"AIZ" (space) message & send to 7575

سانحہ سقوطِ ڈھاکہ

قوموں کی تاریخ میں کئی سانحے ایسے ہوتے ہیں جن کو مدتِ مدید تک فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ تاریخِ اسلام میں ایسے بہت سے سانحات ہوئے جن کی کسک اور غم آج بھی دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں میں موجود ہے۔ سقوطِ بیت المقدس کا سانحہ اس اعتبار سے ایک دلخراش سانحہ تھا کہ جس کی وجہ سے آج تک فلسطین اور غزہ کی پٹی میں رہنے والے مسلمان دکھ‘ کرب اور استحصال کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ مسلمانوں کا قبلہ اوّل بیت المقدس حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں اسلامی سلطنت کا حصہ بنا تھا اور حضرت فاروق اعظمؓ بیت المقدس کی چابیاں لینے کیلئے مدینہ منورہ سے خود بیت المقدس تشریف لے گئے۔ انبیاء کرام کی سرزمین پر تادیر مسلمانوں کا سیاسی غلبہ رہا لیکن پھر صلیبیوں نے اپنی سیاسی اور عسکری قوت کو یکجا کر کے بیت المقدس پر تسلط حاصل کر لیا۔ اس تسلط کو توڑنے کیلئے حضرت صلاح الدین ایوبیؒ نے مسلم نوجوانوں میں غیرت اور خودداری کی ایک نئی روح پھونکی اور مسلمان پورے جذبۂ ایمانی و سرفروشی کے ساتھ صلیبیوں سے ٹکرا گئے اور ایک مرتبہ پھر بیت المقدس پہ علمِ توحید بلند کر دیا گیا۔ القدس کے میناروں سے کئی صدیوں تک حی علی الصلوٰۃ اور حی علی الفلاح کی صدائیں گونجتی رہیں۔ بتدریج مسلمان مادہ پرست ہوتے چلے گئے اور مذہبی اور لسانی یکجہتی کے باوجود عربوں کے قومی تعصبات کی وجہ سے نئی ریاستیں منظر عام پہ آنا شروع ہو گئیں۔ اس ملی اجتماعیت کی کمزوری کی وجہ سے 1967ء میں یہودیوں نے چار عرب مسلم ممالک کو بیک وقت جنگ میں شکست دے کر نہ صرف مسلم علاقوں پر قبضہ کر لیا بلکہ مسلمانوں کو قبلہ اوّل سے بھی بیدخل کر دیا۔ اُس وقت سے لے کر آج تک مسلمان ظلم وستم اور استحصال کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ اس استحصال سے نجات حاصل کرنے کیلئے ماضی قریب میں متعدد عظیم فلسطینی رہنمائوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دیں لیکن افسوس کہ مسلمان بحیثیت مجموعی ان کی پشت پر کھڑے ہونے سے قاصر نظر آئے۔
سانحۂ بیت المقدس کے بعد جس عظیم سانحے کی یادیں آج بھی مسلمانوں کو دکھ اور کرب میں مبتلا کر دیتی ہیں وہ سقوطِ بغداد کا سانحہ ہے۔ بغداد مسلمانوں کے علمی اور تمدنی عروج کی علامت تھا‘ جب اس پر اسلام دشمنوں نے یلغار کی تو دجلہ اور فرات کے وہ دریا جو مدتوں تک مسلمانوں کے عروج کے شاہد رہے‘ انہوں نے اس جنگ میں مسلمانوں کی پسپائی کو اپنی نگاہوں سے دیکھا۔ دجلہ اور فرات کا پانی کتب خانوں کی سیاہی سے تاریک اور مسلمانوں کے خون سے رنگین ہو گیا اور مسلمان سقوطِ بغداد کے بعد مدتِ مدید تک اپنے زخموں کو چاٹتے رہے۔
برصغیر بھی طویل عرصے تک مسلمانوں کے سیاسی عروج کا مرکز رہا اور یہاں بہت سے مسلم خاندانوں نے یکے بعد دیگرے حکومت کی۔ کبھی غزنوی‘ کبھی غوری‘ کبھی تغلق‘ کبھی غلاماں‘ کبھی خلجی اور کبھی مغل برصغیر کے اقتدار پر غالب رہے لیکن جب مسلمان اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین سے دور ہوئے تو بتدریج ان میں کمزوری پیدا ہوتی گئی اور بالآخر وہ وقت آ گیا جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے تجارتی نیٹ ورک کی آڑ میں برصغیر کے طول وعرض پر اپنی حکومت قائم کر لی۔ گو کہ طاقتور مغل حکمرانوں کے دور میں وہ اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب نہ ہو سکے لیکن آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر انگریزوں کی یلغار کا مقابلہ نہ کر سکا۔ چونکہ انگریز فاتحین نے مسلمانوں سے اقتدار چھینا تھا اس لیے مسلمانوں کو حکومتی جانبداری اور استحصال کا نشانہ بننا پڑا۔ ہندو اور مسلمانوں نے انگریز کے اقتدار سے نجات حاصل کرنے کیلئے یکجا ہو کر آزادی کی سیاسی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا لیکن ہندو اپنی عددی اکثریت کے زعم میں مبتلا تھے۔ ایک ہزار برس تک مسلم حکمرانی کی کسک اُن کے دلوں میں موجود تھی۔ چنانچہ وہ دلی طور پر مسلمانوں کے ساتھ نہ تھے اور کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے جس میں مسلمانوں کی پشت پر وار نہ کیا جائے۔ یہ بدعملی دیکھتے ہوئے مسلم لیگ کے رہنمائوں نے فیصلہ کیا کہ انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کیلئے آزادانہ حیثیت سے آزادی کی جنگ لڑی جائے۔ قائداعظم محمد علی جنا حؒ‘ علامہ اقبالؒ‘ مولانا ظفر علی خانؒ اور مولانا محمد علی جوہرؒ نے برصغیر کے طول وعرض میں مسلمانوں کو جگایا اور علمائے اسلام نے اُن کی تائید کی۔ پورے برصغیر میں ایک ہی نعرہ گونجا: پاکستان کا مطلب کیا؟لا الہ الا اللہ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی قربانیوں کے بعد پاکستان معرضِ وجود میں آ گیا۔
