تقریباً تین ہفتوں سے مذاکرات کے بارے میں خبریں اور تبصروں پر تبصرے سن اور دیکھ رہے ہیں۔ ابھی تک سب کے ذہنوں میں سوال زیادہ اور جواب کم ہیں کہ اتحادی حکومت اور پی ٹی آئی کے نمائندے کوئی دن‘ وقت اور جگہ مقرر کریں گے یا نہیں‘ اور ان کے درمیان ایک عرصے سے جاری بحران اور عدم استحکام کی کیفیت ختم ہو گی یا نہیں۔ہماری تو خواہش اور دعا ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف اس تعطل کو ختم کریں اور ذاتی مفادات سے آگے کا سوچیں اور ملک کے اندرونی اور علاقائی خطرات کے پیشِ نظر ماضی کی سیاست کے دھارے سے نکلیں اور مفاہمت کی طرف قدم بڑھائیں۔ مشکل یہ ہے کہ قومی سیاست ہماری خواہشات کے تابع کیسے ہو گی جب یہ عوام کی اکثریت کی خواہشات کی عکاس بھی نہیں ہو سکی۔ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ ملک میں سیاسی بے چینی اور اضطراب ہو تو حکومتیں ہی بلاتاخیر پہلا قدم اٹھاتی ہیں کیونکہ ملک کو سدھارنے کی ذمہ داری صاحبانِ اقتدار کی ہوتی ہے۔ دوسری جانب گزشتہ انتخابات کے بارے میں جو خیالات اور اپوزیشن کے پاس اس حوالے سے مبینہ طور پر جو شواہد ہیں‘ ان حالات میں توقع رکھنا کہ وہ ایسی حکومت کو‘ جو اُن کے نزدیک اوپر سے اتاری گئی ہے‘ دل سے تسلیم کریں گے‘ دیوانے کا خواب لگتا ہے۔ سیاسی بحران تو اس سے بھی پہلے پیدا ہو چکا تھا جب عدم اعتماد کا ووٹ اسمبلی میں منظور ہوا اور بانی پی ٹی آئی کی طرف سے مزاحمت کا پُرجوش مظاہرہ ہونے لگا۔ وہ بھی کوئی انفرادی واقعہ نہیں تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان گزشتہ انتخابات کے دوران‘ اور آج بھی مقبول ترین سیاسی لیڈر ہیں مگر اس سے قبل جس طرح وہ اقتدار کی سیڑھی پر چڑھ کر اُوپر پہنچے‘ وہ عوامی سے زیادہ وہی خصوصی راستہ تھا جو مقتدرہ من پسند سیاسی رہنماؤں کے لیے ہموار کرتی رہی ہے۔
یہ تو خان صاحب کو سوچنا چاہیے تھا کہ وہ عوامی سیاست کے زور پر اقتدار حاصل کریں گے یا کسی کا کندھا استعمال کریں گے۔ یہ الگ سوال ہے کہ ان کی اپنی مقبولیت کا کتنا زور تھا اور زور آوروں نے کتنا زور لگا کر انہیں وزیراعظم بنایا تھا۔ اب کسی کو شک نہیں کہ یہ دونوں عناصر ساتھ ساتھ تھے‘ اور ایسی صورت میں مقبولیت اپنا مقام کھو دیتی ہے۔ مقتدرہ کے ساتھ تعلقات بگڑے تو بگڑتے ہی چلے گئے۔ ہمیں کوئی کشمکش‘ سیاسی نظریات اور پالیسیوں پر اختلاف نظر نہیں آیا۔ یہ شخصی مفادات اور اس سے پید اہونے والی اندرونی دھکم پیل کے علاوہ خان صاحب کا طے شدہ حدوں سے آگے گزر کر بڑے قومی لیڈر کا کردار ادا کرنے کا رجحان تھا۔ بندوبستی نظام میں پر کاٹنے کا عمل کسی اور کے ہاتھ میں رہا ہے۔ آخر وہی ہوا جو ہمیشہ اس نظام میں ہوتا چلا آیا ہے۔ جو چہرے مہرے ان کی عددی اکثریت بنانے کے لیے عطا ہوئے تھے‘ جو بظاہر خان صاحب کی عوامی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ان کی صفوں میں شامل ہوئے تھے‘ رات کے اندھیرے میں اپنے پرانے مسکنوں پر واپس چلے گئے۔ ہمارے سیاسی لوگوں کا یہ المیہ رہا ہے‘ اور خان صاحب کا بھی یہی تھا کہ زمینی حقائق کو اپنے حق میں کرنے کی مسلسل جدوجہد سے تنگ آکر بڑے دربار میں حاضری اور عاجزی کا نذرانہ پیش کرکے مرادیں حاصل کرتے رہے۔ ایسی کرسی ہمیشہ مشروط ہوتی ہے‘ دونوں جانب سے غیرتحریری معاہدوں اور شرائط کی پاسداری نقش برآب ثابت ہوتی ہے۔ سیاسی ماحول اور بڑے دربار میں نئے مکینوں کی آمدورفت کے ساتھ ہم نے دیکھا ہے کہ بندوبستی نظام کے اتحادی گھوڑے تبدیل ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ اس کے ساتھ ہم کچھ بڑی طاقتوں کے کردار کے بارے میں بھی قیاس آرائیاں کرتے رہتے ہیں۔
