پاکستان کا ایشیائی ترقیاتی بینک سے 33 کروڑ ڈالر کا قرض معاہدہ ہوا ہے جو ملک میں غربت ختم کرنے کے لیے استعمال ہو گا۔ غربت کے خاتمے کے نام پر قرض لینے میں ہمارے حکمرانوں کی شہرت اچھی ہے لیکن کارکردگی کی بنیاد پر قرض لینا اب بھی مشکل ہے۔ شاید اسی لیے مبینہ طور پر ورلڈ بینک نے پاکستان کو 500 ملین ڈالر کا مزید قرض دینے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ قرض انرجی سیکٹر کیلئے لیا جانا تھا اور اس کے لیے پاور سیکٹر میں بہتری لانے کی شرائط عائد کی گئی تھیں۔ یہ قرض کا دوسرا حصہ تھا جسے‘ ایک خبر کے مطابق روکا گیا ہے‘ تاہم وزارت اقتصادی امور نے اس کی تصدیق نہیں کی۔ قرض کے پہلے حصے میں تقریباً چار سو ملین ڈالرز قرض استعمال کیا جا چکا ہے لیکن بجلی کی قیمتوں اور گردشی قرضوں میں کمی‘ بجلی چوری کی روک تھام اور چینی آئی پی پیز کے معاہدوں کو تبدیل کرنے جیسے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کیے جا سکے۔ اگرچہ حکومت نے مزید آٹھ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ختم کیے ہیں اور دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس سے قومی خزانے کو تقریباً 238 ارب روپے کی بچت ہو گی لیکن عوام کو بجلی کے بلوں میں ریلیف ملے گا یا نہیں‘ اس بارے معلومات منظر عام پر نہیں آ سکیں۔ حکومت کی طرف سے بھی نہیں بتایا گیا کہ اس اقدام سے بجلی کتنی سستی ہو گی۔ عوام بھی یہ حساب لگانے سے قاصر ہیں کیونکہ وہ بجلی کے ماہانہ بل کے حساب کتاب کو نہیں سمجھ پاتے۔آئی پی پیز کے معاہدے ختم ہونے سے بجلی کے ریٹ پر کیا فرق پڑے گا‘ یہ عام آدمی کیسے سمجھ سکتا ہے؟ عمومی رائے یہی ہے کہ آئی پی پیز کے معاہدے ختم ہونے کے باوجود عوام کے لیے بجلی کے بلوں میں کوئی کمی نہیں ہو گی بلکہ خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ بجلی مزید مہنگی ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں گزشتہ آٹھ سالوں میں بجلی کی اوسط قیمت میں 116 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جولائی 2023ء سے اگست 2024ء تک بجلی کی قیمتوں میں 14 مرتبہ اضافہ کیا گیا۔ قیمتوں میں بار بار اضافے سے صارفین پر 455 ارب روپے کا بوجھ ڈالا گیا۔ قیمتوں میں سب سے زیادہ اضافہ مارچ میں ہوا اور یہ اضافہ سات روپے چھ پیسے فی یونٹ کا تھاجبکہ آخری اضافہ اگست میں دو روپے 56 پیسے فی یونٹ کیا گیا۔ جب پانچ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ختم ہوئے تو اس وقت بھی بجلی کا ریٹ کم نہیں کیا گیا۔ حکومت بجلی بلوں پر ٹیکس مزید بڑھا رہی ہے۔ ناروا آئی پی پیز معاہدوں کی وجہ سے کپیسٹی چارجز تقریباً 18 روپے فی یونٹ ہیں جبکہ بجلی بلوں میں حکومتی ٹیکس تقریباً 40 سے 45 فیصد ہیں۔ آئی پی پیز کے معاہدے ختم ہونا خوش آئند ہے مگر کپیسٹی چارجز کرپشن کو قانونی شکل دینے کے مترادف ہے‘ انہیں بھی ختم ہونا چاہیے اور اس حوالے سے حکومت اگر کوشش کر رہی ہے تو اسے سراہنے کی ضرورت ہے۔ البتہ جب تک عوام کو ریلیف دینے کا کوئی راستہ نہیں نکالا جاتا‘ یہ کوششیں بے سود ہی شمار ہوں گی۔ملک میں آئی پی پیز پلانٹ لگانے کا مقصد بجلی بحران کا خاتمہ اور عوام کو سستی بجلی فراہم کرنا تھا۔ آئی پی پیز معاہدوں سے قبل عوامی مفاد کا نعرہ لگایا گیا لیکن بعد ازاں معلوم ہوا کہ ان میں سرمایہ کاروں کے مفاد کا تحفظ کیا گیا۔ اشرافیہ نے پلانٹ لگانے کے لیے بھی رقم جیب سے خرچ نہیں کی بلکہ بینکوں سے قرض لیے۔ قرض اور سود کی قیمت عوام سے وصول کی اور منافع اپنی جیب میں ڈالا۔ ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے۔
دوسری جانب وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ آئی ٹی کمپنیاں برآمدات کی اصل رقم پاکستان نہیں لا رہیں‘ برآمدات میں اضافہ تو ہو رہا ہے لیکن ڈالرز پاکستان نہیں آ رہے۔ وزیر خزانہ کا یہ کہنا بالکل درست ہے۔ پاکستان میں اس وقت 23 لاکھ سے زائد فری لانسرز ہیں جن کا آئی ٹی برآمدات میں حصہ تقریباً 15 فیصد ہے۔ لیکن صرف 38 ہزار فری لانسرز کے بینک اکاؤنٹس ہیں۔ آئی ٹی کمپنیوں اور فری لانسرز کو یہ راستہ خود حکومت نے ہی دکھایا ہے۔ آئی ٹی کمپنیوں کے زیادہ تر کلائنٹس اور سپلائرز بیرونِ ملک ہوتے ہیں‘ انہیں بیرون ملک ادائیگیاں ڈالرز میں کرنا ہوتی ہیں۔ اگر وہ سارے ڈالرز پاکستان منگوا لیں تو بیرونِ ملک ڈالروں میں ادائیگیاں کرنے میں سٹیٹ بینک ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔ آئے دن بیرونِ ملک ادائیگیوں پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ کئی طرح کے اجازت ناموں اور سفارشوں کے بعد ڈالرز میں ادائیگی ممکن ہو پاتی ہے۔ اس طرح کلائنٹس خراب ہوتے اور کاروبار متاثر ہوتا ہے۔ پاکستان کا بینکنگ نظام بھی آئی ٹی فری لانسرز اور ایکسپورٹرز کے لیے مسائل پیدا کرتا ہے۔ حکومت نے جنوری 2023ء میں ایک نوٹیفیکیشن کیا تھا کہ آئی ٹی ایکسپورٹرز انٹرنیٹ بینکنگ کے ذریعے ڈالر پاکستان لا سکیں گے اور اگر بیرونِ ملک کوئی ادائیگی کرنا ہو تو وہ بھی کر سکیں گے۔ یہ نوٹیفیکیشن صرف دو ماہ یعنی مارچ 2023ء تک کیا گیا‘ لیکن اس کے باوجود یہ سہولت نہ مل سکی۔ جب سٹیٹ بینک سے اس بارے سوال ہوا تو حکام نے بتایا کہ ابھی تک ان کے پاس ایسا سافٹ ویئر ہی نہیں جو انٹرنیٹ کے ذریعے بیرونِ ملک ادائیگی کر سکے۔ سوال یہ ہے کہ اگر سافٹ ویئر ہی نہیں تو نوٹیفیکیشن کیوں کیا گیا؟ اسی وجہ سے اکثر فری لانسرز اور سافٹ ویئر کمپنیوں نے بیرونِ ملک دفاتر بنا رکھے ہیں اور وہ تمام ادائیگیاں باہر سے ہی کرتے ہیں اور صرف ضرورت کے مطابق ڈالرز پاکستان لاتے ہیں۔
