"AYA" (space) message & send to 7575

دشمنی کے علاوہ بھی کچھ ہوسکتا تھا

کاش ہر پاکستانی دو مختصر سی وڈیوز یوٹیوب پر دیکھ سکے۔ ایک میں پاکستان کے تب کے گورنرجنرل غلام محمد کا دہلی کا دورہ ہے۔ سال 1955ء کاہے اور گورنر جنرل کوہندوستان کے ریپبلک ڈے پر مہمانِ خصوصی کے طور پر بلایا گیا تھا۔ ایئرپورٹ پر استقبال کرنے والوں میں ہندوستانی وزیراعظم پنڈت جواہرلال نہرو بھی موجود ہیں۔ ہمارے گورنر جنرل کا ایسے استقبال ہو رہا ہے کہ لگتا ہے کہ کسی بڑے ملک کا سربراہ دہلی آیا ہوا ہے۔ اور غلام محمد بھی استقبال کرنے والوں کو ایسے مل رہے ہیں جیسے کوئی بڑا لوگوں سے مل رہا ہو۔ اس وڈیو میں دشمنی یا حقارت کا کوئی شائبہ نظر نہیں آتا۔ ایسا لگتا ہے جیساکہ ہمارے دونوں ممالک کے درمیان بڑے نارمل تعلقات ہیں۔
دوسری وڈیو جنرل موسیٰ خان کمانڈر اِن چیف پاکستان آرمی کے دورۂ ہندوستان کے بارے میں ہے۔ ایئرپورٹ پر نہایت ہی پُرتپاک استقبال ہمارے کمانڈراِنچیف کا ہوتا ہے۔ ہندوستان کے تمام چوٹی کے جرنیل بشمول اُن کے کمانڈراِنچیف ایئر پورٹ پر موجود ہیں۔ اور جنرل موسیٰ خان کا انداز ایسا ہے جیسا کہ کسی برابر کے ملک کے دورے پرآئے ہوئے ہیں۔ ہندوستان کے تب کے وزیر دفاع وی پی مینن جو اپنے زمانے میں خاصے مشہور آدمی ہوا کرتے تھے‘ سے بھی جنرل موسیٰ کی ملاقات ہوتی ہے۔ جنرل موسیٰ بڑے آرام اوراعتماد سے ہندوستانی وزیر دفاع کو ملتے ہیں۔ یہ چیزیں وڈیو میں صاف دکھائی دیتی ہیں۔ کہاں یہ منظر اور کہاںوہ نظارہ جب دسمبر 1971ء میں لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے سامنے ہمارے ایسٹرن کمان کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اے اے کے نیازی سرنڈر کرتے ہیں اور اپنا پستول اُنہیں پیش کرتے ہیں۔ زمین آسمان کا فرق ہے ان دونوں نظاروں میں۔ کہاں وہ برابری کا تاثر اور کہاں شکست کی یہ تصویر۔ ہوا کیا تھا کہ ہم یہاں تک پہنچے؟
کئی بار لکھ چکا ہوں ایک بار پھر دہرائے دیتے ہیں کہ 1965ء کی جنگ کا پنگا ہمیں بہت مہنگا پڑا۔ تعجب کی بات یہ کہ اُس معرکے کی باقاعدہ پلاننگ بھی جی ایچ کیو کے لیول پر نہیں ہوئی تھی۔ ایک سوچ تھی کہ چین کے ہاتھوں 1962ء میں شکست کھانے کے بعد ہندوستان کمزور ہو چکا ہے اور عسکری طور پر ہم اُس پر بازی لے سکتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں کمانڈو بھیجے گئے اس امید کے ساتھ کہ اُن کے پہنچتے ہی کشمیری عوام اُٹھ کھڑے ہوں گے اور سرینگر کا راستہ کھل جائے گا۔ ایسا تو نہ ہوا لیکن جواباً ہندوستان نے بین الاقوامی بارڈر پر حملہ کردیا اور یوں 65ء کی جنگ چھڑ گئی۔ سترہ دن میں فریقین کا سانس پھول چکا تھا اور دونوں اطراف کسی بھی طریقے سے جنگ بندی کیلئے بے قرار ہونے لگے۔ روس اور امریکہ کی مداخلت سے جنگ بندی ہو گئی اور تاشقند میں کچھ ماہ بعد امن معاہدہ بھی طے ہو گیا۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے اس پر منہ بنائے کہ پاکستان نے مذاکرات کی میز پر سب کچھ سرنڈر کر دیا ہے۔ یہ اُن کے الفاظ نہ تھے لیکن تاشقند معاہدے کے بعد انہوں نے جو اداکاری شروع کی اُس سے مفہوم یہی نکلتا تھا۔ کابینہ سے فارغ ہوئے‘ لاہور ریلوے سٹیشن پر پُرتپاک استقبال ہوا جس سے بھٹو کی آنکھیں کھلی رہ گئیں۔ ایک سال بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد ڈالی گئی اور یوں ایوب خان کے دس سالہ اقتدار کا سورج غروب ہونے لگا۔
تاشقند امن معاہدے میں فقط یہ بات درج تھی کہ ہندوستان اور پاکستان اپنے معاملات پُرامن طریقوں سے طے کریں گے۔ اس نکتے کو بھٹو نے شکست سے تشبیہ دی اور سیاسی طور پر اس کا خوب فائدہ اٹھایا۔ ہم پنجابی ویسے ہی خاصے جذباتی ہوتے ہیں اورنعروں کے پیچھے لگنے میں زیادہ دیر نہیں لگاتے۔ پنجاب کے نوجوانوں نے بھٹو کو اپنا ہیرو مان لیا اوراُس زمانے میں جہاں اور نعرے مقبول ہوئے وہاں ہندوستان کے خلاف ہزار سالہ جنگ لڑنے کا نعرہ بھی خوب گونجا۔ پرانا پاکستان دو لخت ہو گیا اورنئے پاکستان کی نوید سنائی گئی۔
65ء کی جنگ سے زیادہ بُرااثر نفسیاتی ہوا۔ ہندوستان اور پاکستان کے تمام روابط ٹوٹ گئے۔ آنا جانا مکمل طور پر ختم ہو گیا۔ عسکری سازوسامان کے لیے زیادہ وسائل صرف ہونے لگے۔ کچھ تو رکاوٹیں زمین پر تھیں لیکن زیادہ اونچی دیواریں ذہنوں میں کھڑی ہوئیں۔ ہندوستان کے لیے دشمن کا لفظ استعمال ہونے لگا۔ عجیب بات ہے کہ پنجاب کے بٹوارے سے جو خون کے دریا بہے اُس میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اتنی حقارت پیدا نہ ہوئی جتنی کہ 1965ء کی جنگ کے بعد۔
ایک مسئلہ یہ بھی تھاکہ 1965ء کی جنگ کی تمام حقیقت تو بیان نہ کی جاسکتی تھی کیونکہ ایسا کرنے سے ہمارے غلط مفروضوں سے پردہ اُٹھ جاتا۔ اس کے بجائے حقیقت کو افسانوں کے ایک لبادے میں ڈھانپا گیا۔ سرکاری ذرائع ابلاغ اور کچھ سرکاری قسم کے دانشوروں نے ایسا سماں باندھا کہ معلوم ہوتا تھا کہ 1965ء کا معرکہ سٹالن گراڈ اور لینن گراڈ کے محاذوں کے برابر تھا۔کچھ نورجہاں کے سریلے نغموں نے قوم کا دماغ ہی الٹ دیا۔ وہ نغمہ سرا ہوتیں تودلوں کی دھڑکن تیز ہو جاتی اور عقل کے دروازے بند ہونے لگتے۔ اس دشمنی کی فضا سے پھر ہم نکل نہ سکے اور وہ آج تک نہ صرف قائم ہے بلکہ آج کے نوجوانوں کو شاید علم بھی نہ ہو کہ ایک زمانہ تھا کہ تقسیمِ ہند کے بعد بھی ہندوستان اورپاکستان کے تعلقات خاصے نارمل ہوا کرتے تھے۔ ہماری جنریشن نے تو انڈین فلمیں پاکستانی سینما گھروں میں دیکھیں۔ لتا اور رفیع کے گانے ہم ریڈیو پر سنا کرتے تھے۔
65ء کی جنگ تو ہو گئی لیکن مشرقی بنگال میں کھلواڑ کا میدان ابھی سجنا تھا۔ جن ہاتھوں میں قوم کی تقدیر تھی اُنہوں نے حالات ایسے پیدا کیے کہ بنگالی بغاوت کی نوبت تک جا پہنچے۔ ہندوستان نے موقع کو غنیمت جانا اورپاکستان پر چڑھائی کی تیاریاں کیں۔ یوں قائداعظم کا پاکستان دولخت ہوا اور ہمارے حوصلے کی داد دینی چاہیے کہ جتنے آنسو اُس سانحہ پر بہنے چاہئیں تھے وہ بھی نہ بہے۔ آج بھی دسمبر 16 کی تاریخ گزر جاتی ہے اور ہمارے دلوں پر کوئی خاص اثر نہیں ہوتا۔ ایک وہ دل سوز نغمہ ہی رہ جاتا ہے ''وہ ہمسفر تھا مگر اُ س سے ہمنوائی نہ تھی‘‘۔ نصیر ترابی کے دل کو چوٹ لگی ہوگی لیکن زیادہ ترجو ہم تھے‘ ہم بے حس ہی رہے۔ دیگر نتائج کے علاوہ ہندوستان کے ہاتھوں شکست نے دشمنی کے بیانیے پر مہر ثبت کردی۔
کچھ سال بعد پتا نہیں کون سا الہ دین کا چراغ ہم افغانستان کے پہاڑوں اور وادیوں میں ڈھونڈنے چلے۔ جس طرح 1965ء میں بغیر سوچے سمجھے سب کچھ داؤ پر لگا دیا تھا ایک بار پھر افغانستان کے حوالے سے ذہنوں پر تالے لگا کراپنی بہتری اپنا مستقبل‘ یعنی سب کچھ ‘ اُس پرائی آگ میں جھونک دیا۔ اسلام کے نعرو ں کی پہلے بھی کمی نہ تھی لیکن اس نام نہاد جہاد کے بعد سرکاری ذہنوں نے اور کچھ سننے کو پسند نہ کیا۔ امریکہ اپنے مقاصد پورے کرکے افغانستان سے ایک بار نہیں دو بار جا چکا ہے۔ ہم ماضی کی الجھنوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور لگتا یوں ہے کہ آسمانوں کے نیچے ہم نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ ہم نے پیچھے ہی جانا ہے‘ آگے کی طرف نہیں دیکھنا۔
دنیا نے ہمارا کیا بگاڑنا تھا‘ ہم ہی یہ کام کرتے چلے گئے۔ ہندوستان سے اندھی دشمنی پالی اورہرمسئلے کو ہندوستان کے زاویے سے دیکھا۔ اپنی پہچان کسی مثبت بات پر نہ کی بلکہ اس منفی پہلو پر کہ ہندوستان ہمارا دشمن ہے اور ہم نے اُس کے مقابلے میں کھڑا ہونا ہے۔ ان بیکار کے خیالات سے ہمارا قد بڑا نہ ہوا۔ ہندوستان نے اپنے حالات سنبھالے اور اقوامِ عالم میں اُس نے اپنا مقام بنالیا۔ ہم الف لیلہ کی داستانوں کے اسیر رہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں