فیصل آباد پاکستان کا ایک اہم صنعتی شہر ہے۔ یہاں بہت سے اہم تعلیمی ادارے بھی موجود ہیں جن میں ایگریکلچر یونیورسٹی اور ٹیکسٹائل انجینئرنگ کے ادارے سر فہرست ہیں۔ ان اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے لوگ پاکستان کے مختلف مقامات پر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ فیصل آباد میں پنجاب میڈیکل کالج بھی موجود ہے جہاں بڑی تعداد میںطلبہ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ فیصل آباد میں قائم الائیڈ ہسپتال میں بھی مریضوں کے علاج کیلئے جدید ترین سہولیات موجود ہیں۔ فیصل آباد میں سیاسی گہما گہمی بھی اپنے پورے عروج پر رہتی ہے اور مختلف جماعتوں سے وابستہ لوگ اپنی اپنی جماعت سے وابستگی ظاہر کرنے کیلئے اپنے اپنے مؤقف کا بے لاگ انداز میں اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح فیصل آباد میں مذہبی ذوق رکھنے والے لوگ بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ تمام مکاتب فکر کے نمایاں تعلیمی ادارے فیصل آباد میں موجود ہیں جہاں مختلف طرح کی تقریبات اور پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ فیصل آباد میں خطابت کا ذوق رکھنے والے لوگ بھی نمایاں تعداد میں موجود ہیں۔ آغا شورش کاشمیری بڑے ذوق اور شوق سے فیصل آباد میں تقاریر کرنے کیلئے تشریف لایا کرتے تھے۔ اسی طرح والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر بھی فیصل آباد میں گاہے گاہے تشریف لاتے رہتے۔ 1986ء میں انہوں نے دھوبی گھاٹ فیصل آباد میں ایک جلسہ عام کا انعقادکیا تھا جس میں عوام کی کثیر تعداد بڑے جوش اور جذبات سے شریک ہوئی۔ مجھے بھی اوائل عمری ہی سے فیصل آباد میں جانے کا موقع ملتا رہا ہے۔ ملت چوک ‘دھوبی گھاٹ ‘نڑ والے اڈے اور دیگر مقامات پر میں کئی کانفرنسوں سے ماضی میں خطاب کر چکا ہوں۔ فیصل آباد میں مولانا ارشاد الحق اثری صاحب بھی خلافتِ راشدہ کانفرنس کا ایک عرصے سے انعقاد کر رہے ہیں۔ مولانا ارشاد الحق اثری ایک بلند پایا علمی اور روحانی شخصیت ہیں جن کو نہ صرف یہ کہ پاکستان کے علمی حلقوں میں ایک مستند عالم دین کے طور پر جانا اور پہچانا جاتا ہے بلکہ اہلِ عرب بھی ان کی علمی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ جون 2016ء میں مجھے مولانا ارشاد الحق اثری کے ہمراہ سعودی عرب کے سرکاری دورے کا بھی موقع ملا۔ اس دوران میں آپ کے علم‘ تقویٰ اور للہیت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔آپ سے بہت سے علمی موضوعات پر تبادلہ خیال ہوا۔مولانا کے ساتھ شفقت و محبت کا سلسلہ تا حال جاری و ساری ہے۔ مولانا ارشاد الحق اثری کے علاوہ حافظ مسعود عالم اور مولانا یٰسین ظفر بھی اپنی علمی شخصیت کے اعتبار سے یہاں پر جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔
18 دسمبر کو ایک مرتبہ پھر قرآن و سنہ موومنٹ کے دوست احباب نے مجھے دورۂ فیصل آباد کی دعوت دی۔دوپہر کے بعد خیام قلعہ میں قرآن و سنہ موومنٹ کے تحت ایک تنظیمی کنونشن تھا جس میں اساتذہ‘ علمااور وکلا بڑی تعداد میں شریک ہوئے اور پاکستان کے سیاسی اور سماجی مسائل کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ اس موقع پر میں نے بھی اپنی چند معروضات کو سامعین کے سامنے رکھا کہ پاکستان کو جس مقصد کے تحت بنایا گیا تھا اگر اسی مقصد پر چلانے کی جستجو کی جائے تو یقینا پاکستان کے جملہ مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ خیام قلعے میں ہونے والے تنظیمی پروگرام کے بعد فیصل آبادکے امین پور بازار کی جامع مسجد میں مغرب کے بعد ایک بڑے عوامی پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس کا مقصد عوام کی تربیت اور اصلاح تھا۔ جامع مسجد اہلِ حدیث امین پور بازار کے اس پروگرام میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے۔ مولانا یوسف انور فیصل آباد میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں‘ ان کی زیر صدارت ہونے والے اس پروگرام کے میزبان ڈاکٹر طاہر مصدق تھے جو اپنی تنظیمی فعالیت اور علمی بصیرت کے اعتبار سے ضلع بھر کی معروف شخصیت ہیں۔ دونوں شخصیات نے بڑے ہی گرم جوش انداز میں استقبال کیا اور اس کے بعد مجھے خطاب کی دعوت دی گئی۔