پیچیدہ ٹیکس نظام بھی ڈالر ملک میں لانے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اس پیچیدہ ٹیکس نظام نے لاتعداد مسائل پیدا کر رکھے ہیں‘ اسی لیے سارا بوجھ صرف تنخواہ دار طبقے نے اٹھا رکھا ہے۔ پچھلے پانچ ماہ میں ایف بی آر نے تنخواہ دار طبقے سے تقریباً 200 ارب روپے ٹیکس اکٹھا کیا جو پچھلے سال کے انہی مہینوں میں اکٹھے کیے گئے ٹیکس سے 53 فیصد زائد ہے۔ اس کے باوجود پانچ ماہ کے ٹیکس اہداف حاصل نہیں ہو سکے۔ اس کی وجہ ٹیکس نظام کے چور دروازے بند نہ کرنا اور ایف بی آر آفیسرز کا ٹیکس چوروں کے خلاف ایکشن نہ لینا ہے۔ ایف بی آر کا نظام جب تک آفیسرز کے بجائے کمپیوٹرپر منتقل نہیں ہوگا اس میں بہتری آنا مشکل ہے۔ اس حوالے سے اب ایک مثبت کوشش ہو رہی ہے۔ ایف بی آر کراچی میں ''فیس لیس کسٹمز اسیسمنٹ سسٹم‘‘ نافذ کرنے جا رہا ہے۔ لیکن یہ کب تک لاگو ہو گا اور اسکے کیا نتائج نکلتے ہیں‘ اس بارے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ البتہ اس سسٹم کے نفاذ سے کلیئرنس معاملات جلد حل ہو سکتے ہیں اور شفافیت بھی یقینی بنائی جا سکتی ہے۔ ٹیکس سسٹم میں بہتری کیلئے ٹیکس آڈٹ اور ٹیکس کیسز کی شنوائی آن لائن کی جانی چاہیے‘ جیسے برطانیہ سمیت اکثر یورپی ممالک میں ہوتا ہے۔ عام آدمی کا ٹیکس آفیسر یا ٹربیونل میں بیٹھے ججز کا آپس میں ملنا اور معاملات طے کرنا ٹیکس اکٹھا نہ ہونیکی بڑی وجہ ہے۔ ٹیکس کیسز وڈیو کیمروں کے ذریعے سنے اور حل کیے جانے چاہئیں۔ ملکی معاشی مسائل بڑھانے میں ایک بڑا حصہ ایف بی آر کا بھی ہے۔اس سسٹم کو درست کر کے ہی ٹیکس آمدن میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
اگر پی آئی اے کی نجکاری نہ ہونے کا معاملہ دیکھا جائے تو اس کی بڑی وجوہات میں سرفہرست طیاروں کی خریداری پر 18 فیصد سیلز ٹیکس چھوٹ نہ ملنا ہے۔ ایف بی آر نے رضامندی ظاہر کی تو آئی ایم ایف نے رکاوٹ کھڑی کر دی۔ اس حوالے سے آئی ایم ایف سے اجازت درکار تھی‘ اطلاعات ہیں کہ اب آئی ایم یف نے طیاروں کی خریداری پر سیلز ٹیکس چھوٹ دینے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے‘ گو کہ ابھی تک آئی ایم ایف نے اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا مگر حکومتی ذرائع اس کی تصدیق کر رہے ہیں۔ سیلز ٹیکس چھوٹ ملنے سے ملک کے چوتھے بڑے نقصان میں چلنے والے ادارے‘ پی آئی اے کی نجکاری میں آسانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ لیکن اس کے لیے حکومت کی نیت کا درست ہونا بھی ضروری ہے۔