اگر آپ سچ پوچھیں تو بعض اوقات لکھنے کو بالکل بھی دل نہیں کرتا۔ اب اس دل نہ کرنے کی کیا وجہ بتائیں‘ دل تو دل ہی ہے نا! بلاوجہ تو بہرحال اس طرح نہیں کرتا مگر کیفیت ایسی ہوتی ہے کہ اسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ بس یوں سمجھیں کہ جی اُچاٹ سا ہو جاتا ہے اور دل تنگ سا پڑ جاتا ہے۔ ایسے میں اب اُنہی چیزوں پر کیا لکھیں جو اس کیفیت کا باعث ہیں۔ ایسے میں لکھنے کے لیے یہ عاجز اُن موضوعات کو چھیڑ لیتا ہے جن کے لکھنے سے جی تھوڑی دیر کے لیے بہل سا جاتا ہے۔ میں یہ جانتا ہوں کہ یہ صرف دل کو کسی اور طرف لگائے رکھنے کا بہانہ ہے وگرنہ دل تو اسی بیزاری اور ملال کا شکار ہے جس کو دور کرنے کی کوشش میں ادھر اُدھر کی باتوں سے اسے بہلانے کی سعی کر رہے ہیں۔ بہت دنوں کے بعد ملتان واپسی ہوئی تو پہلے سوچا کہ شاہ جی کے پاس جاؤں اور ان سے ملتان کا تازہ حال لوں مگر پھر ارادہ ترک کر دیا کہ بظاہر ایسی کوئی بات دکھائی نہیں دیتی کہ شاہ جی سے کوئی خیر کی خبر ملے۔ پیچھے سے ایک روز منیب الحق کا فون آیا۔ اس کا وہی پرانا رَٹا تھا کہ میرے پاکستان سے جانے کے بعد حالات خراب ہو گئے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ مجھے جلد از جلد واپس آ جانا چاہیے۔ اب واپس آ گیا تو بھی حالات ویسے ہی ہیں تاہم مجھے اس بات کا اطمینان ہے کہ حالات کی اس خرابی میں مجھ فقیر کا کوئی حصہ نہیں اور اپنی اوقات کا بھی بخوبی علم ہے کہ ان کو درست کرنے کے لیے سوائے لکھنے اور آواز بلند کرنے کا فرض کفایہ ادا کرنے کے علاوہ اس عاجز کے پاس اور کوئی طاقت بھی نہیں ہے۔
سو قارئین! شاہ جی سے مغز ماری اور منیب الحق کی باتوں کا جواب کسی اور روز پر چھوڑتے ہیں اور ان دو چار غزلوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں جو ان حالات میں نعمتِ غیرمترقبہ کی صورت اس عالمِ حبس میں تازہ ہوا کے روزن کی مانند اس عاجز کے دل کو شاد کر چکی ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا لق و دق صحرا میں آپ کو چھوٹا سا نخلستان مل جائے۔ وگرنہ صورتحال تو منیر نیازی کے ان اشعار جیسی ہے:
لازم نہیں کہ اس کو بھی میرا خیال ہو
جو میرا حال ہے وہی اس کا بھی حال ہو
کوئی خبر خوشی کی کہیں سے ملے منیرؔ
ان روز و شب میں ایسا بھی اک دن کمال ہو
میں اُن قارئین سے معذرت خواہ ہوں جن کو شاعری سے دلچسپی نہیں‘ تاہم مجھے یقین ہے کہ اس کالم کو پڑھنے والوں میں زیادہ نہ سہی‘ مگر بہرحال کچھ قارئین ضرور ایسے ہوں گے جن کو شاعری سے دلچسپی ہو گی۔ اور ہاں! ممکن ہے یہ کالم ان قارئین کے لیے بھی باعثِ توجہ ٹھہرے جو لگے بندھے اور گھسے پٹے موضوعات سے تنگ آ گئے ہوں۔ میں ابھی اسی کیفیت سے گزر رہا ہوں جس کے زیر اثر گزشتہ کالم لکھا تھا۔ شیخوپورہ کے شاہین عباس کی مزید دو غزلیں اور اور ایک آدھ منتخب شاعری:
