"AHC" (space) message & send to 7575

قرآن کریم، سیرت اور سائنس کے عجائب

اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب ''قرآن مجید‘‘ میں ایک مومن کا ذکر کیا ہے‘ جو فرعون کے شاہی دربار سے تعلق رکھتا تھا مگر یہ اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا اور جس قدر ممکن ہو سکتا تھا‘ اہلِ ایمان کی مدد کرتا تھا؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے مصطفیﷺ پر ''المؤمن‘‘ کے نام سے سورت نازل فرمائی۔ ارشاد فرمایا ''(میرے حبیبﷺ) صبر کیجئے! کوئی شک نہیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے (یہ لوگ جو آپ کی جان کے درپے ہیں‘ ہم ان کو بتلائے دیتے ہیں کہ) ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ہم آپ کی موجودگی میں ہی ان لوگوں کو اُس بدترین انجام سے کچھ حصے دکھا دیں جن سے ہم ان کو خبردار کر رہے ہیں۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ (ہم انہیں ان کا کوئی انجام دکھلائے بغیر) آپ کو اپنے پاس بلا لیں۔ (مگر بعد میں) یہ لوگ بھی ہماری ہی طرف پلٹائے جائیں گے (اور پھر ان پر حقیقت آشکار ہو جائے گا)‘‘ (المؤمن: 77)۔ قارئین کرام! آپ نے جس آیت مبارکہ کا ترجمہ ملاحظہ کیا اس مفہوم کی قرآن مجید میں تین آیات ہیں۔ ہر آیات میں یہی بیان آیا ہے کہ میرے حبیبﷺ! ہم آپ کو اپنے پاس بلا لیں گے۔ پہلی آیت آپ نے ملاحظہ کر لی‘ یہ آیت جس سورت میں ہے قرآن مجید میں اس کا نمبر 40 ہے۔ گویا یہ ایک پیغام ہے کہ میرے پیارے رسولﷺ کی 40 سالہ زندگی ہر لحاظ سے بے عیب‘ عالیشان اور حق سچ کا نمونہ ہے۔ یہ لوگ آپﷺ کو اور آپ کے ساتھیوں کو ستا رہے ہیں تو اپنے ساتھیوں کو صبر کی تلقین کریں۔ کامرانی بہت قریب ہے۔ نبوت کے سات‘ آٹھ سال گزر چکے ہیں اور منزل قریب آ گئی ہے۔ جی ہاں! مذکورہ سورت کے نمبر کو دیکھیں تو اس مکی سورت میں حضورﷺ کی عمر مبارک 40 سال بتا دی گئی ہے کہ اس عمر مبارک میں نبوت ملی اور پیغام رسانی کا حق ادا کر دیا گیا۔
اگلی سورت بھی مکی ہے‘ قرآن مجید میں اس سورت کا نمبر 13 ہے۔ گویا کہ اشارہ کر دیا گیا ہے کہ مکہ مکرمہ میں آپﷺ اور آپ کے صحابہ کرامؓ کے قیام کی مدت کا عرصہ 13 سال ہے۔ اس سورت کا نام ''الرعد‘‘ ہے۔ اس کے نام میں ایک پیغام یہ بھی ہے کہ جونہی آپ لوگ مکہ سے ہجرت کرکے جائیں گے تو اگلے ہی سال بدر کا معرکہ ہو گا‘ جس میں مومنوں کی تلوار ایسے گرجے گی کہ کفارِ مکہ کے 70 سورما مارے جائیں گے۔ اب سورۃ الرعد میں آیت کا ترجمہ ملاحظہ ہو ''(میرے رسولﷺ!) جس بھیانک انجام سے ہم ان لوگوں کو خبردار کر رہے ہیں اس کی کچھ جھلکیاں ہم نے ان کو دکھلا دیں‘ اب (بعض کے ظہور پذیر ہونے سے پہلے ہی اگر) آپ کو اپنے پاس بلا لیں (تو) آپ کی ذمہ داری پیغام رسانی ہے (آپ نے اپنا کام مکمل کر دیا ہے‘ اب) ان کی حساب دانی ہمارے ذمے ہے‘‘ (الرعد: 40)۔
تیسری اور آخری سورت جو اس موضوع سے متعلق ہے‘ وہ قرآن کی ترتیب میں دسویں سورت ہے۔ یعنی پیغام یہ ہے کہ جہاں آپﷺ نے ہجرت کر کے جانا ہے یعنی مدینہ منورہ‘ وہاں پر آپﷺ کا قیام دس سال ہو گا اور ان منکروں کی سرکوبی اب مدینہ منورہ ہی سے ہو گی۔ فتح مکہ کی صورت میں ان کے اقتدار اور غلبے کا خاتمہ ہو جائے گا‘ یوں آپﷺ کی برکتوں بھری عمر مبارک 63 برس ہو گی۔ لوگو! یہ ہیں قرآن مجید کے عجائبات! سبحان اللہ! اب مذکورہ سورت کی آیت کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔ فرمایا ''جن (سنگین عذاب کے) وعدوں سے ہم انہیں خبردار کر رہے ہیں‘ ان کے کچھ حصے ہم آپ کو آپ کی زندگی میں دکھلا دیں یا پھر یہ کہ (کچھ حصے دکھلا کر) اپنے پاس بلا لیں (اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا)‘ آخرکار ان لوگوں نے ہماری طرف ہی پلٹ کر آنا ہے۔ (اور) یہ لوگ جو (بُرے) کردار ادا کر رہے ہیں اللہ اس پر (آگاہ و) گواہ ہے‘‘ (یونس: 46)۔ قارئین کرام! یہ قرآن کریم کے معجزانہ کلام کے وہ چند موتی ہیں‘ جنہیں ہم پا سکے ہیں۔ قرآن مجید علم کا ایک ایسا نورانی سمندر ہے جس کا کوئی کنارا نہیں۔ اہلِ علم قیامت تک موتی‘ مرجان ڈھونڈتے رہیں گے مگر اس علم کی گہرائی اور کنارا نہ ملے گا۔
