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس 80 سالہ تاریخ کا جائزہ ہم بعد میں لیں گے پہلے ذرا اُس تاریخ کا جائزہ لے لیں جب آج کی پاک افغان سرحد وجود میں آئی۔ تاریخ یہ ہے کہ سارے برصغیر پر برطانیہ کی حکمرانی تھی۔ اس حکمرانی میں افغانستان بھی شامل تھا کیونکہ افغانستان کے امورِ خارجہ برطانیہ کے ہاتھ میں تھے۔ داخلی طور پر وہ خود مختار تھے۔ اس خود مختاری کی وجہ روس اور برطانیہ کے مابین خاموش معاہدہ تھا کہ روس اور برطانیہ کی سرحد ملنے نہ پائے تاکہ دو سپر پاورز براہِ راست جنگ سے محفوظ رہیں۔ افغانستان میں امیر عبدالرحمن حکمران تھے۔ انگریزوں اور افغانوں کے مابین سرحد کا جھگڑا کھڑا ہوا؛ چنانچہ 1893ء میں ایک کمیشن بنایا گیا‘ جس کے سربراہ ''سر ہنری مورٹیمرڈیورنڈ‘‘ تھے۔ فریقین کی رضامندی سے 2640 کلو میٹر لمبی سرحد طے کر دی گئی۔ یہ سرحد واخان سے لے کر ایران کے صحرا تک پھیلی ہوئی ہے۔ سرحد کے تعین میں دو باتیں بڑی اہم تھیں؛ ایک یہ کہ اتفاق کے بعد کوئی فریق اسے متنازع نہیں بنائے گا چنانچہ امیر عبدالرحمن خان نے 13 نومبر 1893ء کو جرگہ بلایا جس نے سرحدی معاہدے کی منظوری دی۔ اس معاہدے میں یہ بات بھی شامل تھی کہ برطانیہ جو امیر عبدالرحمن کو 12 لاکھ روپے وظیفہ دیتا تھا‘ اسے انگریز حکمران بڑھا کر 18لاکھ کر دیں گے؛ چنانچہ وظیفے میں بھی اضافہ کر دیا گیا۔ قارئین کرام! اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ افغانستان اپنی حکمرانی کا نظام چلانے کے لیے اس دور کی سپر پاور برطانیہ کی مالی مدد کا ضرورتمند تھا۔ امیر عبدالرحمن مرحوم نے اس معاہدے کو نبھایا ۔ وہ 1901ء میں فوت ہوئے۔ ان کے بعد ان کا بیٹا حبیب اللہ خان حکمران بنا۔ حبیب اللہ خان نے سرحد کو متنازع بنانے کیلئے ہلکی سی آواز اس لیے نکالی کہ وہ اپنا وظیفہ بڑھانا چاہتا تھا؛ چنانچہ انگریزوں نے وظیفہ بڑھا دیا اور مسئلہ حل ہو گیا۔1919ء میں حبیب اللہ کا بیٹا امان اللہ خان حکمران بنا۔ امان اللہ خان نے اپنے باپ سے کہیں آگے بڑھ کر سرحدی مسئلہ چھیڑ دیا‘ جس پر لڑائی کا آغاز ہو گیا۔ انگریز نے قندھار‘ جلال آباد اور دیگر علاقوں پر بمباری کی جس سے کافی نقصان ہوا۔ اس وقت عالمی حالات بدل چکے تھے‘ عالمی جنگ کے بعد روس اور برطانیہ کے مابین جنگ کے امکانات ختم ہو چکے تھے؛ چنانچہ برطانیہ نے افغانستان کو وزارتِ خارجہ کے امور واپس کر دیے اور طے ہو گیا کہ ڈیورنڈ لائن سمیت تمام سرحدوں کے اندر اب افغانستان آزاد ملک ہے۔ یوں ڈیورنڈ لائن نے قانونی شکل اختیار کرلی۔ 1919ء سے لے کر 1947ء تک اگلے 28برسوں میں اس پر کوئی تنازع پیدا نہیں ہوا۔
قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی قیادت میں مسلمانانِ ہند کی جدوجہد آزادی کامیاب ہوئی۔ پاکستان نوشتۂ تقدیر بن گیا تو پنڈت جواہر لال نہرو کو بڑی تکلیف ہوئی کہ اس کی بے پناہ رکاوٹوں کے باوجود مسلمانوں کا ایک بڑا اور نیا ملک بننے جا رہا تھا؛ چنانچہ صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) میں کانگریس کی جو تنظیم تھی‘ اس کا بنوں میں اجلاس بلایا گیا اور کہا گیا کہ ریفرنڈم میں پاکستان اور بھارت کے ساتھ تیسرے ملک پختونستان کی چوائس بھی ہونی چاہیے۔ اس پر صوبہ سرحد کے لوگ بھاری اکثریت میں حضرت قائداعظم ؒ کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ انہیں اسلامی بھائی چارے کے ساتھ یہ بھی نظر آ رہا تھا کہ ''افغانستان لینڈ لاکڈ‘‘ ملک ہے اور پاکستان طویل سمندری ساحل کے ساتھ ایک خوشحال ملک بننے کی پوزیشن میں ہے؛ چنانچہ نہرو کی سازش ناکام ہو گئی۔ افغان حکمران مگر باز آنے والے نہ تھے۔ ان کے وزیر ہاشم خان نے 20 جون 1947ء کو پختونستان کا ایشو کھڑا کردیا۔ جب افغانستان سمیت ساری دنیا کے مسلمان خوش ہو رہے تھے کہ مسلمانوں کا ایک نیا ملک بن رہا ہے عین اس وقت افغانستان کے چند حکمرانوں نے قیامِ پاکستان سے محض 54 دن قبل اہلِ اسلام کی خوشیوں کے رنگ میں بھنگ ڈالنے کی کوشش کی جو ناکام ہوئی۔ 14 اگست 1947ء کو رمضان المبارک کی ستائیسویں رات کو پاکستان وجود میں آ گیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد‘ 30ستمبر 1947ء کو افغان حکمران ظاہر شاہ کے نمائندے نے اقوام متحدہ میں قیام پاکستان کے خلاف ووٹ دیا۔ مگر پاکستان پائندہ باد تھا ‘ہے اور ان شاء اللہ ہمیشہ رہے گا۔
ہم اہلِ پاکستان اپنے عظیم قائد محمد علی جناح ؒ کی فکر اور دور اندیشی پر قربان کہ انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی اولین کاموں میں سے ایک کام یہ کیا کہ ایک سرکاری وفد کابل بھیجا۔ پیغام یہ تھا کہ جو ہو گیا‘ سو ہو گیا۔ آیئے! مل کر آگے بڑھیں اور ایک دوسرے کا ہاتھ تھامیں۔ پیام یہ تھا کہ ہمیں تو سرحد ورثے میں ملی‘ برطانیہ کے ساتھ تو آپ کا اتفاق تھا‘ ہمارے ساتھ اختلاف کیوں؟ مگر معاملہ تھم نہ سکا۔ کابل میں افغان حکمرانوں کی نگرانی میں پختونستان کے نام سے جشن اور تقریبات ہونے لگ گئیں۔ 1950ء میں‘ یعنی قیام پاکستان کے محض تین ساڑھے تین سال بعد ہی وادیٔ تیراہ میں پختونستان کے قیام کا اعلان کر کے چھ ہزار کے مسلح لشکر نے پاکستان پر حملہ کر دیا۔ بعض مارے گئے اور باقی ماندہ بھاگ اٹھے۔ یہ پانچ روزہ جنگ تھی۔ پاک فوج کا حوصلہ کہ صرف دفاع تک محدود رہے۔ بھاگنے والوں کا پیچھا تک نہیں کیا۔ پاکستان اپنے قائد کی پیروی اور پالیسی میں بھائی چارے کی کوششیں کرتا رہا۔ برادرانہ جدوجہد کا پھل یہ ملا کہ گیارہ سال بعد 1961ء میں 15 ہزار افغان لشکریوں نے باجوڑ پر حملہ کردیا۔جی ہاں! یہ دونوں حملے ڈیورنڈ لائن معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی تھے۔ ویسے تو 1948ء ہی سے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے ناراض مقامی رہنما کابل جانا شروع ہو گئے تھے‘ ٹریننگ کیمپ بھی بن گئے تھے‘ پاکستان میں حملے بھی شروع ہو گئے تھے مگر 1960ء میں یہ مزید بڑھ گئے۔ 1980ء میں الذوالفقار کے ٹریننگ کیمپ بنے۔ پی آئی اے کا طیارہ اغوا ہوا تو وہ کابل ہی پہنچا۔ وہاں سے مدد لے کر طیارے نے اڑان بھری اور دمشق جا پہنچا؛ جہاں میجر کلیم کو جہاز سے نیچے اتار کر گولیاں مار کر شہید کردیا گیا۔ وہ ایک مسافر تھے مگر... پاک افواج کا ہمالیہ جیسا دل اور مائونٹ ایورسٹ جیسا بلند حوصلہ کہ وہ اسلامی بھائی چارے کی خاطر بہت کچھ فراموش کرتی رہیں۔ مجھے ایسے لگتا ہے کہ جیسے ان بہادر سپوتوں نے جی ایچ کیو میں ایک طاقِ نسیاں بنا رکھا ہے جہاں ملک و ملت کے وسیع تر مفاد کی خاطر شہیدوں اور غازیوں کی خونچکاں داستانوں کو چھپا دیتے ہیں۔ دراصل وہ اس کا صلہ اپنے رب کریم کے سامنے حضور رحمت دو عالمﷺ کے دستِ مبارک سے لینا چاہتے ہیں۔ لاتعداد مبارکبادیں اے اللہ کے شیرو!
آج سے 40سال پہلے افغان سرزمین پر جانا ہوا۔ کابل وقندھار‘ غزنی و دشت‘ سالانگ اور دریائے آمو کے کنارے‘ خیوہ اور جلال آباد کی گلیاں‘ وہ کونسا علاقہ ہے جہاں اہلِ پاکستان کا خون افغان بھائیوں کے خون کیساتھ ملا ہوا نہیں؟ چالیس لاکھ افغان 40سال سے ہمارے مہمان ہیں۔ پاک وطن کی کوئی گلی کسی کیلئے ممنوعہ نہ تھی۔ پاک افواج 40 سال تک مظلوموں کی خدمت میں مگن رہیں۔ ہم نے 40 سال دہشتگردی کو بھگتا۔ انہیں اقتدار ملا تو ہم خوش ہوئے کہ مغرب سے ٹھنڈی ہوا آئے گی مگر خارجی فتنہ پہلے سے بڑھ کر اہلِ پاکستان کو خون کا غسل دے رہا ہے۔ لوگو! یہ کہاں کا تقویٰ ہے کہ خارجی فتنے کو روکنے کے بجائے نیو دہلی میں کھڑے ہو کر اہلِ کشمیر کے دلوں میں لفظوں کا خنجر پیوست کر دیا جائے اور اسی دوران محسن افواج پر حملہ کر دیا جائے؟ ہماری وزارتِ خارجہ کی یہ بات برحق ہے کہ دوحہ معاہدے پر عمل کیا جائے۔ کثیر القومی حکومت بنائی جائے۔ الیکشن ہوں اور ملک کی جائز نمائندہ حکومت سامنے آئے۔ اسی میں افغان قوم کی عزت ہے۔ اسی حق کیساتھ افغانستان باوقار بنے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں