ماں کو دنیا سے رخصت ہوئے اٹھارہ برس ہو گئے۔
پچھلی بار جب میں راولپنڈی کے اُس قدیم قبرستان پہنچا جہاں میرے والدِ مرحوم کی پائنتی سے ذرا آگے کر کے میری والدہ کی قبر ہے تو ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی اور آسمان بادلوں سے ڈھکا تھا۔ خزاں کا ناقوس بج چکا تھا۔ زمین پر پیلے رنگ کے پتے بکھرے ہوئے تھے۔ قبروں کے بیچوں بیچ گیلی مٹی سے چپکے ان پتوں پہ چلتا ہوا جب میں والدین کی قبروں کے آس پاس پہنچا تو تلاش میں دِقت پیش آئی۔ ایسا ہر بار ہوتا ہے‘ ہر بار میرے دل کے اندر کہیں دور ایک عجیب سی آرزو بُکل مارے بیٹھی ہوتی ہے کہ مجھے یہ قبریں جلدی سے نہ ملیں‘ کچھ دیر تو لگے انہیں تلاش کرنے میں۔
لاریب ساری دنیا کی مائیں ایک سی ہوتی ہیں۔ یقینا وہ بھی ساری دنیا کی ماؤں جیسی ہی ہو گی لیکن وہ میری ماں تھی۔ پہلا بیٹا ہونے کے ناتے مجھے اُس کے دامانِ شفقت میں رہنے کا سب سے زیادہ موقع ملا۔ میں نے ہوش سنبھالا تو گاؤں کے کچے گھر میں بسیرا ڈالے غربت کے میلے میلے سے روز و شب میں اُسے مشقتوں میں جکڑے دیکھا۔ وہ چکی پیستی‘ برتن مانجھتی‘ گیلی لکڑیوں کو پھونکیں مار مار کر ہانڈی بناتی‘ تنور میں روٹیاں لگاتی‘ کمرے کا فرش لیپتی‘ دیواروں کو 'پوچا‘ لگاتی‘ بڑی سی گٹھڑی اُٹھا کر گاؤں کی ندی پر کپڑے دھونے جاتی‘ میرے لیے پھٹی پرانی 'لیروں‘ سے گیند بنا کر اُس پر سرخ دھاگے کے چوکور خانے بناتی‘ مجھے راستہ بھول کر جادو نگریوں میں کھو جانے والے شہزادوں کی کہانیاں سناتی‘ صبح دم مجھے جگاتی‘ منہ دھلواتی‘ سکول جانے کیلئے تیار کرتی‘ گھی میسر ہوتا تو پراٹھا‘ نہ ہوتا تو خشک روٹی بنا کر اُس میں کبھی انڈا‘ کبھی آم کے اچار کی پھانک اور کبھی پیازکی گٹھّی رکھ کر کپڑے کی ایک دھجی میں باندھ کر ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ رخصت کرتی۔ وہ طلب‘ حرص‘ آرزو‘ خواہش اور تقاضے کے آشوب سے پاک تھی۔ نا آسودگی‘ اعصاب کو کمزور کر دیتی ہے۔ گھر کو تناؤ‘ چڑچڑے پن‘ تند مزاجی اور تلخ نوائی جیسی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں لیکن یہ عجب گھر تھا۔ میں کبھی کبھی حیران ہوتا تھا کہ والد صاحب بھی امی کو 'آپ‘ اور'تُسّی‘ کہہ کر کیوں بلاتے ہیں؟
گاؤں کے بے ڈھب ماحول میں ماں کو دو باتوں کی بڑی فکر رہتی تھی۔ ایک یہ کہ گلی محلے کے بچوں سے کھیلتے میں کوئی گالی نہ سیکھ لوں اور دوسری یہ کہ میری پڑھائی میں کوئی خلل نہ پڑے۔ رات کو مٹی کے دیے یا لالٹین کی روشنی میں مجھے سکول کاکام کرتے دیکھ کر اُنہیں بہت خوشی ہوتی تھی۔ مجھے اپنے کچے گھر کے چھوٹے سے صحن میں اُترنے والی سہ پہر اور ماں کی آنکھوں میں جھلملا اٹھنے والی وہ روشنی کبھی نہیں بھولے گی جب میرے چچا نے‘ جو مڈل سکول کے ہیڈ ماسٹر بھی تھے‘ میری ماں کو یہ خبر دی کہ مڈل کے امتحان ورنیکولر فائنل کا نتیجہ آ گیا ہے اور عرفان پورے ضلع میں اوّل رہا ہے۔ میل ہا میل تک ہائی سکول نہ ہونے کے باعث میری ماں ہجرت کر کے اپنے والدین کے پاس راولپنڈی آ گئیں کہ میری پڑھائی کا سلسلہ نہ ٹوٹے لیکن میٹرک کے بعد سارے وسائل دم توڑ گئے۔ پھر محنت‘ مشقت اور تگ و دو کا ایک دشتِ بے اماں تھا اور میں۔ میرے زادِ راہ میں صرف ایک چھوٹی سی پوٹلی تھی جس میں میری ماں کا یہ خواب بندھا تھا کہ میں نے ہر حال میں پڑھائی جاری رکھنی ہے۔ میرے والد نے اس مشن میں میری ماں کا بھرپور ساتھ دیا۔ اپنے لیے کئی مشکلات برداشت کر لیں لیکن ہمارے مستقبل کے حوالے سے ہماری ماں کی آرزوؤں کی راہ میں کبھی کوئی روک نہ لگائی۔ والد کو بھی ایک شاداب کھیت کی آرزو تھی اور ماں کھاد بن کر اس کھیت کی مٹّی میں گھلی جا رہی تھی۔
نوکری اور پڑھائی کی متوازی پٹریوں پر چلتے چلتے میں نے ایم اے کیا۔ بی ایڈ کے لیے سینٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ کامرانی‘ آسودگی اور تشکر کے ملتے جلتے احساس سے پھوٹنے والی روشنی کا انعکاس میں نے دوسری بار اُس دن اپنی ماں کی آنکھوں میں دیکھا جس دن میں نے ''پاکستان ٹائمز‘‘ کا پرچہ اُنہیں دکھاتے ہوئے بتایا کہ یہ خبر دیکھیں‘ آپ کے بیٹے نے پنجاب یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔ پھر رحمت کے باب کھل گئے‘ دن پھرنے لگے‘ میرے بعد میرے بھائیوں اعجاز‘ انعام‘ شاہد‘ طاہر اور اکلوتی بہن تسمیہ‘ سب نے ماں کی متعین کردہ راہوں پر چلتے چلتے تعلیم بھی حاصل کی اور حصولِ رزق کے محترم وسائل سے بھی بہرہ مند ہوئے۔ 1985ء کے موسم بہار میں ہمارے والد کا انتقال ہو گیا۔ وہ طمانیت کے اس احساس کے ساتھ رخصت ہوئے کہ موسم بدل چکا ہے اور صحر ا کا سفر‘ شاداب‘ نخلستانوں تک آ پہنچا ہے۔
میں ٹھکانے بدلتا ہوا اسلام آباد پہنچ گیا لیکن والدہ کا قیام راولپنڈی میں اپنے بیٹوں انعام اور طاہر کے ساتھ رہا۔ جب تک اُن کی صحت نے اجازت دی‘ وہ ہفتے عشرے میں ایک آدھ بار میرے ہاں آ جاتیں۔ اکثر میں صبح صبح اپنی چھوٹی سی فیکس مشین تھیلے میں ڈال کر بستہ اٹھائے‘ اُن کے ہاں پہنچ جاتا۔ میں نے سینکڑوں کالم اُن کی چارپائی کی پائنتی بیٹھ کر اس طرح لکھے کہ اُن کے پاؤں میری آغوش میں دھرے تھے۔ محدود رسمی تعلیم کے باوجود اقبال و غالب سے منیر نیازی اور اپنے جدِ امجد شاہ مراد سے میاں محمد بخش تک انہیں بیسیوں اشعار یاد تھے۔ آخری دنوں میں یہ شعر بہت پڑھا کرتی تھیں۔
جا او یار حوالے رب دے‘ میلے چار دناں دے
اس دن عید مبارک ہوسی‘ جس دن فیر ملاں گے
عید مبارک آئی لیکن اُس دن ماں ہسپتال کے ایک کمرے میں نیم جاں سی پڑی تھی۔ یہ ہم بہن بھائیوں کی پہلی عید تھی کہ ماں نے ہم میں سے کسی کو گلے لگایا‘ نہ دعائیں دیں نہ عیدی۔ پانچ جنوری 2007ء جمعۃ المبارک‘ صبح سات بجے وہ محبتوں کے سارے رشتے توڑ کر وہاں چلی گئیں جہاں ساری مائیں چلی جایا کرتی ہیں۔
میں نے اُن کی آنکھوں میں اللہ کے بے پایاں احساسِ تشکر میں بھیگی آخری چمک اُس دن دیکھی تھی جس دن انہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کے کہا: ''آج شادی کی تقریب میں گئی تو کتنی ہی عورتیں مجھے ملنے آتی رہیں اور میرا تعارف یوں ہوتا رہا کہ یہ عرفان صدیقی کی والدہ ہیں‘‘... وہ اس پہلو سے بہت خوش بخت تھیں کہ ایک لہلہاتا ہوا چمن چھوڑ کر گئیں۔ ہمیں کوئی حسرت نہ رہی کہ اُن کا اچھے سے اچھا علاج معالجہ نہ کرا سکے۔ کوئی ایسی آرزو نہ تھی جو اُن کے ہونٹوں پہ آئی ہو اور ان کی سعادت مند اولاد نے اسے پورا نہ کیا ہو۔ اعجاز‘ انعام‘ طاہر اور تسمیہ نے اُن کی خدمت کا حق ادا کر دیا۔ بلاشبہ انہوں نے مجھ سے کہیں زیادہ سعادتیں سمیٹیں۔ انعام اُن کا سب سے لاڈلا بیٹا تھا۔ ماں کی خدمت گزاری میں بھی وہ ہم سے بہت آگے تھا‘ اب تو وہ بھی ماں کے پڑوس میں جا سویا ہے۔
شام کو ہم نے اپنے والد کی قبر کی پائنتی‘ چند قبریں چھوڑ کر‘ اپنی ماں کو منوں مٹّی تلے دفن کر دیا۔ سورج‘ درختوں کے اُس پار‘ گھروں کی منڈیروں سے سرکتا ہوا اُفقِ مغرب میں ڈوب رہا تھا کہ ہم نے قبر پر پھولوں کی ایک چادر بچھائی اور گھر کو چلے آئے۔ شام کا دھندلکا پھیل رہا تھا لیکن مجھے اچانک یوں لگا جیسے سورج سوا نیزے پر کھڑا ہو اور ٹھنڈی چھاؤں کرنے والی سبز رنگ کی چھتری کہیں کھو گئی ہو۔ جیسے میں لق و دق صحر ا میں تنہا کھڑا ہوں۔