شیخ محمد حسین میمن کراچی سے تعلق رکھنے والی ایک صاحبِ علم شخصیت ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں سنجیدگی اور بلند فکر سے نوازا ہے۔ مختلف اہم عناوین پر وہ غور وفکر کرتے اور اپنی فکری صلاحیتوں اور مشاہدات کو خطابت کی شکل میں لوگوں کے سامنے پیش کرتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ مختلف اہم عناوین پر اپنے مشاہدات اور حاصلِ مطالعہ تحاریر کی شکل میں بھی لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ میری کراچی میں ان سے متعدد براہِ راست ملاقاتیں ہو چکی ہیں اور میں نے انہیں دین سے محبت کرنے والا باوقار انسان پایا۔ ان کی تحریریں یقینا ان کی علمی شخصیت کی آئینہ دار ہیں۔ حالیہ دورۂ کراچی کے دوران انہوں نے مجھے اپنی بہت سی تصانیف ہدیۃً دیں جن میں سے ایک اہم تصنیف ''نبی کریمﷺ بطور معالجِ نفسیات‘‘ تھی۔ مجھے ہمیشہ سے نفسیات کے مطالعے سے دلچسپی رہی ہے۔ جس وقت میں ایف ایس سی کا سٹوڈنٹ تھا‘ اس وقت بھی مختلف لائبریریوں میں اس موضوع پر موجود کتابوں کا مطالعہ کیا کرتا تھا۔ بعد ازاں مجھے اس مضمون میں ماسٹرز ڈگری حاصل کرنے کا بھی موقع ملا۔
انسان کی نفسیات اور ذہنی کیفیات اس کے معمولات پر بہت گہرے اثرات چھوڑتی ہیں۔ وہ شخص جو نفسیاتی اعتبار سے صحتمند ہوتا ہے‘ اس میں اعتماد اور بہتر قوتِ فیصلہ پائی جاتی ہے۔ اس کے مد مقابل جو شخص نفسیاتی اعتبار سے کسی عارضے یا مسئلے کا شکار ہو‘ وہ عام طور پر متذبذب رہتا اور قوتِ فیصلہ سے محروم ہوتا ہے۔ ایسا شخص اپنے مستقبل کے بارے میں بے یقینی کا شکار رہتا ہے۔ ماضی کے غم اور حادثات اس کی شخصیت اور اعتماد کو بری طرح مجروح کرتے ہیں اور وہ معاشرے میں نمایاں کردار ادا کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے مالدار اور ذہین لوگ نفسیاتی عوارض کا شکار ہونے کے بعد غیر متحرک یا مفلوج ہو جاتے ہیں۔ عام طور پر نفسیاتی علاج معالجے کیلئے لوگ ماہرین نفسیات سے رجوع کرتے ہیں جو ان امراض کے شکار لوگوں کو سکون آور ادویات دیتے ہیں‘ جن سے وقتی طور پر ان کے ڈپریشن اور دیگر عوارض میں کمی آ جاتی ہے لیکن یہ مستقل طریقۂ علاج نہیں ہے بلکہ اس کے نتیجے میں انسان کئی مرتبہ حقیقت سے نظریں چرانے کا عادی ہو کر خلوت نشین ہو جاتا ہے۔
انسان کو نفسیاتی طور پر متوازن اور صحتمند زندگی گزارنے کیلئے جن رہنما اصولوں کی ضرورت ہے‘ وہ کتاب و سنت میں مذکور ہیں۔ چنانچہ انسان کو نفسیاتی صحت کے حصول کیلئے کتاب وسنت کی تعلیمات سے وابستگی اختیار کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے کلام حمید میں اس حقیقت کو واضح کیا کہ انسان کی زندگی میں آنے والی بہت سی تکالیف درحقیقت اس کے اپنے اعمال کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الشوریٰ کی آیت: 30 میں ارشاد فرماتے ہیں ''تمہیں جو کوئی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے‘ اور وہ (خدا) تو بہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسانوں کی زندگی میں آنے والی مشکلات اور مصائب کا انسانوں کی کوتاہیوں کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے اور جب اللہ تعالیٰ انسان پر گرفت کرنا چاہیں تو زمین میں انسان کا کوئی بھی مددگار نہیں ہو سکتا۔ اور جب انسان اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کو مشکل سے نکلنے کا راستہ سجھا دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ التغابن کی آیت: 11 میں اس حقیقت کو کچھ یوں بیان فرماتے ہیں ''کوئی مصیبت اللہ کی اجازت کے بغیر نہیں پہنچ سکتی‘ جو اللہ پر ایمان لائے اللہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو انسانی نفسیات سمجھنے کی غیر معمولی استعداد عطا فرمائی تھی۔ آپﷺ انسانوں کے چہروں کو دیکھ کر ان کی تکالیف کی شدت کا اچھی طرح اندازہ کر لیا کرتے تھے اور جس وقت پریشان حال لوگ اپنے مسائل آپﷺ کے سامنے رکھتے‘ آپ ان مسائل کا تسلی بخش حل تجویز فرمایا کرتے تھے جن پر عمل کرنے کے بعد لوگوں کے نفسیاتی مسائل اور عوارض رفع ہو جایا کرتے تھے۔ نبی کریمﷺ پریشان اور غمزدہ لوگوں کے ساتھ انتہائی شفقت والا معاملہ رکھتے۔ آپﷺ کی شفقت‘ محبت اور الفت کے سبب سے ہی مریض اپنے اندر ایک نئی توانائی اور حوصلہ محسوس کرتے تھے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ معاشرے میں پائے جانے والے نفسیاتی عوارض کی بہت بڑی وجہ انسان کی تنہائی ہوتی ہے۔ اگر انسان تنہا زندگی گزارے اور کوئی شخص اس کی دلجوئی کرنے والا نہ ہو تو نفسیاتی مسائل اور مشکلات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس کسی کے سہارے‘ شفقت اور توجہ کی وجہ سے انسان میں طاقت اور اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ درحقیقت زندگی میں انسان کو جس توجہ‘ محبت اور شفقت کی ضرورت ہوتی ہے‘ اگر وہ انسان کو میسر آ جائے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے انسان کے نفسیاتی مسائل بہت حد تک دور ہو جاتے ہیں۔ نبی کریمﷺ کے پاس لوگ مختلف طرح کے مسائل لے کر حاضر ہوتے اور آپﷺ ان کی ذہنی سطح کے مطابق ان کے ساتھ برتائو فرمایا کرتے تھے۔ آپﷺ نے اس بات پر خصوصی توجہ دی کہ بچوں کے ساتھ حسنِ سلوک کیا جائے‘ اس لیے کہ آپﷺ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ انسان کی زندگی کا ابتدائی دور نفسیاتی نشوونما کا دور ہوتا ہے اور اس دور میں اگر انسان کسی ذہنی الجھائو کا شکار ہو جائے تو اس کی شخصیت میں مختلف طرح کی گرہیں پڑ جاتی ہیں ؛ چنانچہ آپﷺ ہمیشہ پیار اور محبت سے بچوں کے ساتھ برتائو کیا کرتے تھے۔ سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما اور سیدہ اُمامہ بنت ابی العاص رضی اللہ عنہا کے ساتھ آپﷺ کا سلوک اور رویہ غیر معمولی توجہ اور شفقت پر مبنی تھا‘ جس کا مقصد ان بچوں کی شخصیات کو اچھے انداز سے تشکیل دینا تھا۔ نبی کریمﷺ کی سیرتِ مبارکہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ آپﷺ بچوں اور بچیوں کے ساتھ یکساں حسنِ سلوک کے قائل تھے تاکہ بچیوں میں کسی قسم کا احساسِ محرومی پیدا نہ ہو۔ آپﷺ نے عورتوں کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کا حکم دیا اور قیدیوں اور غلاموں سے بھی شفقت کا برتائو کرنے کی تلقین کی۔ آپﷺ کی ان ہدایات کا مقصد بنیادی طور پر معاشرے کے کمزور طبقات کو بحال رکھنا تھا۔ نبی کریمﷺ نے ازدواجی زندگی سے جڑے جملہ مسائل کو بطریق احسن حل کرنے کی طرف امت کی رہنمائی کی۔ آپﷺ کی ازواجِ مطہرات ایک ہی چار دیواری میں‘ مختلف حجروں میں قیام پذیر تھیں لیکن آپﷺ کی توجہ اور اتفاق کی وجہ سے وہ بھرپور انداز سے اپنی زندگی گزارتی رہیں۔ آپﷺ ہمیشہ ازواجِ مطہرات کی دلجوئی کرتے اور کسی بھی بیوی کو 'سوکن‘ کے راستے پر نہیں چلنے دیا اور محبت اور شفقت کے ساتھ ہمیشہ اُن کو رواداری اور برداشت کا سبق دیا۔ آپﷺ نے انسانی زندگی پر حسد کے اثرات زائل کرنے کے حوالے سے بھی ہر ممکن رہنمائی کی۔ آپﷺ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ انسانی زندگی پر حسد کے بڑے گہرے اور منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں؛ چنانچہ حسد سے بچنے کیلئے اپنی امت کو ایسے اذکار بھی سکھائے جن سے انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی پناہ میں آ جاتا ہے۔ نبی کریمﷺ نے بے حیائی اور مخرب الاخلاق عادات سے انسانوں کو بچنے کی تلقین کی‘ اس لیے کہ انسان جب حیا سے دور ہوتا چلا جاتا ہے تو اس میں بہت سے نفسیاتی عوارض جنم لینے لگتے ہیں۔
شیخ محمد حسین میمن کی یہ تصنیف اس اعتبار سے ایک خوبصورت کاوش ہے کہ انہوں نے نبی کریمﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے ایسے پہلو سے قارئین کو روشناس کرایا جس پر بالعموم کم بولا اور لکھا جاتا ہے۔ اگر ہم کتاب وسنت کی تعلیمات اور سیرتِ نبوی کے ساتھ مضبوط تمسک اختیار کریں تو یقینا نفسیاتی عوارض پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کے نفسیاتی مسائل کو دور کر کے ہمیں پُرسکون زندگی عطا فرما دے‘ آمین!