مہنگائی اور چینی درآمدات کے معاشی اثرات

حکومت کا دعویٰ ہے کہ ملک میں مہنگائی ستر سال کی کم ترین سطح پر آ گئی ہے۔ حکومت کے مطابق اس وقت ملک میں مہنگائی 4.9 فیصد ہے لیکن بین الاقومی ادارے اس سے متفق دکھائی نہیں دیتے۔ پیرس کے ایک سروے ادارے کے مطابق 65 فیصد پاکستانی سمجھتے ہیں کہ ملک میں معاشی حالات اچھے نہیں اور 69 فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ مہنگائی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اگر زمینی حقائق دیکھیں تو 4.9 فیصد مہنگائی جیسے حالات دکھائی نہیں دے رہے۔ حکومت کن بنیادوں پر یہ اعدادو شمار جاری کرتی ہے اس حوالے سے حقائق سامنے لائے جانے چاہئیں۔ لیگی حکومت بالخصوص موجودہ نائب وزیراعظم پر ماضی میں بھی غلط اعداد وشمار پیش کرنے کا الزام لگتا رہا ہے۔ موجودہ صورتحال میں بھی شکوک وشبہات بڑھ رہے ہیں۔ وزیر خزانہ کو اس حوالے سے حقائق عوام کے سامنے رکھنے چاہئیں تاکہ عوامی سطح پر جو اضطراب ہے‘ اس میں کمی لائی جا سکے۔ عوام مہنگائی کو دو حصوں میں تقسیم کر رہے ہیں‘ ایک ہے کتابی مہنگائی‘ جو حکومتی کتابوں میں درج ہے اور دوسری ہے حقیقی مہنگائی‘ جو بازاروں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں حقیقی مہنگائی مزید بڑھے گی کیونکہ سردیوں میں گیس کی قلت پوری کرنے کیلئے قطر سے سستی گیس کا معاہدہ معطل کر دیا گیا ہے اور آذربائیجان سے گیس معاہدہ کیا جا رہا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ مقامی سطح پر کم گیس مہیا کرنے کا کہا گیا ہے‘ اس خبر میں کتنی صداقت ہے اس کا اندازہ آنے والے دنوں میں ہو جائے گا۔ اب آذربائیجان سے کس ریٹ پر گیس خریدی جاتی ہے‘ اس پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ عمومی طور پر ایمرجنسی میں کیے گئے قلیل مدتی معاہدے مہنگے پڑتے ہیں۔ اگر گیس مہنگے داموںامپورٹ کی گئی تو مہنگائی مزید بڑھے گی۔ پہلے ہی آئی ایم ایف گیس ٹیرف پر ٹیکس لگانے کا مطالبہ کر رہا ہے‘ اگر اب مہنگی گیس خریدی گئی تو عوام بڑے بوجھ تلے دب جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ قطر کے بجائے آذربائیجان سے گیس کیوں خریدی جا رہی؟ کیا ہمیشہ کی طرح اس بار بھی گیس کی قلت کو جواز بنا کر مافیاز کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے؟
وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ ملک میں معاشی استحکام آ گیا ہے‘ اسے آگے بڑھانے کیلئے ہمیں برآمدات پر فوکس کرنا ہوگا‘ ملکی اور بین الاقوامی کمپنیوں کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے‘ ہر شعبہ برآمدات میں اپنا حصہ ڈالے‘ خواہ قلیل ہی ہو۔ وزیر خزانہ کا عزم خوش آئند ہے اور اس طرح کے عزائم ماضی کے وزرائے خزانہ بھی ظاہر کرتے رہے لیکن عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر رہے۔ اس وقت صورتحال خاصی گمبھیر ہے۔ سوئی سے لے کر جہاز تک‘ ہر چیز درآمد کی جا رہی ہے اور اس میں سب سے بڑا حصہ چین سے درآمدات کا ہے۔ پاکستانی مارکیٹ میں چینی مصنوعات کثرت سے دکھائی دینے لگی ہیں۔ اگرچہ چین کی بنی ہوئی اشیا کئی سالوں سے پاکستانی مارکیٹ میں موجود ہیں لیکن اب ان کی تعداد اور اقسام میں خاصا اضافہ ہوا ہے جس نے ملکی کاروباری حالات کو کافی حد تک بدل دیا ہے۔ چینی کمپنیوں کا پاکستانی مارکیٹ کی طرف جھکاؤ بلاوجہ نہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ امریکہ اور یورپ میں چینی مصنوعات پر لگنے والے ٹیکسز ہیں جنہوں نے چینی معیشت کو متاثر کیا ہے۔ چین میں مقامی سطح پر کھپت کم ہو رہی ہے اس لیے چین میں تیار ہونے والی مصنوعات چین کی ضرورت سے زیادہ ہیں۔ ایک آپشن تو یہ ہے کہ ان مصنوعات کو ضائع کر دیا جائے اور دوسرا آپشن یہ ہے کہ انہیں سستے داموں ترقی پذیر ممالک کو بیچ دیا جائے۔ چین نے دوسرے آپشن کا انتخاب کیا‘ اس لیے پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک میں کم قیمت چینی مصنوعات کی بھرمار دکھائی دیتی ہے۔ آن لائن شاپنگ ویب سائٹس پر ناقابلِ یقین حد تک ڈسکاؤنٹ مل رہا ہے۔ اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو چین کا تجارتی سرپلس دس کھرب ڈالرز تک بڑھ سکتا ہے اور ترقی پذیر ممالک کے تجارتی خسارے میں مزید اضافہ ہو گا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ چینی مصنوعات کی پاکستانی مارکیٹ میں موجودگی سے پاکستانی عوام‘ صنعتکاروں اور معیشت کو کیا فرق پڑے گا؟ چینی مصنوعات کی بھرمار سے کتنی چھوٹی صنعتیں بند ہوئیں‘ اس کا درست اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ چھوٹی صنعتیں عمومی طور پر رجسٹرڈ نہیں ہوتیں تاہم اندازہ ہے کہ سیالکوٹ‘ گوجرانوالہ اور گجرات کی مقامی صنعتیں متاثر ہوئی ہیں۔ مقامی فٹ ویئر مینوفیکچرنگ انڈسٹری تقریباً بند ہو چکی ہے۔ ہر طرح کا فٹ ویئر چین سے امپورٹ کر کے اپنی مرضی کا لیبل لگا کر بیچا جا رہا ہے۔ سٹیشنری مینوفیکچرنگ کی صنعت بھی متاثر ہوئی ہے۔ پہلے سٹیشنری مقامی سطح پر تیار کی جاتی تھی لیکن اب وہ صنعت تقریباً ختم ہو چکی ہے اور سٹیشنری کا سامان چین سے درآمد کیا جاتا ہے۔ کبھی پاکستان میں بیٹری سیل بنا کرتے تھے مگر آج ایک بھی سیل کا پاکستانی برانڈ موجود نہیں ۔ کھلونوں کی مینوفیکچرنگ کی صنعت بھی تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ 99 فیصد سے زائد کھلونے بھی چین سے درآمد ہو رہے ہیں۔ گوجرانوالہ میں موٹریں بنا کرتی تھیں اور ان کا معیار بھی بہترین تھا۔ اب وہ صنعت بھی لگ بھگ ختم ہو چکی ہے کیونکہ چین کی موٹریں سستی اور معیاری ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک پاکستانی ٹائلز کی مارکیٹ بہترین تھی لیکن جب سے چینی ٹائلز پاکستان آئی ہیں‘ ملک کے بڑے ٹائل برانڈز کی فیکٹریاں بند ہو گئی ہیں۔ گھر بنانے کیلئے کنسٹرکشن کا جتنا سامان درکار ہوتا ہے اس کا تقریباً 70 فیصد چین سے منگوایا جاتا ہے۔ پاکستان میں اعلیٰ معیار کی سائیکلیں تیار کی جاتی تھیں‘ یہ انڈسٹری بھی تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ اب سائیکلیں چین سے آتی ہیں اور پاکستان میں انہیں صرف اسمبل کیا جاتا ہے۔ اب چونکہ چین میگا ڈسکائونٹس بھی دے رہا ہے اس لیے امپورٹس مزید بڑھ سکتی ہیں۔
پاکستان 24 کروڑ لوگوں کی مارکیٹ ہے اور چین اتنی بڑی مارکیٹ کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ عمومی طور پر چینی پاکستان نہیں آتے بلکہ پاکستانی لوگ چین جاتے اور اپنی مرضی اور ضرورت کا مال خرید کر لاتے ہیں لیکن آج کل چین کے کاروباری گروپ پاکستان آ رہے اور مختلف مصنوعات کا مارکیٹ سروے کر رہے ہیں۔ ان میں سرفہرست کاسمیٹکس ہے۔ چینی مصنوعات کی بھرمار کی ایک وجہ منی لانڈرنگ بھی ہے۔ چین پاکستان کو تقریباً 18 ارب ڈالرز کی ایکسپورٹس کرتا ہے جبکہ ملکی ریکارڈ کے مطابق پاکستان چین سے 12 ارب ڈالرز کی اشیا امپورٹ کرتا ہے۔ پانچ ارب ڈالر منی لانڈرنگ اور انڈر انوائسنگ میں چلے جاتے ہیں۔ حکومت سب جانتی ہے لیکن خاموش ہے۔ پاکستان سب سے زیادہ چین سے الیکٹرانکس درآمد کرتا ہے‘ جن کا حجم تقریبا ًتین ارب ڈالر ہے اور ان میں ہر گزرتے ماہ کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں زیادہ درآمدات سولر پلیٹوں اور انورٹرز کی ہیں۔ پہلے چین کی سولر پلیٹیں یورپ تک جاتی تھیں لیکن اب وہاں ٹیکنالوجی بہتر ہونے اور سولر پینلز کی زیادہ پیداوار کی وجہ سے پرانا مال پاکستان بھیجا جا رہا ہے۔ حکومت مقامی صنعت کو بچانے کیلئے کچھ نہیں کر رہی حالانکہ اسے چاہیے کہ وہ چین کے حالات کا مثبت فائدہ اٹھائے اور اس طرح کی چیزیں درآمد کرے جن سے ملکی برآمدات میں اضافہ ہو۔ سولر پینل امپورٹ کرنے کے بجائے ملکی سطح پر بنائے جانے چاہئیں۔ اسی طرح ٹیکسٹائل سیکٹر کی مشینری کو جدت کی ضرورت ہے‘ موجودہ حالات میں ٹیکسٹائل ٹیکنالوجی امپورٹ کی جانی چاہیے تاکہ برآمدات میں اضافہ ہو سکے۔ اس حوالے سے سعودی ماڈل بھی اپنایا جا سکتا ہے۔ سعودی عرب نے چین سے سامان درآمد کرنے کے بجائے چینی کمپنیوں کو سعودی عرب میں فیکٹریاں لگانے کی دعوت دی اور خصوصی سہولتیں بھی فراہم کی ہیں۔ پاکستانی حکومت کو بھی چاہیے کہ چینی کمپنیوں کو ملک میں فیکٹریاں لگانے کیلئے خصوصی سہولتیں فراہم کرے‘ البتہ وہی سہولتیں مقامی مینوفیکچررز کو بھی دی جانی چاہئیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو بیرونِ ملک سے تیار مال منگوانے پر پابندی لگادینی چاہیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں