پاکستان میں ان دنوں سول نافرمانی بڑی شدو مد سے زیر بحث ہے۔ دربار سرکار کے سائے میں کچھ خوشحال لوگوں کے نزدیک دنیائے سیاست میں سول نافرمانی کی تاریخ موجود نہیں۔ اس انجمنِ تابعدارانِ اقتدار کے لیے بیسویں صدی سے ایک یادگار مثال پیش ہے۔ باکسنگ لیجنڈ جناب محمد علی نے ویتنام جنگ کے حوالے سے امریکی حکومت کا حکم ماننے سے انکار کر کے یہ مثال قائم کی تھی۔ جب لازمی فوجی سروس کے قانون کے تحت محمد علی سے کہا گیا کہ وہ ویت نام جنگ میں شرکت کریں۔ اس پہ عظیم باکسر نے وہ جملہ کہا جس نے پوری دنیا کے آزادی پسندوں کو سرشار کر دیا: I ain't got no quarrel with them Viet Cong. No Viet Cong ever called me nigger۔ مردِ آزاد کے اس مؤقف کے نتیجے میں ریاستی جبروت کے ذریعے 1967ء میں محمد علی کو باکسنگ رِنگ سے جیتی ہوئی ورلڈ باکسنگ چیمپئن شپ سے محروم کر دیا گیا۔ ساتھ ہی انہیں پانچ سال قید کی سزا سنا کر جیل بھیج دیا گیا۔ وقت کا پہیہ آگے کو دوڑتا ہے۔ 2024ء میں اسی امریکہ میں نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر رِچرڈ گرینیل‘ امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے موجودہ ترجمان Matthew Miller کے تازہ بیان پر کمال سرجیکل تبصرہ کرتے ہیں۔ مسٹر مِلر نے بیان دیا:
The United States is concerned by the sentencing of Pakistani civilians in a millitary tribunal and calls upon Pakistani authorities to respect the right to a fair trial and due process.
مِلر کے اس بیان کی رِچرڈ نے تین شارٹ لائنز میں دھجیاں اُڑا کر رکھ دیں۔ پہلی لائن میں کہا: You are late۔ پھر مِلر کے ٹویٹ کا ٹیکسٹ لگا کر اپنے ایکس (ٹویٹر) اکاؤنٹ سے لکھا: And this is too little and too weak۔ تیسری لائن میں جو بائیڈن کے ترجمان کو یہ مشورہ بھی دیا: Speak normally, free Imran Khan۔ پاکستان میں انٹرنیٹ سلو ڈاؤن کے ذریعے نوجوانوں کے بزنس اور فری لانسنگ کا دھڑن تختہ کرنے والی سرکار کی ہٹ دھرمی کا نوٹس لیتے ہوئے مسٹر رِچرڈ نے اپنے آنے والے کیبنٹ کولیگ مسٹر ایلون مسک کو بھی پبلک پیغام کے ذریعے مخاطب کیا‘ جس میں کہا: ہیلو جناب ایلون مسک‘ آپ پاکستان کو اپنی اس فہرست میں ڈال لیں جن ممالک کو آپ کے سٹار لنک کی سہولت میں شامل کرنے کی فوری ضرورت ہے۔
I'll say it again کی دوسری قسط کے آخر میں لکھا تھا: ''اگلے 24گھنٹے میں دو فیصلے سامنے آئیں گے‘‘۔ پہلا فیصلہ پی ٹی آئی سے وابستہ 25+60 سیاسی کارکنوں کو ملٹری کورٹ سے ملنے والی سزاؤں کی صورت میں سامنے آگیا جس پر امریکہ‘ برطانیہ اور اقوامِ متحدہ سمیت یورپی یونین کے ممالک نے شدید تشویش کا اظہار کیا۔ اس حوالے سے چھٹی کے روز یورپی یونین ایکسٹرنل ایکشن سروس نے ہنگامی اعلامیہ جاری کیا جس کے اہم نکات یہ ہیں: ''یورپی یونین کی نظر میں ان فیصلوں کو ان ذمہ داریوں سے متصادم قرار دیا جاتا ہے جو پاکستان نے شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے (ICCPR) کے تحت قبول کر رکھے ہیں۔ یورپی یونین نے اس اعلامیے میں واضح کیا کہ آئی سی سی پی آر کے آرٹیکل نمبر 14 کے مطابق ہر شخص کو عدالت میں منصفانہ اور عوامی مقدمے کی سماعت کا حق حاصل ہے جبکہ ٹرائل کورٹ آزاد‘ غیر جانبدار اور اہل ہو اور اسے مناسب اور مؤثر قانونی نمائندگی کا حق حاصل ہو۔ یورپی یونین کا کہنا ہے کہ اسی آرٹیکل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فوجداری مقدمے میں جو بھی فیصلہ دیا جائے‘ وہ پبلک ٹرائل کے ذریعے پبلک بھی ہو۔ یورپی یونین نے اس اعلامیے میں مزید کہا کہ یورپی یونین کی جنرلائزڈ سکیم آف پریفرنسز (GSPپلس) کے تحت پاکستان سمیت استفادہ کرنے والے ممالک نے رضاکارانہ طور پر 27 بین الاقوامی بنیادی کنونشنز بشمول آئی سی سی پی آر کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنے کا ذمہ بھی لے رکھا ہے تاکہ GSP پلس سٹیٹس سے مستفید ہوتے رہیں‘‘۔
مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ عمران حکومت میں ایف اے ٹی ایف کی قانون سازی کے عمل کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں مَیں نے لیڈ کیا تھا۔ پاکستان کے سویلین شہریوں کو ملٹری کورٹ کی طرف سے دی گئی سزا 25کروڑ لوگوں کے مفادات کو متاثر کرے گی۔ اس وقت دنیا میں یورپی یونین کے ممالک حجم میں ہمارے سب سے بڑی رعایتی برآمدی تجارت کے مفادات سے جڑے ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی ایف اے ٹی ایف قوانین کو بھی پاکستان کے عوام کی شہری آزادیوں اور بنیادی حقوق سے جوڑا گیا ہے۔ اس پر اگلے روز میں نے راولپنڈی کی انسدادِ دہشت گردی عدالت میں کہا: اگر ان سزاؤں کو واپس نہ لیا گیا تو 27 بین الاقوامی کنونشنز کی نافرمانی کے الزام میں پاکستان پہ پابندیاں عائد ہونے کے واضح اشارے اور خطرات سامنے ہیں۔
ہمارے مستقبل کے لیے ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اسحاق ڈار کے نیچے وزارتِ خارجہ ایک گول مول مبہم سطحی بیان سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ المیہ یہ ہے کہ پہلے ہی وزارتِ خارجہ کی ایک ناکامی پچھلے ہفتے سامنے آچکی جب ہمارے Legitimate Defense Systemپر امریکہ نے چار پابندیاں لگا دیں‘ جس کی امریکہ میں ہمارے سفارت کاروں کو کانوں کان خبر نہ ہو سکی۔ جس ریاست کے فیصلے قومی ترجیحات کے بجائے انتقامی اقدامات کی سوچ کے ذریعے ہوتے ہوں اسے عالمی برادری میں پذیرائی کے بجائے کھلے ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ہمارے ساتھ یہی ہوا۔
دوسرے فیصلے میں تاریخ پڑ گئی۔ انصاف کے نام پر کھلی بے انصافی‘ پارٹی بازی اور سیاسی انجینئرنگ کی یہ مثال القادر یونیورسٹی ٹرسٹ بے بنیاد کیس میں سامنے آئی جب تقریباً مڈ نائٹ ٹرائل چلایا گیا۔ سرکاری اور درباری حلقوں نے عمران خان کو 14 سال قید اگلے 24 گھنٹے میں ملنے کا شور مچایا۔ اس موقع پر بین الاقوامی ردِعمل کے طور پر دو سٹوریاں سامنے آئیں۔ پہلی سٹوری وائس آف امریکہ نے چھاپی جس کا ٹائٹل ہے: Pakistan's political climate shaken by pro Khan tweets۔ ساتھ ہی صدر ٹرمپ کے نمائندہ خصوصی نے مذکورہ پاکستانی ٹی وی کو شیئر کرکے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے ایک اور پیغام جاری کیا جس میں لکھا 10 ملین لوگ‘ This is clearly popular۔ آگے بڑھ کر رچرڈ نے پھر اسی ٹی وی کو پیغام بھیجا I'll say it again... فری عمران خان۔