"KMK" (space) message & send to 7575

ایک بار پھر وہی قصۂ شہر ناپُرساں …(2)

1762ء میں یعنی پانی پت میں احمد شاہ ابدالی کی فتح اور افغانستان واپسی کے محض ایک سال بعد ہی مہاراجہ ہری سنگھ بھنگی نے افغان حکمران کے متعین کردہ گورنر لاہور خواجہ سعید کو جنگ میں شکست دے کر لاہور اور اس توپ پر قبضہ کر لیا۔ بھنگی مثل کے جنگجو حکمران اور عسکری مہارت میں بے مثل صلاحیتوں کے مالک ہری سنگھ بھنگی کے قبضے میں آنے کے بعد یہ توپ بھنگیوں والی توپ کے نام سے منسوب ہو گئی۔ ہری سنگھ بھنگی کے بعد یہ توپ مسلسل کئی سال تک بھنگی مثل سے تعلق رکھنے والے سکھ حکمرانوں لہنا سنگھ بھنگی اور گجر سنگھ بھنگی کے زیر قبضہ رہنے کے بعد چڑھت سنگھ کے حصے میں آ گئی جو اسے گوجرانوالہ لے گیا۔ چڑھت سنگھ سے یہ توپ چٹھہ سردار چھین کر احمد نگر لے گئے۔ اس توپ کی ملکیت پر احمد خان چٹھہ اور پیر محمد چٹھہ میں جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ میں گجر سنگھ بھنگی نے پیر محمد چٹھہ کا ساتھ دیا۔ جنگ میں احمد چٹھہ کے دو اور پیر محمد کا ایک بیٹا مارا گیا۔ اس توپ کی خاطر ہونے والی جنگ میں پیر محمد فاتح ٹھہرا۔ جنگ کے اختتام پر جس توپ کی ملکیت کیلئے جنگ ہوئی تھی‘ وہ پیر محمد کا جنگ میں مددگار گجر سنگھ بھنگی اپنی مدد کے عوضانے میں اپنے ساتھ لے گیا۔ گجر سنگھ سے یہ توپ دوبارہ چڑھت سنگھ چھین کر لے گیا۔ چڑھت سنگھ سے یہ توپ پٹھانوں نے چھین لی۔ اگلے سال اسے جھنڈا سنگھ بھنگی ہتھیا کر امرتسر لے گیا۔ 1802ء میں بھنگیوں کو شکست دے کر بالآخر اس توپ پر راجہ رنجیت سنگھ نے قبضہ کر لیا۔ رنجیت سنگھ نے یہ توپ ڈسکہ‘ قصور اور وزیرآباد کے معرکوں میں استعمال کی۔ اس توپ کی آخری جنگ 1818ء کا معرکۂ ملتان تھا جہاں اسے شہرِ پناہ اور قلعے کی فصیل توڑنے کی غرض سے لاہور سے خصوصی طور پر لایا گیا۔
لاہور میں مال روڈ کے آخری سرے پر عجائب گھر کے سامنے کھڑی ہوئی اس توپ کے سامنے ایک کتبہ لگا ہوا ہے جس پر اس توپ کی مختصر تاریخ کندہ ہے۔ اس چبوترے پر موجود سینکڑوں کبوتروں کے طفیل توپ کی مختصر تاریخ والا یہ کتبہ ہمیشہ کبوتروں کی بیٹ کے نیچے پوشیدہ دکھائی دیا۔ تقریباً تین‘ ساڑھے تین عشرے قبل ایک بار زور دار بارش کے بعد میں ادھر سے گزرا تو یہ کتبہ نسبتاً صاف حالت میں دکھائی دیا۔ تھوڑی سی محنت میں نے کی اور لکھائی پڑھنے کے قابل ہو گئی۔اس کتبے میں توپ کے بارے میں سطر بہ سطر تاریخ وار نمایاں واقعات درج ہیں۔ اب اس بات کو تیس‘ پینتیس سال گزر گئے ہیں تاہم جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے اس کتبے کے نیچے والی سطروں میں ایک جگہ لکھا تھا کہ توپ آخری بار ملتان کے محاصرے میں استعمال کے دوران زخمی ہوئی اور ناکارہ قرار دے کر لاہور بھجوا دی گئی۔ ملتان سے آنے کے بعد یہ توپ پہلے دہلی دروازے کے باہر نمائشی طور پر کھڑی کی گئی۔ مولوی نور احمد چشتی اپنی کتاب 'تحقیقاتِ چشتی‘ میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے 1864ء کے لگ بھگ اسے لاہور عجائب گھر کے عقب میں بارہ دری وزیر خان میں کھڑے دیکھا۔ 1870ء میں اس توپ کو لاہور عجائب گھر کے دروازے پر منتقل کر دیا گیا۔ بعد ازاں جب عجائب گھر کی نئی عمارت مکمل ہو گئی تو اس توپ کو مزید مغرب کی طرف کھسکاتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس کے شعبہ فارمیسی اور این سی اے کے درمیان منتقل کر دیا گیا۔
قارئین معذرت خواہ ہوں کہ ملتان کے محاصرے میں استعمال ہونے والی اس تاریخی توپ کے ذکر پر بہک کر کہیں اور چلا گیا۔ لیکن مسر دیوان چند‘ کھڑک سنگھ اور ہری سنگھ نلوا کی قیادت میں یہ ملتان کا آخری محاصرہ نہ تھا۔ ملتان کا آخری محاصرہ 19اپریل 1848ء کو شروع ہوا اور تقریباً نو ماہ جاری رہنے کے بعد 22جنوری 1849ء کو ملتان کے دیوان (گورنر) مولراج چوپڑا کی شکست اور انگریزوں کی فتح پر منتج ہوا۔ قلعہ اور شہرِ پناہ پر اصل حملے کا آغاز 27دسمبر 1848ء کو ہوا۔ فصیلِ قلعہ میں شگاف ڈالنے کی غرض سے فصیل سے 80گز کے فاصلے پر توپیں نصب کی گئیں اور ان ''بریچنگ بیٹریز‘‘ کو حفاظتی کور فراہم کرنے کیلئے 500گز پیچھے کھڑی توپوں سے بمباری شروع کی گئی۔ 30 دسمبر کو ایک مارٹر گولہ قلعے کے اندر مرکزی بارود خانے کے عین درمیان میں آ کر گرا اور بارود خانے میں موجود 180ٹن بارود دھماکے سے اڑ گیا۔ یہ دھماکا اتنا زوردار تھا کہ کہا جاتا ہے یہ روئے ارض پر اب تک ہونیوالا سب سے بڑا غیر ایٹمی دھماکا تھا۔ اس دھماکے میں جہاں دیوان مولراج کے800سے زائد سپاہی مارے گئے‘ وہیں قلعے کی فصیل کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ دو جنوری کو شہر کی فصیل مزید کئی جگہ سے ٹوٹی اور انگریز فوج شہر میں داخل ہو گئی‘ تاہم قلعے کی جانب سے مزاحمت جاری رہی۔ آخرکار 18جنوری کو قلعے کی دیواروں کے نیچے تین جگہ بارودی سرنگیں نصب کی گئیں۔ انکے پھٹنے سے قلعے کی فصیل کو بری طرح نقصان پہنچا اور وہ کئی جگہوں سے مسمار ہو گئی۔ 22جنوری کو دیوان مولراج چوپڑا نے غیرمشروط طور پر ہتھیار ڈال کر امان طلب کر لی اور ملتان انگریز عملداری میں آ گیا۔
قلعہ ملتان کی دو کلومیٹر پر محیط فصیل چالیس سے ستر فٹ بلند تھی‘ جس میں 46حفاظتی برجیاں اور دو عدد بلند وبالا مورچہ بند ٹاور تھے۔ چار دروازوں پر مشتمل اس مضبوط حصار کے گرد 25 فٹ گہری اور 40فٹ چوڑی خندق تھی‘ جس کے ساتھ ساتھ 18فٹ بلند پشتہ تھا۔ قلعے کے اندر ایک عدد بلند وبالا دمدمہ تھا جہاں سے نہ صرف میلوں دور تک نگرانی کا کام لیا جاتا تھا بلکہ غنیم پر گولہ باری بھی کی جاتی تھی۔ اس قلعے میں یہی ایک ایسی آخری نشانی تھی جو اسے قلعوں کی صف میں شامل کراتی تھی۔ پھر تحفظ کے نام پر فنڈ ہضم کرنے والی ایک انتہائی واہیات اور فضول پیشرفت نے یہ آخری نشانی بھی مٹا دی۔ اب اس کی جگہ ایک بدوضع اور بدنما چوکور سا سٹرکچر کھڑا ہے جو اور کچھ بھی ہو سکتا ہے مگر اسے دمدمہ نہیں کہا جا سکتا۔ میں نے پرانا دمدمہ بقائمی ہوش و حواس نہ صرف سینکڑوں بار دیکھا بلکہ اس کے اوپر چڑھ کر شہر کا نظارہ بھی کیا۔
قلعہ کی حفاظتی فصیل کی تفصیلات جاننے کے بعد علم ہوتا ہے کہ آخر شہرہ آفاق زمزمہ توپ کو 1818ء میں ہونے والے ملتان کے محاصرے میں راجہ رنجیت سنگھ نے خصوصی طور لاہور سے ملتان کس مقصد کیلئے بھیجا تھا اور یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ 1848ء میں ہونے والے ملتان کے محاصرے میں انگریزوں کی پیشقدمی کی راہ میں کیا چیز حائل تھی‘ جس نے اس محاسرے کو نو ماہ تک کھینچے رکھا؟ ظاہر ہے یہ چیز اس قلعے کا مضبوط حصار اور بلند وبالا فصیل تھی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قلعہ کی وہ شہرہ آفاق فصیل کہاں گئی؟
انگریزوں نے شہر پر قبضہ کرنے کے بعد قلعے کو آئندہ کسی بغاوت کا متوقع مرکز ومحور بننے کا انسداد کرتے ہوئے اس کی مرمت یا دوبارہ تعمیر کا ارادہ ترک کر دیا۔ رہی سہی کسر 1849ء میں دریائے سندھ اور چناب سے آنے والے سیلاب کے خوفناک ریلے نے پوری کر دی۔ شاندار عسکری تاریخ کا حامل یہ قلعہ سیلاب کے پانی میں مٹی کے بلند ٹیلہ نما جزیرے کی صورت باقی رہ گیا۔ پانی اترنے کے بعد یہ دنیا کا شاید واحد قلعہ تھا جس کے گرد فصیل کا نام و نشان بھی باقی نہ تھا۔ یہ قلعہ گزشتہ پونے دو سو سال سے اسی برباد شدہ حالت میں کھڑا ہے۔
1818ء میں اس فصیل کو توڑنے کیلئے لاہور سے بھنگیوں والی توپ آئی‘ 1848ء میں اس فصیل کو برباد کرنے کیلئے انگریز بہادر کی 15ہزار گوروں پر مشتمل 10 بٹالینز‘ برٹش انڈین آرمی کی 25 بٹالینز آئیں‘ جن میں اکثریت بنگال اور بمبئی رجمنٹ پر مشتمل سپاہ کی تھی‘ مع ایک سو پچاس توپیں‘ جن میں بارہ وزنی توپیں خصوصی گھوڑوں کے ذریعے کھینچ کر لائی گئی تھیں۔ پھر سیلاب نے باقی رہ جانے والا رہا سہا نام ونشان بھی مٹا دیا۔ اس دوران تحفظِ آثارِ قدیمہ کے تحت اَن گنت مقبروں‘ مزاروں‘ مندروں‘ گردواروں‘ قلعوں‘ حویلیوں اور دیگر تاریخی مقامات کی مرمت‘ بحالی اور تزئین نو ہو گئی مگر ملتان کے اس تاریخی اور ثقافتی ورثے کی قسمت نہ بدل سکی۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں