چوہدری سرور سے میرا تعلق تقریباً بیالیس سال پرانا ہے‘ تاہم یہ سارا عرصہ دوستی میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں کم از کم شروع کے دو سال تو یقینا دشمنی کے نہ بھی سہی تو مخاصمت کے ضرور تھے۔ ہم دونوں زکریا یونیورسٹی میں تھے۔ چوہدری سرور فارمیسی میں تھا اور میں ایم بی اے کر رہا تھا۔ ہم دونوں طلبہ سیاست میں بہت متحرک تھے اور دو متحارب طلبہ سیاسی پارٹیوں میں تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب طلبہ کے درمیان نظریاتی کشمکش عروج پر تھی۔ چوہدری سرور بھی مزاجاً گرم تھا اور میں بھی خاصا ہتھ چھٹ واقع ہوا تھا۔ ہم دونوں کے تعلقات محض مروت بھری سلام دعا کے علاوہ اور کچھ نہ تھے‘ تاہم الیکشن کا موسم آتے ہی یہ رسمی سی سلام دعا بھی تقریباً ختم ہی ہو گئی۔
مجھے کئی سالہ اخراج کے بعد چند پابندیوں کے تحت یونیورسٹی میں دوبارہ داخل کیا گیا تھا جن میں سب سے اہم پابندی یہ تھی کہ ہر سمسٹر کے بعد گزشتہ سمسٹر کے دوران میرے طرزِ عمل کے بارے میں صدر شعبہ اور سپیشل برانچ وی سی کو رپورٹ دیتے۔ وہ رپورٹ یونیورسٹی سنڈیکیٹ کے اجلاس میں پیش ہوتی تھی اور سنڈیکیٹ مجھے اگلے سمسٹر میں داخلے کی منظوری دیتی تھی۔ اس سارے عمل کو پورا کرتے ہوئے میں اگلے سمسٹر کے فائنل امتحان کے مرحلے کے قریب پہنچ جاتا تھا یا اس سے بھی اگلے سمسٹر میں پہنچ جاتا تھا لیکن نہ تو میرا رزلٹ جاری کیا جاتا تھا اور نہ ہی میری داخلہ فیس وصول کی جاتی تھی۔ میں اگلے سمسٹر میں جا چکا ہوتا تھا مگر ابھی پچھلے سمسٹر میں آفیشل داخلہ نہیں ہوتا تھا۔ ایسے میں ندیم گجر نے بڑا ساتھ دیا۔ وہ ہرگرما گرمی کے دوران کھینچ کھانچ کر مجھے وہاں سے لے جاتا اور خود آکر اس جھگڑے میں کود پڑتا۔ یونیورسٹی میں کسی بھی متوقع ہاتھا پائی کے دوران یار دوست لڑنے سے زیادہ میری نگرانی کرنے پر لگے رہتے تھے۔ انہیں علم تھا کہ اگر اس بار گڑ بڑ ہو گئی تو میری تعلیم کا سلسلہ دوبارہ کبھی شروع نہ ہو سکے گا۔ تب یہ مجبور شخص صرف گھورنے پر ہی اکتفا کرتا تھا۔ اب بندہ کسی کو گھورتا بھی ہو تو تعلقات ہرگز خوشگوارنہیں رہ سکتے۔ چوہدری سرور سے تعلقات بعض اوقات باقاعدہ کشیدہ رہتے تھے۔ جب چوہدری سرور سٹوڈنٹس یونین کا الیکشن لڑ رہا تھا تو اس الیکشن کمپین کے دوران معاملات کئی بار ہاتھ سے نکلتے نکلتے اور میں جامعہ سے دوبارہ نکلتے نکلتے رہ گیا۔
الیکشن میں چوہدری سرور مخالف پارٹی سے جوائنٹ سیکرٹری کا امیدوار تھا۔ اس الیکشن میں ہمارا سارا پینل‘ ماسوا جوائنٹ سیکرٹری کے جیت گیا۔ مخالف طلبہ تنظیم کا واحد جیتنے والا امیدوار چوہدری سرور تھا۔ اس روز میری پراکسی میں ندیم گجر نے ایک دو ناپسندیدہ بندوں کی دل کھول کر دھلائی کی۔ تاہم اس ایک نشست پر ہارنے کا غم اور صدمہ کافی عرصے تک ہمارے دل میں جاگزین رہا۔ اگلا سارا سال تقریباً بدمزگی میں ہی گزر گیا۔ پھر زمانہ طلب علمی رخصت ہوا۔ میں اپنی زندگی میں مصروف ہو گیا اور چوہدری سرور اللہ جانے کہاں چلا گیا۔ وقت کی گرد نے چند سال میں سب کچھ دھندلا کر رکھ دیا اور چوہدری سرور میرے ذہن سے بھی نکل گیا۔
برسوں بعد میں امریکہ آیا تو ایک دوست نے بتایا کہ چوہدری سرور کو تمہارے نیویارک آنے کا علم ہوا ہے اور وہ تمہیں تلاش کر رہا ہے۔ مجھے اُس روز برسوں کے بعد معلوم ہوا کہ چوہدری سرور نیویارک میں ہوتا ہے۔ اگلے روز مشاعرے کے بعد ایک بندے نے مجھے گلے لگایا اور کافی دیر تک بھینچ کر سینے سے اس طرح لگائے رکھا کہ مجھے اس کی شکل دیکھنے کا موقع بھی نہ مل سکا۔ اس نے تھوڑی دیر بعد مجھے چھوڑا تو میں نے دیکھا کہ وہ چوہدری سرور تھا۔ جس محبت اور خلوص سے اس نے مجھے گلے لگایا تھا ان چند لمحوں نے مجھے ایک بالکل نئے چوہدری سرور سے متعارف کروایا۔ یہ سرور چوہدری اس چوہدری سرور سے قطعاً مختلف تھا جس سے میں واقف تھا۔ چوہدری سرور مجھے چھوڑ کر علیحدہ ہوا تو میں نے بڑھ کر اسے دوبارہ گلے لگا لیا۔ بھلا ایسا کیسے ممکن تھا کہ محبت اپنے جواب میں محبت سے محروم رہتی۔ ہم اس نسل سے تعلق رکھنے والے شاید آخری لوگ ہیں جو سیاسی مخالفت اور مخاصمت کو دشمنی بنانے کے قائل نہیں تھے اور مروت نامی اس جذبے سے معمور تھے جو باہمی تعلقات کو نفرت کی بھینٹ نہیں چڑھاتا تھا۔
میں آج بھی اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ اس تجدیدِ تعلقات کا سارا سہرا چوہدری سرور کے سر جاتا ہے۔ اس نے مجھے تلاش کیا‘ ملنے آیا اور جس محبت‘ خلوص اور گرمجوشی سے ملا اس جذبے نے سارا ماضی ایک ہی ہلے میں ایسا بہا دیا کہ یاد ہی نہ رہا کہ کبھی ہم میں کسی قسم کی مخالفت اور مخاصمت بھی تھی۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ میں ایسی پہل کر پاتا جو چوہدری سرور نے کی تھی۔ برسوں بعد ہونے والی یہ ملاقات ایسی تھی کہ جس نے ہم دونوں کے مابین اگلی ملاقاتوں کا ایسا در کھولا کہ اب نیویارک آنا اور چوہدری سرور سے نہ ملنا ممکن ہی نہیں رہا۔ تاہم اب بھی حقیقت یہ ہے کہ میرے آنے کا علم اسے میری طرف سے اطلاع دینے سے قبل ہی ہو جاتا ہے۔ چوہدری سرور اب بھی اپنے نظریاتی تعلق پر قائم ہے تاہم وہ اس مسافر کے نظریاتی خیالات سے پوری طرح واقف ہونے کے باوجود دوستی کی اس منزل پر فائز ہے جہاں محبت ہر نظریاتی خلیج کو پار کرکے آپ سے آن لپٹتی ہے۔ مجھے نہیں پتا کہ اب چوہدری سرور پیپلز پارٹی کے کس عہدے پر فائز ہے کہ میرے اور اس کے مابین یہ چیز کبھی نہ تو حائل ہوئی اور نہ ہی اب اس کی کوئی اہمیت ہے۔ ہاں! البتہ جب میری اس سے عرصہ دراز کے بعد پہلی ملاقات ہوئی تھی تو وہ پیپلزپارٹی نیویارک کا صدر تھا۔ وہ ایک پکا جیالا ہے‘ ایسا جیالا جو پارٹی سے یا پارٹی کی لیڈر شپ سے تنگ بھی آ جائے تو اسے چھوڑتا نہیں۔
ہم جب بھی ملتے ہیں چوہدری سرور مہمان نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیویارک کے دوستوں کو اکٹھا کرکے ایک پُرتکلف کھانے کا اہتمام کرتا ہے۔ چند سال قبل اسی طرح کے ایک ظہرانے میں اُنہی دنوں میں نیویارک آئے ہوئے چوہدری اعتزاز احسن کی بھی اس محفل میں پذیرائی کی۔ اگلی بار اس کے دوستوں کے گلدستے میں ایک خاتون بھی تھیں۔ اس نے اس خاتون کا تعارف کراتے ہوئے صرف اتنا بتایا کہ یہ ڈاکٹر تنویر زمانی ہیں۔ مجھے یہ نام کچھ آشنا سا تو لگا مگر یاد نہ آیا کہ اس نام سے کیا چیز وابستہ ہے۔ ایک اخبار نویس دوست نے میرے چہرے پر تذبذب کے آثار دیکھے تو کان میں بتایا کہ یہ محترمہ آصف علی زرداری کی مبینہ بیگم ہیں۔ میں نے اس سے پوچھا کہ ''مبینہ‘‘ سے کیا مراد ہے؟ تو وہ دوست کہنے لگا کہ مبینہ سے مراد بیان کردہ ہے اور یہ بیان خود خاتون نے دیا ہے۔
چوہدری سرور کی بیٹی کی شادی پر اپنی میز کے عین دوسری طرف سامنے بیٹھی ہوئی خاتون کا چہرہ بھی کچھ شناسا لگا تو میں نے ساتھ بیٹھے ہوئے غضنفر ہاشمی سے کہا کہ یہ خاتون دیکھی دیکھی لگ رہی ہیں مگر جو شکل مجھے یاد ہے وہ اس طرح بے حال نہیں تھی۔ غضنفر ہاشمی کہنے لگا: یہ فرزانہ راجہ ہیں۔ میرے منہ سے بے اختیار نکلا کہ وہی جو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں نیب کو مطلوب ہیں؟ لیکن ان کا کیا حال ہو گیا ہے؟ غضنفر ہاشمی کئی بار میری شر پسند طبیعت کو بھگت چکا ہے اور اسے اندازہ تھا کہ میں اب کوئی بھی الٹا سیدھا سوال کر سکتا ہوں‘ لہٰذا اس نے احتیاطاً پیشگی اپنا منہ دوسری طرف کر لیا اور موبائل فون پر سپر باؤل کا فائنل دیکھنے میں مشغول دوست سے پوچھا کہ کون جیت رہا ہے‘ فلاڈیلفیا ایگلز یا کنساس سٹی چیفس؟ یہ دیکھ کر صاف پتا چل رہا تھا کہ وہ صرف جان چھڑانے کے چکر میں ایک ایسے کھیل کا نتیجہ پوچھ رہا تھا جس کے بارے میں اس کا علم میری طرح نہ ہونے کے برابر ہے۔