گزشتہ تین برسوں میں ہمارے سیاسی پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا۔ یہ واحد نوعیت کا پانی ہے جس پر دورِ حاضر کی موسمیاتی تبدیلیوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ چشمۂ فیض ہی ایسا ہے کہ بہاؤ جاری رہتا ہے۔ آج تحریک انصاف وہاں کھڑی ہے جہاں کسی زمانے میں اس کی دو حریف جماعتیں دو مختلف ادوار میں تھیں۔ بہت دھکے کھانے کے بعد انہوں نے ''پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ‘‘ کا مفہوم پا لیا۔ دو تین انتخابی معرکوں کے بعد خان صاحب نے بھی یہی راز پا لیا تھا‘ مگر وہ بندوبستی نظام کی پیچیدہ اور متغیر حرکیات کا ادراک نہ کر سکے۔ ان کی شخصیت میں وہ لچک نہیں جومحترم آصف علی زرداری کی سیاست کا راز ہے۔ خان صاحب کی شخصیت میں ''میں سب کچھ کر سکتا ہوں‘‘ کا زعم بدرجہ اتم بھرا ہوا ہے‘ جو کچھ لوگوں کو خود پرستی اور غرور و تکبر کا تاثر دیتا ہے۔ انکساری‘ تدبیر‘ گہری سوچ اور وقت اور واقعات کو نگاہ میں رکھ کر تحزیہ اور حکمت عملی بنانے کے شخصیاتی عوامل ان کے سیاسی ذہن میں شاید جگہ نہیں رکھتے۔ ان کے اکثر فیصلے تیز ترین باؤلنگ کرنے اور وکٹ گرا کر حریف کھلاڑیوں کو جلد از جلد پویلین کی راہ دکھانے سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اگر سیاست‘ اور خصوصاً ہماری سیاست کے قواعد وضوابط‘ سیاسی کھلاڑی‘ میدان اور ریفری وہی ہوتے جو کرکٹ کے کھیل کے ہوتے ہیں تو وہ اپنی سیاسی مراد بخوبی پا سکتے تھے۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے‘ اور بالکل ہوگا‘ کہ جب میچ فکسڈ ہو تو پھر یا تو کھیل کھیلنا نہیں چاہیے یا عاجزی کا نذرانہ پیش کرکے مقبولیت کا تعویز گلے میں لٹکا لیں۔
وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہیں مذاکرات کس سے کرنے ہیں اور ایک عرصہ سے تحریک انصاف بند دروازہ کھلوانے کی درخواستیںعوام و خواص کے سامنے پیش کرتی رہی ہے۔ جو اشارے مل رہے ہیں‘ ہو سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں اتحادی حکومت کے نمائندوں اور گزشتہ دو ہفتوں سے اعلان شدہ تحریک انصاف کی کمیٹی کے درمیان تاریخ میں پہلی بار ہم دیکھ سکیں۔ ہمارے نزدیک اصل فیصلے جو بھی ہوئے اور جب بھی ہوئے وہ کہیں اور ہوں گے اور حکومتی ٹیم صرف کمیٹی کمیٹی کا کھیل کھیلے گی۔ سول نافرمانی کی 'دھمکی‘ کو سامنے رکھیں تو لگتا ہے کہ ویسے تو کسی نے بھی تاریخ سے سبق حاصل نہیں کیامگر خان صاحب نے تو اپنی سیاست سے کچھ نہیں سیکھا۔ اتحادی حکومت اندر اندر سے بہت خوش ہو گی کہ تحریک انصاف دو لانگ مارچوں کے بعد یہ ''آخری‘‘ پتا بھی میدان میں پھینک دے تو ان کا دربار کے ساتھ گٹھ جوڑ مزید پختہ ہو جائے گا اور ان کے ملک دشمن الزامات کے غبارے میں مزید ہوا بھر جائے گی۔ آج کی سیاسی وکٹ خان صاحب کی تیز باؤلنگ کے لیے موزوں نہیں۔ لگتا ہے کہ یہ سب کچھ جاننے اور سمجھنے کے بعد وہ اس کوشش میں ہیں کہ پورے کھیل کی بساط ہی ''عوامی انقلاب‘‘ کے سیلاب میں بہا کر بحیرۂ عرب میں پھینک دیں۔ اس بارے میں صرف قیاس آرائیاں ہی ہو سکتی ہیں اور خواب دیکھنے پر کون پابندی لگا سکتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے اور شاید یہ خیال تحریک انصاف کے پُرجوش حلقوں میں زیادہ پایا جاتا ہے کہ ادھر اُدھر کے ملکوں میں تختے الٹائے گئے تو یہاں کس چیز کی کمی ہے۔ اصولی طور پر تو یہ درست ہے کہ سیاست میں عدم استحکام اور بے یقینی کی صورت میں ذہنوں میں امکانات کی دنیا تبدیل ہو جاتی ہے مگر معروضی حالات کا تجزیہ‘ طاقت کا توازن‘ سماج کا مزاج اور تاریخی روایات کا ادراک نہ ہو تو دیوانوں کے خواب دیوانوں جیسے ہی ہوتے ہیں۔ ہماری کمزور‘ نیم سیاسی اور نیم آئینی جمہویت میں سب کے لیے گنجائش رہی ہے کہ افہام و تفہیم‘ سیاسی حل اور بات چیت ہو سکے۔ سب کو اسی طرف آنا پڑے گا‘ زیادہ ذمہ داری دربار اور درباریوں کی ہے۔