جب کسی علاقے پر حکومت کا مؤثر کنٹرول نہ ہو یا وہاں جمہوری نظام کمزور ہو تو وہاں بہت سے چیلنجز پیدا ہو جاتے ہیں۔ ایسے علاقوں میں قانون کی حکمرانی کمزور ہوتی ہے‘ جرائم بڑھتے ہیں اور دہشت گرد تنظیموں کو پھلنے پھولنے کا موقع ملتا ہے۔ اس کی ایک مثال سابق فیڈرلی ایڈمنسٹریٹڈ ٹرائبل ایریاز (فاٹا) کی ہے‘ جو ایک طویل عرصے تک پاکستان کے دیگر علاقوں سے الگ رہے۔ فاٹا میں قبائلی روایات کا بھرپور اثر تھا اور یہ علاقے مرکزی حکومت کے تحت تھے۔ اس خود مختاری کے نتیجے میں ان علاقوں میں قانون کی حکمرانی کمزور تھی اور انصاف کا نظام بھی متاثر ہوا۔ اس سے جرائم‘ فسادات اور انتقام جیسے واقعات میں اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ فاٹا میں تعلیم کا کمزور نظام‘ غربت اور بیروزگاری عام تھی‘ یہ نظام لوگوں کو دہشت گرد تنظیموں کے جھانسے میں آسانی سے آ جانے کا باعث بنا۔ اگر فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم نہ کیا جاتا تو یہ امکان تھا کہ یہ علاقے دہشت گردی کے گڑھ میں تبدیل ہو جاتے۔ دہشت گرد تنظیموں کو پھلنے پھولنے کا موقع ملتا اور ان کے لیے اپنے آپریشنز کو آسانی سے چلانے کے لیے محفوظ پناہ گاہیں میسر ہوتیں۔ اس سے نہ صرف فاٹا کے عوام بلکہ پورے ملک کے امن و امان کو شدید خطرہ تھا۔ اس لیے فاٹا کا خیبرپختونخوا میں ضم ہونا ایک تاریخی فیصلہ تھا۔ ضم شدہ اضلاع میں اگرچہ بہت کچھ ہونا باقی ہے تاہم انضمام کے فیصلے نے ان علاقوں میں قانون کی حکمرانی کو مضبوط بنایا‘ تعلیم اور صحت کی سہولتوں کو بہتر بنایا اور علاقے کی ترقی کے راستے کھولے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ کسی بھی علاقے میں مؤثر حکمرانی اور جمہوری نظام کی موجودگی نہ صرف علاقے کی ترقی کے لیے ضروری ہے بلکہ امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے بھی اہم ہے۔ جب حکومت کا کنٹرول کمزور ہوتا ہے تو دہشت گردی اور جرائم میں اضافہ ہوتا ہے جس سے علاقے کے عوام بلکہ پورے ملک کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔
ضلع کرم میں بھی کمزور جمہوری نظام اور کمزور ریاستی رِٹ مسائل کی اصل وجہ ہے۔ ریاست کی رِٹ کی کمزوری سے قانون کی حکمرانی کمزور ہوتی ہے‘ جرائم بڑھتے ہیں اور امن و امان کی صورتحال خراب ہوتی ہے۔ ریاست کی رِٹ کی کمزوری سے دہشت گردی اور انتہا پسندی پھیلتی ہے۔ ریاست کی رِٹ کی کمزوری سے معاشی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ ریاستی رِٹ کا تصور ریاست کی ایک بنیادی طاقت اور اختیار کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ ریاست کا قانون ہر فرد پر یکساں طور پر لاگو ہوتا ہے اور کوئی بھی فرد قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ ریاستی رِٹ ایک ایسا تصور ہے جو ریاست کی طاقت اور اختیار کو محدود کرتا ہے اور شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے۔
کرم میں ہتھیاروں کی آسانی سے دستیابی ایک ایسا مسئلہ ہے جو علاقے کے امن و امان کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ افغانستان کی سرحد کے قریب ہونے کی وجہ سے اس علاقے میں ہتھیاروں کی غیر قانونی آمد میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کے پاس غیرقانونی طور پر ہتھیار موجود ہیں۔ افغانستان میں جاری خانہ جنگی اور سیاسی عدم استحکام نے بھی اس مسئلے کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ پارا چنار کے افغان سرحد سے ملحق ہونے کی وجہ سے وہاں ہتھیاروں کی غیرقانونی آمد‘ منشیات کی سمگلنگ اور دہشت گردوں کی نقل و حرکت کا خطرہ ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ اس علاقے کی لمبی اور دشوار گزار سرحد‘ قبائلی روایات‘ اقتصادی روابط اور افغانستان میں جاری سیاسی عدم استحکام اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بناتے ہیں۔ سرحدی سکیورٹی کو مضبوط بنانے‘ مقامی لوگوں کو شامل کرنے‘ اقتصادی مواقع پیدا کرنے اور افغانستان کے ساتھ تعاون بڑھانے سے اس مسئلے سے نمٹنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پارا چنار کا معاملہ افغانستان کے تعاون کا متقاضی ہے کیونکہ سرحد پر غیرقانونی آمد و رفت کو اسی صورت روکا جا سکتا ہے جب دونوں ممالک تعاون کے لیے تیار ہوں۔ موجودہ حالات میں پاکستان چاہے بھی تو افغانستان تعاون کے لیے تیار نہ ہو گا کیونکہ افغان قیادت کو پاکستان کی جانب سے کیے جانے والے فضائی حملوں پر شدید تحفظات ہیں‘ سو جو بھی کرنا ہے پاکستان کو اپنے وسائل کی بنیاد پر کرنا ہو گا۔
ضلع کرم کے معاملے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کیلئے وفاق اور صوبے کو ایک پیج پر آنا ہو گا۔ اس ضمن میں بیک وقت کئی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جن کا سطورِ بالا میں اجمالی ذکر کیا ہے۔ امن معاہدہ مسئلے کا دیرپا حل ہے اور نہ ہی قبائلی مزاج کے لوگ ایسے معاہدوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ حکومتی کوششوں اور کئی دنوں کی محنت سے امن معاہدہ ہوا جس کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ پارا چنار میں نظام زندگی بحال ہو جائے گا کیونکہ فریقین نے علاقے میں ہتھیار بند کارروائیاں روکنے‘ امن و امان کی بحالی کے لیے مشترکہ کوششیں کرنے اور علاقے کی ترقی کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ حکومت کی جانب سے بھی علاقے میں ترقیاتی کاموں کو تیز کرنے اور بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ تاہم جب امدادی سامان لے کر ایک قافلہ علاقے سے روانہ ہوا تو اس پر فائرنگ کر دی گئی جس میں ڈی سی کرم جاوید اللہ محسود بھی زخمی ہوئے۔ ایک گروہ کو تحفظات تھے کہ معاہدے میں اس کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا۔ اس واقعے نے علاقے میں دوبارہ تشدد کا آغاز کر دیا اور امن معاہدہ کی خلاف ورزی ہوئی۔ اس واقعے کے بعد علاقے میں دوبارہ عدم استحکام پیدا ہو گیا۔ یہ واقعہ ایک تلخ یاد ہے جس سے علاقے میں امن و امان کی بحالی کے لیے کی جانے والی کوششوں کو ایک دھچکا لگا۔ اس واقعے نے یہ بھی واضح کر دیا کہ امن و امان کی بحالی کے لیے صرف معاہدے ہی کافی نہیں۔ کرم میں ریاست کی رِٹ کو بحال کرنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ٹل پارا چنار روڈ پر 48 چیک پوسٹوں کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے۔ سرکاری دستاویز کے مطابق 399 ایکس سروس مین کی بطور سپیشل پروٹیکشن فورس تعیناتی کا فیصلہ کیا گیا ہے‘ وفاقی حکومت کی جانب سے پارا چنار میں ایف آئی اے سائبر ونگ قائم کیا جائے گا‘ تمام بنکرز کو یکم فروری تک ختم کرنے کے لیے پلان کی تیاری پر بھی کام جاری ہے۔
ایک دوسرا طریقہ بھی ہے۔ پارا چنار میں کمزور جمہوری نظام کو مضبوط کرنا ہو گا‘ وہاں کے منتخب نمائندوں کو قومی سیاست کا حصہ بنانے کے لیے فنڈز مہیا کرنا ہوں گے‘ عوام کا احساسِ محرومی دور کرنا ہو گا۔ ریاستی رِٹ کو قائم کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ فلاحی منصوبوں سے وہاں کے لوگوں کے دل جیتے جائیں۔ جب انسان محسوس کرتا ہے کہ کوئی شخص یا ادارہ اس کی بھلائی کے لیے کوشاں ہے تو اس کے دل میں اس کے لیے قدرتی طور پر احترام اور محبت پیدا ہوتی ہے۔ یہ انسانی فطرت کا ایک لازمی حصہ ہے کہ ہم ان لوگوں کو پسند کرتے ہیں جو ہماری بھلائی کیلئے کام کرتے ہیں۔ جب ہماری مدد کی جاتی ہے تو ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم اکیلے نہیں اور ہمارے پاس ایک حامی ہے۔ یہ احساس ہمیں ان لوگوں سے جوڑتا ہے اور ان کے قریب لاتا ہے۔ اس طرح فلاحی کام نہ صرف لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لاتے ہیں بلکہ سماجی تعلقات کو مضبوط کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