اللہ تعالیٰ اپنے منکر اور ناشکرے بندے پر برہم ہوتے ہوئے انتباہ کرتے ہیں ''مارا جائے یہ انسان، کس قدر اللہ کا منکر وناشکرا ہے۔ (غور نہیں کرتا کہ کس منظم نظام کے اندر) اللہ نے اسے کیسے پیدا کیا‘‘ (عبس: 17 تا 18)۔ مندرجہ بالا آیت میں شَیْئٍ کا لفظ اپنے اندر ایک منظم سسٹم کی عظمت کو لیے ہوئے ہے‘ اسی لیے راقم نے ترجمے میں اس کی عظمت ورفعت کو ذرا کھولنے کی کوشش کی ہے۔ سورۂ عبس کے تین حصے ہیں؛ تینوں کا آغاز ہی اللہ تعالیٰ کے پُرجلال انداز سے ہوتا ہے۔ ہمارے سامنے اس سورت کا درمیانی حصہ ہے۔ اس حصے کی پہلی دو آیات کا ترجمہ قارئین کرام کے سامنے ہے۔ آئیے! اب ہم انسان کے جسمانی ڈھانچے کی جانب رُخ کرتے ہیں۔
انسان جب بیمار ہوتا ہے‘ بیماری کی وجہ سے اس کا کوئی عضو ناکارہ ہو جاتا ہے تو کسی دوسرے انسان کا عضو اس میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جگر کی پیوند کاری کی جاتی ہے‘ گردہ بھی ڈالا جاتا ہے‘ پھیپھڑا بھی تبدیل کیا جاتا ہے‘ آنکھ‘ دل اور دیگر اعضاء کو بھی ٹرانسپلانٹ کیا جاتا ہے۔ ہر انسان کے اندر ایک دفاعی نظام ہے جسے ''امیون سسٹم‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ نظام کسی دوسرے جسم کے اعضا کو اپنے اندر قبول نہیں کرتا۔ جب کوئی عضو ٹرانسپلانٹ ہوتا ہے تو یہ سسٹم مزاحمت شروع کر دیتا ہے۔ اس مزاحمت کو روکنے کے لیے طرح طرح کی ادویات دی جاتی ہیں۔ مزاحمت مزید ہو تو مریض کا یہ ٹرانسپلانٹ والا عضو بھی ناکارہ ہو جاتا ہے‘ مزید اعضا بھی کام کرنا چھوڑ سکتے ہیں۔ اس طرح کے کیسز میں کبھی کبھار مریض دنوں‘ مہینوں یا سال دو سال بعد فوت ہو جاتا ہے۔ کئی مزید کچھ سال بھی نکال لیتے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ انسانی جسم کے اندر ایک توازن اور میزان ہے‘ جب یہ خراب ہوتا ہے تو انسان کی زندگی خطرے کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس خطرے کا اب ایک حل سامنے آیا ہے۔ اکتوبر 2025ء میں‘ جن تین لوگوں نے اس خطرے کو دور کیا ہے اور انسانیت کی بہت بڑی خدمت انجام دی ہے‘ انہیں انعام دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ بجا طور پر انعام کے لائق ہیں۔
سویڈن کے ایک صنعتکار انجینئر تھے‘ وہ ممتاز سائنسدان بھی تھے۔ بہت مالدار انسان تھے۔ ان کا نام ''الفریڈ نوبیل‘‘ تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا ایک بڑا حصہ ایسے علمائے فطرت کے نام کردیا جو انسانیت کو سب سے بڑھ کر فائدہ پہنچائیں۔ اللہ اللہ! انسانیت کو فائدہ پہنچانے کا یہ اصول تو اللہ تعالیٰ نے پندرہ صدیاں قبل اپنی آخری کتاب میں بیان فرما دیا ''جو چیز انسانیت کو فائدہ دیتی ہے وہی زمین میں قرار حاصل کرتی ہے‘‘ (الرعد: 17)۔ قارئین کرام! میڈیکل کے شعبے میں انسانیت کو فائدہ پہنچانے والی مذکورہ ریسرچ کا سہرا جن تین سائنسدان کے سر ہے‘ ان میں ایک جاپان کے سائنسدان Shimon Sakaguchi ہیں جبکہ دیگر دو کا تعلق امریکہ سے ہے۔ خاتون سائنسدان کا نام Mary E. Brunkow ہے جبکہ مرد سائنسدان کا نام Fred Ramsdell ہے۔ ان تینوں کو مشترکہ طور پر ''رائل سویڈش اکیڈمی آف سائنسز‘‘ نے رواں سال طب کے شعبے میں نوبیل انعام کا حقدار قرار دیا ہے۔ نوبیل انعام 1901ء سے ہر سال متواتر دیا جا رہا ہے۔ ہر سال چھ مختلف شعبوں میں یہ انعام دیا جاتا ہے جن میں فزکس‘ میڈیکل‘ ادب اور ''امن‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔
ایک انسان میں لگ بھگ 37 ہزار سے چالیس ہزار ارب سیل (خلیات) ہوتے ہیں۔ خوفناک وائرس یا جراثیم سانس وغیرہ کے ذریعے ان خلیات پر حملہ آور ہوتے ہیں تو انسانی جسم کے اندر نافذ مدافعتی نظام حرکت میں آ جاتا ہے۔ یوں سمجھئے کہ اس نظام کے کارندے بیرونی حملہ آوروں سے لڑائی شروع کر دیتے ہیں۔ یہ کارندے ایک منظم نظام کے تحت لڑتے ہیں۔ اس نظام کو ''امیون سسٹم‘‘ کہا جاتا ہے۔ امیون سسٹم کے کارندے اس لیے حملہ آور ہوتے ہیں تاکہ انسانی جسم بیماریوں کا شکار نہ ہو اور وہ تندرست رہے مگر ایسا بھی ہوتا ہے کہ بیرونی دشمن امیون سسٹم کے کارندے کا بھیس اختیار کر لیتا ہے۔ یوں مدافعتی نظام اپنے ہی کارندوں کو مارنا شروع کر دیتا ہے‘ جس سے انسانی جسم میں بیماریاں تیزی سے پھیلتی ہیں۔ مندرجہ بالا ریسرچ کی روشنی میں اب ایک اور نظام سامنے آیا ہے‘ اسے Peripheral Immune Tolerance سسٹم کہا جاتا ہے۔ جی ہاں! یہ ہے دریافت اس سسٹم کی‘ جو جسم کے اندر جسمانی میزان کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ کارندے جو اندھا دھند حملے شروع کر دیتے ہیں‘ مندرجہ بالا سسٹم ان کو روکتا ہے۔ وہ برداشت (Tolerance) کے آرڈر جاری کرتا ہے۔ اب اس سسٹم کو بروئے کار لا کر یہ فائدہ بھی حاصل کیا جائے گا کہ انسانی جسم میں جو اعضا پیوند کیے جاتے ہیں‘ ان کو تسلیم کیا جائے‘ ان کو برداشت کیا جائے‘ ان کو جسم کے لیے مفید سمجھا جائے۔ جی ہاں! یہ وہ دریافت ہے جو دنیا بھر کی انسانیت کو دکھوں سے نکال کر سکھی کر دے گی۔
ہم غور کریں تو انسانی معاشرے بھی ایک جسم کی طرح ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان کا معاشرہ‘ جو 25 کروڑ افراد کا معاشرہ ہے‘ یہ انسانی خلیات کے مقابلے میں بہت چھوٹا ہے۔ اس قدر چھوٹا ہے جیسے تھر کے ریگستان کے مقابلے میں 25 کروڑ ذرات۔ جسم کے 37 ہزار سے چالیس ہزار ارب خلیات کے صحرا کو میڈیکل سائنسدانوں نے ایک ایسی ٹیم دریافت کرکے دی ہے جو بعض کارندوں کی متشدد حرکات کو روک دیتی ہے۔ سوال یہ ہے ہمارے 25 کروڑ انسانوں کے معاشرے میں ایسے سائنسدان‘ ایسی ٹیم کہاں ہے‘ جو معاشرے کے پرُتشدد لوگوں کو روک سکے؟ میں کہتا ہوں یہ بالکل ممکن ہے۔ سائنسدان‘ سیاستدان‘ مذہبی علماء‘ وکلا ‘ صحافی اور دانشور سب سوشل سائنسدان بن جائیں۔ معاشرے میں نرمی اور پیار ومحبت کے کلچر کو فروغ دیں۔ دوسروں کے کام آنے والے بن جائیں۔ معاشرے کی اصلاح ہمدردانہ دعوت سے ہو گی‘ سخت فتووں سے نہیں۔ ہر مسلک کے الگ الگ فتوے ہیں۔ ہر مسلک کے مفتیوں کے فتوے ایک دوسرے کے مقابل آئیں گے تو ایک ٹکرائو پیدا ہو گا‘ معاشرے میں انتشار پیدا ہوگا۔ لہٰذا مفتی کون ہے اور فتویٰ دینے کا مُجاز کون ہے‘ گورنمنٹ کو اس کا نظام بنانا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم میں جو نظام رکھا ہے‘ یہ متوازن نظام ہے۔ اس نظام کا میزان عدل پر مبنی ہے۔ حکومت کو ایسا ہی نظام اور سسٹم بنانا پڑے گا۔ یہ نظام سیاسی مفادات کے تحت نامزدگیوں سے بالا ہونا چاہیے‘ وگرنہ اپنی ساکھ کھو ڈالے گا۔
دہشت گردی کا وائرس ہمارے وطن عزیز میں کئی سالوں سے سرگرم ہے۔ ہمارے سکیورٹی کے جو ادارے ہیں‘ ان کے نوجوان اور آفیسرز اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر ہم اہلِ وطن کو امن فراہم کرتے ہیں۔ اس پاکیزہ خون کی وجہ سے ہماری مساجد‘ ہمارے بازار‘ ہمارے کاروبار اور شہر ودیہات پُرامن ہیں۔ بعض فرقہ پرست عناصر کے بیانات اور زبان کی سختی امن کے اس غلاف پر جلتی آگ پر پٹرول پھینکنے کا کام کر جاتی ہے۔ ہجوم اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ لاء اینڈ آرڈر کے مسائل شروع ہو جاتے ہیں۔ قانون اس ہجوم سے خوف کھانا شروع کر دیتا ہے۔ معاشرے کے نرم خو سوشل سائنسدان ایسی صورتحال میں دبک کر بیٹھ جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری حکمرانی اس چلن کا عادلانہ حل نہیں نکالے گی تو معاشرے کا میزان اور توازن مزید خرابی کی طرف جاتا چلا جائے گا۔ ہمارے شیر جوان بیٹوں اور بھائیوں کی قربانیاں تقاضا کر رہی ہیں کہ Peripheral Immune Tolerance کو ایکٹو کیا جائے‘ شکریہ!