اب ایسے چاک پر کوزہ گری ہوتی نہیں تھی
کبھی ہوتی تھی مٹی اور کبھی ہوتی نہیں تھی
بہت تعریف تیرے حُسن کی ہوتی تھی تب بھی
کوئی تعریف ہی جب حُسن کی ہوتی نہیں تھی
گھروں سے ہو کے آتے جاتے تھے ہم اپنے گھر میں
گلی کا پوچھتے کیا ہو‘ گلی ہوتی نہیں تھی
کہو تو گفتگو سنواؤں تم کو ان دنوں کی
ہمارے درمیاں جب گفتگو ہوتی نہیں تھی
اچانک مصرعِ جاں سے برآمد ہونے والے
کہاں ہوتا تھا تُو‘ جب شاعری ہوتی نہیں تھی
گزارے جا رہے ہیں عمروں پر عمریں‘ غضب ہے
ہم ایسے لوگ جن سے شام بھی ہوتی نہیں تھی
ہمیں جا جا کے کہنا پڑتا تھا‘ ہم ہیں‘ یہیں ہیں
کہ جب موجودگی‘ موجودگی ہوتی نہیں تھی
تمہی کو ہم بسر کرتے تھے اور دن ماپتے تھے
ہمارا وقت اچھا تھا‘ گھڑی ہوتی نہیں تھی
٭......٭......٭
سیاہی گرتی رہے اور دیا خراب نہ ہو
یہ طاقِ چشم اب اتنا بھی کیا خراب نہ ہو
ہم اس ہوا سے تو کہتے ہیں کیوں بجھایا چراغ
کہیں چراغ کی اپنی ہوا خراب نہ ہو
ہر آنے والا اسی طرح سے تجھے چاہے
مری بنائی ہوئی یہ فضا خراب نہ ہو
سویرے دیکھ لیا کر تُو اپنی آنکھوں کو
کہ سارے دن کا ترا دیکھنا خراب نہ ہو
ادھر جو آتا ہے اُس کو میں آنے دینا نہیں
کہ تیرا چھوڑا ہوا راستہ خراب نہ ہو
ازل ابد میں ٹھنی ہے سو میں نکلتا ہوں
مری کڑی سے ترا سلسلہ خراب نہ ہو
میں اپنی شرط پہ آیا تھا اس خرابے میں
سو میرے ساتھ کوئی دوسرا خراب نہ ہو
میں بار بار تجھے دیکھتا ہوں اس ڈر سے
کہ پچھلی بار کا دیکھا ہوا خراب نہ ہو
اب ایک غزل نادر عریض کی:
کئی دنوں تک نظر میں رہنے پہ ہاں کرے گی
وہ پہلی کوشش پہ دل کشادہ کہاں کرے گی
خدا کی مرضی بتا رہا تھا بچھڑنے والا
وہ جانتا تھا کہ گیلی لکڑی دھواں کرے گی
مجھے پتا ہے میں اس کی نظروں سے گر گیا ہوں
مری توجہ بھی اب اسے بدگماں کرے گی
بغیر پتوار معجزہ ہو گا پار لگنا
یہ لہر پر ہے کدھر سفینہ رواں کرے گی
کوئی شگوفہ تمہارے ہنسنے کا منتظر ہے
کسی نظارے کو دھوپ آ کر عیاں کرے گی
٭......٭......٭
اور آخر میں اکبر معصومی کی ایک غزل:
اس کے سوا کوئی مجھے آزار نہیں ہے
جو مجھ کو میسر ہے وہ درکار نہیں ہے
آباد ہے یہ عالمِ خاکی میرے دم سے
لیکن مجھے اس بات پہ اصرار نہیں ہے
اب مجھ سے تیرا بار اٹھایا نہیں جاتا
لیکن یہ میرا عجز ہے انکار نہیں ہے
لے تیرے کہے پر میں تجھے چھوڑ رہا ہوں
اور یہ بھی بتا دوں کہ یہ ایثار نہیں ہے
چپ ہوں کہ نہ ہونے ہی میں ہے فائدہ میرا
ورنہ مجھے ہونا کوئی دشوار نہیں ہے
یہ بھی غنیمت ہے کہ اس عالمِ حبس میں شاعری کا روزن وا ہے جس سے آنے والا ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہمارے دلوں کو شاد کرتا ہے۔