1947ء میں پنجاب‘ سرحد‘ بلوچستان‘ سندھ اور بنگال پر مشتمل ایک عظیم نظریاتی ریاست معرضِ وجود میں آئی لیکن بدنصیبی سے یہ ریاست جلد ہی قومیتی اور لسانی عصبیتوں کا شکار ہوگئی۔ بنگال‘ جو مغربی پاکستان سے ایک ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر تھا‘ وہاں کے لوگ بنگالی کو سرکاری زبان کا درجہ دینا چاہتے تھے لیکن افسوس کہ اس مطالبے کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا گیا۔ بعد ازاں بنگالیوں کی سیاسی قوت کو بھی تسلیم نہ کیا گیا اور 1970ء میں واضح مینڈیٹ کے باوجود عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہ کیا گیا جس کی وجہ سے ملک میں زبردست کشمکش شروع ہو گئی اور اس کشمکش کے نتیجے میں بنگلہ دیش ایک علیحدہ وطن کی حیثیت سے منظر عام پہ ابھرا۔ بھارتی افواج نے بنگالی قوم پرستوں کی بھرپور تائیدکی اور پاکستان کے ادارے اور افواج بنگال میں عوامی حمایت سے محروم ہونے کی وجہ سے پاکستان کو یکجا رکھنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ سقوطِ ڈھاکہ ایک بہت بڑا المیہ ہے جس کی کسک آج بھی ہر محب وطن پاکستانی اپنے دل میں محسوس کرتا ہے۔ تاہم یہ خوشی اور فرحت کی بات ہے کہ بنگالی قوم پرستوں کے ایک طویل تسلط کے بعد آج بنگلہ دیش میں مثبت سوچ رکھنے والے لوگ غالب آ چکے ہیں۔ حسینہ واجد اور اس کے ہمنوا اقتدار سے محروم ہو چکے ہیں اور عوامی لیگ کا عصبیت پر مبنی فلسفہ سیاسی اعتبار سے کمزور ترین سطح پر جا چکا ہے۔ اسکے برعکس جب پاکستان کے حالات پہ غور کیا جاتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان ابھی تک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ 1977ء میں انتخابی دھاندلیوں کے الزام کے بعد چلنے والی تحریک کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ بعد ازاں 2013ء میں پاکستان تحریک انصاف نے انتخابی دھاندلی کے خلاف بھرپور انداز سے آواز اٹھائی۔ 2018ء کے الیکشن کے بعد تحریک انصاف کی حکومت بنی جو اپنی مدت کو پورا نہ کر سکی اور عمران خان کو اِن ہائوس تبدیلی کے ذریعے اقتدار سے محروم ہونا پڑا لیکن تحریک انصاف نے اس سیاسی تبدیلی کو قبول کرنے کے بجائے مزاحمت اور احتجاج کا راستہ اختیار کیا‘ جس کی وجہ سے ملک میں ایک سیاسی خلفشار اور انتشار کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ فروری 2024ء کے انتخابات کے نتیجے میں گو مسلم لیگ اقتدار میں آگئی لیکن اس کے باوجود تحریک انصاف نے احتجاج کی سیاست کو جاری وساری رکھا ہوا ہے۔
سیاسی جماعتوں میں مختلف طرح کے تحفظات پائے جاتے ہیں‘ بہت سے لوگ انتخابی نتائج پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے اور بہت سے لوگ مینڈیٹ ملنے کے باوجود حکومتوں کی مدت نہ پوری ہونے پر خدشات کا شکار ہیں۔ ان تحفظات کو دور کرنا ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس حوالے سے کسی بھی قسم کا تساہل ریاست کے مفاد میں نہیں۔ پاکستان میں اگر کسی جماعت کو مینڈیٹ ملتا ہے تو اس کو اقتدار میں آنے کا حق ملنا چاہیے اور اس جماعت کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع بھی لازماً دینا چاہیے۔ اس کیساتھ ساتھ صوبوں اور وفاق کے درمیان کسی بھی قسم کے تصادم کی مکمل حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ اگر کوئی بھی سیاسی شخص یا عہدیدار قانون شکنی کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کو قانون کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ اس حوالے سے ملک میں پایا جانیوالا افراط وتفریط سیاسی استحکام کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ ان معاملات پر تمام سٹیک ہولڈرز کو ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کو سیاسی اعتبار سے مستحکم اور امن وسکون کا گہوارا بنایا جا سکے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں