یہ اشعار کس نے نہیں سنے ہوں گے:
یہ جو ننگ تھے یہ جو نام تھے مجھے کھا گئے
یہ خیال پختہ جو خام تھے مجھے کھا گئے
وہ جو مجھ میں ایک اکائی تھی وہ نہ جڑ سکی
یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے مجھے کھا گئے
اور یہ شعر تو ضرب المثل ہے:
دو حرف تسلی کے جس نے بھی کہے اس کو
افسانہ سنا ڈالا تصویر دکھا ڈالی
اور محبت کے یہ اشعار کتنے ہی عشاق کے سفری تھیلوں میں اور کتنے ہی ہجر گزیدوں کے تکیوں کے نیچے پڑے ہوں گے:
جب کبھی خود کو یہ سمجھاؤں کہ تو میرا نہیں؍ مجھ میں کوئی چیخ اُٹھتا ہے‘ نہیں‘ ایسا نہیں؍ کب نکلتا ہے کوئی دل میں اُتر جانے کے بعد؍ اس گلی کے دوسری جانب کوئی رستا نہیں؍ تم سمجھتے ہو‘ بچھڑ جانے سے مٹ جاتا ہے عشق؍ تم کو اس دریا کی گہرائی کا اندازہ نہیں؍ تجھ سے مل کر بھی کہاں مٹتا ہے دل کا اضطراب؍ عشق کی دیوار کے دونوں طرف سایا نہیں؍ مت سمجھ میرے تبسم کو مسرت کی دلیل؍ جو مرے دل تک اترتا ہو یہ وہ زینہ نہیں؍ یوں تراشوں گا غزل میں تیرے پیکر کے نقوش؍ وہ بھی دیکھے گا تجھے جس نے تجھے دیکھا نہیں؍ خامشی! کاغذ کے پیراہن میں لپٹی خامشی!؍ عرضِ غم کا اس سے بہتر کوئی پیرایہ نہیں!؍ کب تلک پتھر کی دیواروں پہ دستک دیجیے؍ تیرے سینے میں تو شاید کوئی دروازہ نہیں
یہ تمام اشعار خورشید رضوی کے ہیں! شعر کی دنیا میں ان کا اعلیٰ اور منفرد مقام ہے۔ مگر وہ صرف خورشید رضوی نہیں‘ پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی ہیں۔ عربی زبان وادب پر اتھارٹی ہیں۔ گورنمنٹ کالج اور دیگر بڑی بڑی درسگاہوں میں عربی زبان و ادب پڑھایا۔ ''عربی ادب قبل از اسلام‘‘ کے موضوع پر دو جلدوں میں جو کتاب تصنیف کی وہ ان کا ایک شاندار کارنامہ ہے۔ اب کے انہوں نے ایک اور زبردست کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ قصیدہ بُردہ کا منظوم ترجمہ کیا ہے۔ منظوم اس طرح کہ مقفّی شاعری میں نہیں‘ بلکہ آزاد نظم کی صورت میں کیا ہے۔ قصیدہ بردہ کے اب تک بے شمار زبانوں میں لاتعداد ترجمے ہو چکے ہوں گے۔ ان میں ایک سے ایک بڑھ کر ہوگا۔ رضوی صاحب کے ترجمے کی خوبی یہ ہے کہ ایک تو ہم عصر اردو میں ہے‘ دوسرے آزاد نظم میں کیا ہوا‘ یہ ترجمہ‘ بذات خود ایک ادب پارہ ہے۔ قصیدے کے تیسرے حصے (الفصل الثالث) سے‘ جو نعت پرمشتمل ہے‘ چند اشعار کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے:
حیف اُس ذاتِ مطہّر کی روِش مجھ سے نباہی نہ گئی؍ جس نے راتوں کے اندھیروں کو رکھا یادِ خدا سے روشن؍ اور اتنا کہ تھکن سے متورّم ہوئے وہ پاک قدم؍فاقے برداشت کیے اور شکمِ پاک پہ باندھے پتھر؍ دور سے اس کو لبھاتے رہے سونے کے پہاڑ؍ مگر اُس ہمتِ عالی نے سدا؍ ناک اونچی رکھی اور ایک نگاہِ غلط انداز بھی ڈالی نہ کبھی؍اور اُس ہستیٔ بے مثل کو مائل کرے دنیا پہ ضرورت کیوں کر؍ جو نہ ہوتی تو نہ ہوتا کہیں دنیا کا وجود؍ہستیٔ پاک محمدؐ؍ لقبِ سیدِ کونین ہے زیبا جس کو؍ جن و انس اہلِ عرب‘ اہلِ عجم‘ سارے جہاں کا سردار؍وہ پیمبر ہے ہمارا؍ کہ کسی کام کا دے حکم؍ کہ روکے اس سے؍ کُن مکُن میں کوئی سچا نہیں اس سے بڑھ کر؍وہی محبوب کہ بس اس کی شفاعت کی ہمیں آس لگی رہتی ہے؍ زندگانی میں کوئی ہَول جو بے روک چلا آتا ہے؍دعوت اس کی ہے الی اللہ سو اس کا دامن؍ تھامنے والوں کے ہاتھوں میں سہارا محکم؍ سارے نبیوں پہ اسے؍ صورت وسیرت میں ہے فوق؍ کوئی بھی علم و کرم میں نہیں اس کے پاسنگ؍ ملتمس سب ہیں کہ وہ؍ بحرِ زخّارِ رسول عربی سے کوئی چلّو بھر لیں؍ یا پھر اس بارشِ فیضان سے لب تر لیں؍اس کی سرکار میں سب حدِّ ادب پر قائم؍ نقطۂ علم ہو یا پھر ہو؍ حِکَم کا وہ کوئی زیر و زبر؍ہے وہی ذات ّ عطا جس کو ہوا؍ صورت و معنی میں کمال؍ اور پھر خالقِ ارواح نے چُن کر آخر؍ نامزد اُس کو کیا اپنا حبیب
یہ صرف اُس بہار کی ایک جھلک ہے جس کا جادو رضوی صاحب نے اپنے علم سے جگایا ہے۔ مگر اس میں صرف ان کا علم شامل نہیں‘ اس میں وہ محبت اور عقیدت بھی شامل ہے جو رضوی صاحب کو خاک پائے رسالت سے ہے۔ اس ترجمے کا عنوان رضوی صاحب نے ''ترجمان البردہ‘‘ رکھا ہے۔ اس لیے کہ یہ ترجمہ نہیں‘ ترجمانی ہے۔ اس کی تحریک انہیں کیسے ہوئی؟ یہ انہی کی زبانی سنیے۔ '' یہ 2015ء کے لگ بھگ کی بات ہو گی‘ میں انگلستان میں اپنے بیٹے عاصم کے ہاں گرمیوں کی چھٹیاں گزار رہا تھا کہ ایک روز قصیدۂ بردہ پڑھتے ہوئے ابتدائی چند اشعار کی برجستہ ترجمانی اُردو آزاد نظم میں ہو گئی جسے میں نے ایک کاغذ پر پنسل سے لکھ لیا۔ یہ ایک بے ارادہ واردات تھی جسے جاری رکھنے کا کوئی خیال نہ تھا۔ کئی برس کاغذ کا یہ ٹکڑا پڑا رہا اور اس پر درج سطریں مرورِ وقت کے ساتھ مٹ مٹ کر پھیکی پڑتی چلی گئیں۔ دو تین برس پہلے یاد نہیں کس مناسبت سے یہ دو چار شعروں کی ترجمانی میں نے ایک کاغذ پر صاف کی۔ 2022ء کی تعطیلاتِ گرما میں مجھے پھر عاصم کے پاس جون اور جولائی کے مہینے گزارنے کا اتفاق ہوا اور خوش قسمتی سے یہ داعیہ طبیعت پر مستولی ہو گیا اور ایک رَو چل پڑی۔ روزانہ چھ اشعار کی ترجمانی ہوتی رہی۔ تا آنکہ جولائی کے اواخر تک اس کام کا پہلا مسودہ تیار ہو گیا۔ یکم اگست 2022ء کو میں اپنے بڑے بیٹے عامر کے پاس جدہ آ گیا۔ اس فرصت میں اس مسودے کو پھر سے دیکھنے اور نوک پلک سنوارنے کا موقع ملا۔ یہ کام بسا اوقات ترجمانی کے اولین مرحلے سے زیادہ غور طلب ثابت ہوا۔ قصیدے کے متن میں جا بجا لفظی مناسبتوں کے جو جال بندھے ہیں‘ میرے لیے اس کا حق اُردو میں ادا کرنا ممکن نہ تھا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ میری یہ حقیر سی کاوش کسی طرح بھی عربی متن کا ترجمہ نہیں بلکہ اصل کے مفاہیم اور جذبے کو کسی قدر سرشاری کے ساتھ اردو میں ادا کر دینے کی ایک کوشش ہے جس میں شعری رعایتوں اور مناسبتوں کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا‘‘۔
امام بوصیری کے حالات بھی مذکور ہیں۔ امام کہتے ہیں: مجھے فالج ہو گیا جس نے میرا آدھا بدن شل کر دیا۔ تب مجھے اپنے اس قصیدے ''البردہ‘‘ کے نظم کرنے کا خیال آیا۔ سو میں نے یہ قصیدہ کہا۔ اور اس وسیلے سے اللہ سے درخواست کی کہ مجھے صحت عطا فرمائے۔ اور بار بار اسے پڑھتا رہا اور رو رو کر دعا مانگی اور واسطہ دیا۔ اس میں میری آنکھ لگ گئی تو مجھے نبیﷺ کی زیارت ہوئی۔ آپﷺ نے اپنا دست مبارک میرے چہرے پر پھیرا اور ایک چادر (بُردہ) مجھ پر ڈال دی۔ آنکھ کھلی تو میں نے خود میں اُٹھنے کی طاقت محسوس کی۔ سو میں اٹھا اور گھر سے باہر نکل گیا...
ترجمان البردہ کی طباعت کا معیار عالی شان ہے۔ کاغذ بہترین لگایا گیا ہے۔ جلد از حد دیدہ زیب ہے۔ ہر صفحے پر حاشیہ اور آرائش ہے۔ آخر میں توضیحات ہیں جن میں بیش بہا علمی نکات بیان کیے گئے ہیں۔ بلا شبہ یہ ترجمانی اردو ادب میں بھی ایک معتبر اضافہ ہے۔