میں نے اپنے خطاب میں اس بات کو اجاگر کیا کہ انسانوں کی بڑی تعداد اپنے مقصدِ تخلیق سے غافل ہے۔ اس حوالے سے کلام اللہ کی آیات بینات بالکل واضح ہیں۔ اگر ان آیات بینات پہ غور کیا جائے تو انسان کے لیے اپنی تخلیق کے مقصد کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں رہتا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃ الانبیاء کی آیات 16اور 17میں ارشاد فرماتے ہیں ''ہم نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کوکھیل کے طور پر نہیں بنایا۔ اگر ہم یوں ہی کھیل تماشے کا ارادہ کرتے تو اسے اپنے پاس سے ہی بنا لیتے‘ اگر کہیں ہم ایسا کرنے والے ہی ہوتے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۃالمومنون کی آیات 115 تا 117 میں بھی اس حقیقت کو بڑے ہی واضح انداز میں کچھ یوں بیان فرمایا ''کیا تم یہ گمان کیے ہوئے ہو کہ ہم نے تمہیں یوں ہی بیکار پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے ہی نہ جاؤ گے۔اللہ تعالیٰ حقیقی بادشاہ ہے‘ وہ بڑی بلندی والا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں‘ وہی بزرگ عرش کا مالک ہے۔ جو شخص اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں‘ پس اس کا حساب تواس کے رب کے ہاں ہی ہو گا۔ بیشک ایسے کافر لوگ کبھی فلاح نہیں پاتے‘‘۔ ان آیات مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے انسان کو بلا سبب پیدا نہیں کیا گیا بلکہ اس کی تخلیق کا ایک خاص مقصد تھا‘ اس مقصد حقیقی کو اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃالذاریات کی آیت نمبر56 میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں ''میں نے جنات اورانسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کی تخلیق کا حقیقی مقصد اللہ تبارک و تعالیٰ کی بندگی اور اس کی عبادت کرنا ہے‘ یقیناًانسان اس دنیا میں رہتے ہوئے بہت سے دنیاوی ساز و سامان کا بھی طلبگار ہے جس سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو نہیں روکا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک بہترین دعا کا ذکر کیا جو اہل ایمان اپنے لیے مانگتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 201 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور بعض لوگ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں عذابِ جہنم سے نجات دے‘‘۔
بہت سے لوگ آخرت کی زندگی کو فراموش کر کے اپنی تگ و دَو کو فقط دنیاوی کامیابی کیلئے صرف کر دیتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی ناکامی کو سورۃالکہف کی آیات 103تا 106میں بڑے واضح انداز میں بیان فرمایا ''کہہ دیجئے کہ اگر (تم کہو تو) میں تمہیں بتا دوں کہ باعتبار اعمال سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں؟ وہ ہیں کہ جن کی دنیوی زندگی کی تمام تر کوششیں بیکار ہوگئیں اور وہ اسی گمان میں رہے کہ وہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں اور اسکی ملاقات سے کفر کیا‘ اسلئے انکے اعمال غارت ہوگئے پس قیامت کے دن ہم ان کا کوئی وزن قائم نہ کریں گے۔ حال یہ ہے کہ ان کا بدلہ جہنم ہے کیونکہ انہوں نے کفر کیا اور میری آیتوں اور میرے رسولوں کو مذاق میں اڑایا‘‘۔ قرآن مجید کی سورۃالعصر میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے کامیابی کی اساس کو واضح فرما دیا۔ اللہ تبارک و تعالی سورۃالعصر میں ارشاد فرماتے ہیں '' قسم ہے زمانے کی۔ بیشک (بالیقین) انسان خسارے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے اور (جنہوں نے) آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی‘‘۔ سورۃالعصر میں بیان کردہ حقائق کو ملحوظ خاطر رکھ کرہی انسان کامیابی کے زینے پر چڑھ سکتا ہے۔ ایمان‘ عملِ صالح‘ حق اور صبر کی وصیت کرنیوالے لوگ یقینا دنیااور آخرت میں سر بلند ہوں گے۔
اس موقع پر تمام سامعین نے انتہائی دلجمعی اور توجہ کے ساتھ خطاب کو سنا۔ خطاب کے بعدقرآن وسنہ موومنٹ فیصل آباد کے جنرل سیکرٹری عرفان طور اور ان کے ساتھیوں نے ایک پرتکلف عشائیے کا اہتمام کیا اور یوں دورۂ فیصل آباد اپنے جلو میں بہت سی خوشگوار یادیں لیے مکمل ہو گیا۔