قارئین کرام! اب ہم ''سورۃ الرعد‘‘ کو ذہن میں رکھتے ہوئے سائنس کے میدان میں داخل ہوتے ہیں۔ آیت 40 سے اگلی آیت کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔ ارشاد گرامی ہے ''(قیامت تک آنے والے) یہ لوگ دیکھ نہیں رہے کہ ہم اس زمین کی جانب بڑھ رہے ہیں اور اس کے اطراف کو سکیڑتے چلے جا رہے ہیں۔ اللہ ہی کا حکم رواں دواں ہے۔ اس کے حکم کے قریب بھی کوئی پھٹک نہیں سکتا۔ وہ جلد ہی حساب لینے والا ہے‘‘ (الرعد: 41)۔ مفسرین نے اپنے زمانے کے حساب سے اس آیت کی بالکل درست تفسیر کی کہ اسلام کی سرزمین بڑھتی چلی جائے گی اور ظلم وعدوان کی زمین گھٹتی چلی جائے گی۔ جی ہاں! ایسا ہی ہوا۔ موجودہ زمانہ سائنس کا زمانہ ہے۔ اب اس آیت کی سائنسی توضیحات بھی کی جا رہی ہیں۔ قرآن مجید کی زیر نظر آیت مبارکہ میں زمین کے ''اطراف‘‘ کو کم کرنے اور سکیڑنے کی جو بات کی گئی ہے‘ اسی طرح ''اطراف‘‘ کا لفظ سورۂ طٰہٰ کی آیت: 130 میں بھی آیا ہے۔ اس آیت میں سورج کے طلوع ہونے اور غروب ہونے کی بات کے بعد رات اور دن کے کناروں کی بات کی گئی ہے کہ ان اوقات میں نماز ادا کی جائے۔ اب ان اوقات کا تعلق زمین کی فضا سے ہے یعنی زمین کی فضا بھی زمین کا حصہ ہے۔ یاد رہے کہ زمین کی سطح سے اوپر بارہ کلومیٹر تک فضا کا جو حصہ زمین کے گرد لپٹا ہوا ہے‘ اسے Troposphere کہا جاتا ہے۔ 12کلومیٹر سے 50 کلومیٹر تک کی جو فضا ہے اسے Stratosphere کہا جاتا ہے۔ اسی میں ''اوزون‘‘ ہے۔ پھر 50کلومیٹر سے 80 کلومیٹر تک کے فضائی غلاف کو Mesosphere کہا جاتا ہے۔ امریکہ کے خلائی ادارے ''ناسا‘‘ نے 2002ء سے 2020ء تک متواتر سترہ سال سیٹلائٹ کے ذریعے فضائی تہوں (Layers) کا جائزہ لیا تو سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے کہ میسوسفیئر کا نچلا حصہ جسے Lower Thermosphere کہا جاتا ہے‘ وہ حصہ مسلسل ٹھنڈا ہو کر سکڑ رہا ہے۔
ناسا کے سائنسدان اپنی تحقیق میں کہتے ہیں کہ ایسا اس لیے ہو رہا ہے کہ زمین پر کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر ''گرین ہائوس گیسز‘‘ کی مقدار متواتر بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اس کے نتیجہ میں زمین پر گرمی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ زمین کے دونوں سرے اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ جنوبی اور شمالی قطبین پر برف کو گرمی پگھلا رہی ہے۔ یہی گرم گیسیں جب اوپر والی تہوں میں جاتی ہیں تو وہاں الٹا اثر پڑتا ہے کیونکہ وہاں ہوا انتہائی پتلی ہو جاتی ہے۔ اس لحاظ سے وہاں مناسب حدت ہی ہوتی ہے‘ جب حدت زیادہ ہو جاتی ہے تو پتلی ہوائی پٹی سے ساری حدت اوپر کو چلی جاتی ہے اور یہ پٹی متواتر سکڑتی چلی جا رہی ہے کیونکہ اپنی محدود حد سے یہ زیادہ ٹھنڈی ہو رہی ہے‘ یوں زمین اور فضا کا نظام غیر متوازن ہو رہا ہے۔ یہ پٹی گزشتہ سترہ سالوں میں چار ہزار چار سو فٹ تک سکڑ چکی ہے۔ اللہ اللہ! قرآن مجید نے 'اطراف‘ کے سکڑنے کا جو ذکر فرمایا‘ وہ آج ہم نے دیکھ لیا ہے۔ دنیا اپنے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ آئیے! اپنی آخرت کی فکر کریں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں