میں کالم کے آغاز میں ہی اپنے اُن تمام قارئین سے پیشگی معذرت خواہ ہوں جو میرے پاکستان واپس آنے پر موازنے پر مبنی میرے کالموں سے تنگ ہیں۔ ان تمام قارئین کو کالم کے شروع میں ہی اطلاع دی جاتی ہے کہ یہ کالم بھی اسی قسم کا ہے لہٰذا وہ اسے آخر تک پڑھ کر بعد میں مجھ پر جس غصے کا اظہار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں‘ براہِ کرم وہ اس پیشگی وارننگ کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک بار پھر سوچ لیں کیونکہ اس کے بعد وہ مجھ پر ناراض ہونے کے اخلاقی حق سے بہرحال محروم ہو جائیں گے۔
منیب الحق میرے بارے میں کسی خوش فہمی یا غلط فہمی کا شکار ہے اور میرے پاکستان سے جانے کے بعد کوئی بھی خرابی وقوع پذیر ہو جائے تو اس کا ملبہ وہ اس عاجز کی غیر حاضری پر ڈال دیتا ہے اور شتابی سے ایک عدد فون بھی کھڑکا دیتا ہے کہ مرشد! جلدی واپس آ جاؤ‘ ادھر حالات بڑے خراب ہو رہے ہیں۔ اور اس کی وجہ اُس کے خیال میں یہ ہوتی ہے کہ میں ملک میں نہیں ہوں۔ ایمانداری کی بات ہے کہ اس کی میرے بارے میں یہ خوش فہمی ایک لمحے کیلئے تو مجھے خوش کر دیتی ہے‘ میری گردن فخر سے تن جاتی ہے‘ سینہ پھول جاتا ہے اور چہرے پر خوشگوار سی مسکراہٹ آ جاتی ہے مگر یہ سب کچھ صرف چند لمحوں کیلئے ہوتا ہے۔ پھر مجھے میری اوقات یاد آ جاتی ہے‘ اپنی کسمپرسی کا احساس ہوتا ہے‘ اپنی بے بسی کا ادراک ہوتا ہے‘ چہرے پر آئی مسکراہٹ غائب ہو جاتی ہے‘ فخر سے تنی ہوئی گردن جھک جاتی ہے اور خوشی سے پھولا ہوا سینہ سکڑ کر اپنی جگہ پر آ جاتا ہے۔ ساری خوشی کافور ہو جاتی ہے تو میں منیب سے باقاعدہ احتجاج کرتا ہوں کہ وہ مجھ کو اس طرح بانس پر چڑھا کر آخر کس چیز کا بدلہ لیتا ہے؟دوسری طرف شاہ جی ہیں جو میرے باہر جانے پر تو کچھ نہیں کہتے لیکن میرے واپس آنے کے دوران ملکی حالات میں کوئی بھی خرابی پیدا ہو جائے تو اسے میری آمد سے جوڑ کر میرے سر ڈال دیتے ہیں۔ میں لاکھ کہتا ہوں کہ شاہ جی ہر روز نئی خرابی پیدا ہونا اور ہر چند دن بعد کسی گمبھیرتا کا وقوع پذیر ہونا اس ملک میں روٹین کا کام ہے اور اس کا میری وطن واپسی سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں‘ لیکن شاہ جی بھلا کب مانتے ہیں؟ میں ان کو کہتا ہوں کہ شاہ جی! کوئی ایک واقعہ ایسا بتا دیں کہ میرے ملک سے جانے کے بعد حالات بہتر ہو گئے ہوں؟ یا پیچھے کوئی نئی خرابی نہ واقع ہوئی ہو مگر شاہ جی میری دہائی یا صفائی‘ کسی بات پر توجہ نہیں دیتے اور ہر نئی خرابی کو میری پاکستان واپسی سے جوڑ کر مجھے راندۂ درگاہ ٹھہرا دیتے ہیں۔ ان دونوں دوستوں کی باتیں سننے کے بعد مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے میں پاکستان میں ہونے والی تمام تر خرابیوں کی واحد ذمہ دار شخصیت ہوں۔ کچھ خرابیاں میری ملک سے روانگی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اور باقی رہی سہی کسر میری آمد سے جڑی ہوئی خرابیاں پوری کر دیتی ہیں۔ مطلب یہ نکلا کہ ان ساری خرابیوں میں حکمران‘ سیاستدان‘ بیورو کریسی‘ مقتدرہ‘ اشرافیہ اور کسی مافیا کا کوئی ہاتھ نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مملکت خداداد پاکستان میں ہر آنیوالا دن گزرے ہوئے دن سے خراب ہوتا ہے اور ہر روز طلوع ہونیوالا سورج گزرے ہوئے کل سے زیادہ مسائل لے کر طلوع ہوتا ہے۔ میں یہ صورتحال دیکھتے دیکھتے بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ چکا ہوں مگر اس میں بہتری کے بجائے مسلسل ابتری آ رہی ہے اور ہم بحیثیت قوم (اب اس لفظِ قوم کو اپنے لیے استعمال کرتے ہوئے بھی جھجھک سی آتی ہے) روز بروز خرابیوں کے عمیق گڑھے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ہم ایسی ڈھلوان کے مسافر ہیں جسکا اختتام نہیں ہو رہا۔
ان دونوں دوستوں کی خوش فہمیوں اور الزام تراشیوں کے درمیان میں واپس آکر جب اپنی حیثیت اور اوقات کو سامنے رکھ کر ملکی صورتحال کا جائزہ لیتا ہوں تو یہ بات بہرحال اپنی جگہ درست ثابت ہوتی ہے کہ میرے جانے سے پہلے اور واپس آنے کے بعد والے حالات میں مزید تنزلی‘ خرابی اور ابتری پیدا ہوئی ہے۔ مزید غور کروں تو علم ہوتا ہے کہ جب میں ملک میں ہوتا ہوں تب بھی ہر آنے والا دن گزرتے ہوئے دن سے زیادہ خرابیوں کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔ یعنی میرا ہونا یا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ حالات میں روز پیدا ہونے والی خرابی شاید ہمارا مقدر بن چکی ہے اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ملک کا سارا سماجی ڈھانچہ تہ و بالا ہو چکا ہے۔ جائز اور ناجائز کی پہچان ختم ہو چکی ہے اور ان کے مابین باہمی فرق مٹ چکا ہے۔ جو باتیں چند سال پہلے تک بُری سمجھتی جاتی تھیں اب معاشرہ انہیں ایک ناپسندیدہ حقیقت سمجھ کر ہی سہی‘ مگر قبول کر چکا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ رشوت لینے والے افسر بھی کم از کم اتنا خیال ضرور رکھتے تھے کہ لوگوں اور خاص طور پر ملنے جلنے اور خاندان والوں میں ان کی شہرت خراب نہ ہو۔ رشوت لینے پر فخر کرنے کا تب تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ہمارے ایک بزرگ بتاتے تھے کہ ان کا ایک دوست کسی ایسے سرکاری محکمے میں افسر تھا جس میں اوپر کی آمدنی ہو جاتی تھی۔ اوپر سے وہ اس محکمے میں ایسی پوسٹ پر تھا جس پر بیٹھ کر اچھی خاصی اوپر والی کمائی اکٹھی ہو جاتی تھی۔ موصوف اس بہتی گنگا میں ہاتھ تو دھوتے تھے مگر معاشرے اور خاندان میں اپنی اس اوپر والی کمائی کو ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس کا طریقہ انہوں نے یہ نکالا کہ انہوں نے اپنے ایک نکمے اور نالائق بھائی کے نام پر ریشم امپورٹ کرنے کا پرمٹ حاصل کر رکھا تھا اور وہ اس پرمٹ پر ریشم درآمد کرتے تھے۔ اس زمانے میں ایسی چیزیں درآمد کرنے کیلئے درآمدی لائسنس کافی تگ و دو کے بعد ملتا تھا۔ ان کی خوشحالی اور پُرتعیش زندگی دیکھتے ہوئے ان کے ایک عزیز نے ان سے درخواست کی کہ وہ اپنے سرکاری تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے اسے بھی ریشم درآمد کرنے کا پرمٹ دلوا دیں۔ وہ صاحب اپنے اس عزیز سے کہنے لگے کہ اب آپ سے کیا پردہ‘ میں آپ کو سچ بتا رہا ہوں کہ مجھے اس پرمٹ شرمٹ سے کچھ بچنا تو رہا ایک طرف‘ الٹا پلے سے سالانہ دس بارہ ہزار روپے( اس زمانے میں دس بارہ ہزار روپے بڑی رقم ہوتی تھی۔ تب اتنی رقم میں نئے ماڈل کی ٹیوٹا کار آ جاتی تھی) ڈالتا ہوں۔ وہ عزیز پوچھنے لگے تو آپ پھر یہ ریشم کی امپورٹ کا کام چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ وہ کھسیانے سے ہو کر کہنے لگے: آپ کسی کو بتایئے گا نہیں‘ میں دراصل یہ کام اپنی اوپر والی کمائی کو چھپانے کیلئے کرتا ہوں۔ میں سال بھر میں اوپر سے کمائے گئے پچاس ساٹھ ہزار روپے (جی ہاں! تب سال کے پچاس ساٹھ ہزار بھی بہت بڑی رقم سمجھے جاتے تھے) کو اپنی جائز آمدنی ثابت کرنے کیلئے اپنے ریشم کے کاروبار کو بطور پردہ استعمال کرتا ہوں تاکہ معاشرے اور خاندان میں میرے پُرتعیش طرزِ زندگی اور خوشحالی کا تعلق میری سرکاری نوکری سے نہ جوڑا جائے بلکہ اسے میری ریشم والے کاروبارکی اضافی آمدنی تصور کیا جائے۔
ہماری معاشرتی اقدار گرتے گرتے یہاں تک پہنچ گئی ہیں کہ اب اوپر والی آمدنی باقاعدہ فخر سے ماہانہ آمدنی والے پیکیج کے حصے کے طور پر بتائی جاتی ہے۔ ایک دوست بتانے لگا کہ چند سال قبل وہ گندم کی بوریوں کے سلسلے میں بہاولپور کے محکمہ فوڈ کے ایک افسر کو بیگز کی سپلائی کیلئے طے شدہ کمیشن (رشوت) کی رقم دینے اس کے دفتر میں گئے تو وہاں کافی لوگ بیٹھے تھے۔ اس نے اس افسر سے کہا کہ وہ ان سے علیحدہ ملنا چاہتا ہے۔ اس افسر نے زور سے قہقہہ لگایا اور کہنے لگا: آپ مجھے جو لفافہ دینے آئے ہیں وہ پکڑائیں اور اگر کوئی مزید کام ہے تو بتائیں۔ اور ہاں! لفافے میں رقم پوری ہونی چاہیے۔ کل ایک کمبخت لفافہ دے کر گیا تو اس میں سے پانچ ہزار کا ایک نوٹ کم تھا۔ وہ دوست بتانے لگا: ان درجن بھر لوگوں میں مجھے ایسی شرمندگی محسوس ہوئی کہ لگا رشوت یہ افسر نہیں‘ دراصل میں لے رہا ہوں۔
قارئین! اب آپ خود انصاف سے بتائیں کہ معاشرے کی اخلاقی حالت اس تبدیلی، تغیر، تنزلی اور انحطاط کا میرے پاکستان سے جانے یا واپس آنے سے کوئی تعلق بنتا ہے؟