"KMK" (space) message & send to 7575

تنوع سدا بہار حسن کا راز ہے

اب اس قلم کا کیا کروں؟ بعض اوقات میری مرضی اور سوچ پر چلنے کے بجائے یہ اپنی کرنے لگتی ہے۔ بات موسم سے شروع ہوئی اور بکرمی کیلنڈر‘ دیسی مہینوں‘ دن کے آٹھ پہروں اور شمالی علاقہ جات سے ہوتی ہوئی کہاں کی کہاں چلی گئی اور موسم کہیں درمیان میں ہی رہ گئے۔ ادھر موسم کی نیرنگی کا یہ عالم ہے کہ کل صبح جب پیریز برگ (اوہائیو) سے گھر سے نکلا تو درجہ حرارت منفی اٹھارہ ڈگری سینٹی گریڈ تھا اور چار گھنٹے بعد جب میامی (فلوریڈا) کے ایئرپورٹ پر اترا تو درجہ حرارت ستائیس ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ یعنی شمال سے جنوب کے چار گھنٹے کے سفر میں موسم کا پارہ پینتالیس درجے اوپر نیچے ہو گیا۔
میری نشست کھڑکی والی تھی۔ میرے اندر کا بچہ کھڑکی والی سیٹ پر بڑا خوش باش رہتا ہے۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد نیچے دیکھنا مجھے بھلا بھی لگتا ہے اور مزہ بھی دیتا ہے۔ جب جہاز ڈیٹرائٹ ایئرپورٹ سے اڑا تو ساتھ ہی نیچے بائیں جانب اری جھیل تھی۔ امریکہ اور کینیڈا کے درمیان یہ جھیل دونوں ملکوں کے درمیان ایک لکیر کے ذریعے تقسیم کی گئی ہے جو صرف نقشے میں دکھائی دیتی ہے۔ جھیل کے کنارے جم چکے تھے اور پانی کی منجمد لہریں سنگ مرمر کی صورت عجب نظارہ پیش کر رہی تھیں۔ دور دور تک گہرے نسواری ٹنڈ منڈ درختوں اور ہر طرف بچھی ہوئی سفید برف کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ سیاہی مائل درخت اور سفید برف سے بنا ہوا یہ سارا منظر کسی بلیک اینڈ وائٹ تصویر کی مانند دکھائی دے رہا۔ اس وسیع و عریض منظرنامے میں اگر کوئی گھر دکھائی پڑتا تو اس کی چھت بھی سفید برف نے ڈھانپ رکھی تھی۔ سفید اور سیاہی مائل نسواری رنگ کے علاوہ تیسرا رنگ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد جہاز دریائے میامی کے اوپر سے گزرا تو یوں لگا کہ جیسے کوئی سفید لامتناہی طویل الجثہ اژدھا لہریے کھاتا ہوا جا رہا ہے۔ گرمیوں میں یہ دریا گدلے رنگ کا ہوتا ہے لیکن جم کر ایسا سفید ہو چکا تھا کہ گمان ہی نہیں ہوتا تھا کہ جب رواں تھا تو اس کا رنگ گدلا تھا۔ چند ماہ پہلے آیا تو یہی گدلا دریا پورے جوبن پر تھا اور ٹھاٹھیں مار کر رواں تھا۔ اب برف کی صورت ایسے دم سادھ کر پڑا ہوا تھا کہ گمان بھی نہیں ہوتا تھا کہ کبھی فراٹے مارتا ہوگا۔ اوہائیو سے فلوریڈا جاتے ہوئے ہر تھوڑی دیر بعد زمینی منظرنامہ اپے رنگ بدل رہا تھا۔ برف اور سیاہی والی بلیک اینڈ وائٹ تصویر آہستہ آہستہ رنگین کینوس میں تبدیل ہونا شروع ہو گئی۔ برف کا قالین سمٹ کر پہلے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹا اور پھر آہستہ آہستہ سرے سے ہی غائب ہو گیا۔
ہر موسم کا اپنا منظرنامہ ہے۔ بہار میں یہ سارا علاقہ سرسبز دکھائی دیتا ہے۔ درختوں کی ایسی بھرمار اور کثرت ہے کہ حیرانی ہوتی ہے۔ زیادہ تر درخت تو قدرتی ہیں لیکن بہت سے درخت باقاعدہ شجرکاری کر کے لگائے گئے ہیں۔ ہمارے ہاں عشروں سے جاری سرکاری چھتری تلے منائے جانے والے ہفتہ ہائے شجر کاری کے نتائج ہم سب کے سامنے ہیں۔ اوپر سے ناجائز کٹائی اور سرکاری ذخیروں سے درختوں کی چوری نے رہی سہی کسر نکال کر رکھ دی ہے‘ نتیجتاً درختوں اور شجرکاری کی بدترین صورتحال ہمارے سامنے ہے۔ امریکہ اور یورپ وغیرہ میں سردیوں کے دوران آتشدانوں میں لکڑی جلانے کا فیشن بھی ہے اور رواج بھی۔ لیکن درختوں کی چوری یا ناجائز کٹائی تو رہی ایک طرف‘ لوگ لاوارث لکڑی اٹھانے کی جرأت بھی نہیں کرتے۔ درجنوں نہیں‘ سینکڑوں درخت تو اس حالت میں دیکھے کہ دیگر درختوں کے درمیان کسی بھی وجہ سے گرے پڑے ہیں اور ان کی حالت بتا رہی ہے کہ کافی عرصے سے گرے ہوئے ہیں لیکن کسی کی مجال نہیں کہ انہیں اٹھا کر لے جائے اور اپنے آتشدان کی نذر کر دے۔ بڑے سپر سٹورز سے لے کر پٹرول سٹیشن‘ جسے یہاں گیس سٹیشن کہتے ہیں‘ کے چھوٹے سٹورز کے باہر لگ بھگ ڈیڑھ دو فٹ لمبائی کے صفائی سے کٹے ہوئے لکڑی کے ٹکڑے‘ چھوٹے بڑے مختلف سائز کے گٹھوں کی صورت میں پلاسٹک میں پیک پڑے ہوتے ہیں۔ سردیوں میں یہ لکڑی دھڑا دھڑ بک رہی ہوتی ہے۔
سردیوں میں درختوں میں ایک عجیب سا اداس کر دینے والا حسن پیدا ہو جاتا ہے۔ بے برگ وبار شاخیں‘ بے رنگ تنے اور اسی طرح کا سارا پس منظر ایسا ماحول بنا دیتا ہے جو دل کو اداس کر دیتا ہے۔ سردی سے پہلے خزاں یعنی ''فال‘‘ ایسا وقت ہے جب سرسبز اور پھولوں پھلوں سے لدے ہوئے درخت بے ثمر اور بے برگ وبار ہونے کی طرف رواں ہوتے ہیں۔ جیسے درختوں کا سردیوں میں ٹنڈمنڈ ہو جانا اپنے اندر ایک اور طرح کا حسن رکھتا ہے‘ اسی طرح خزاں کے موسم میں جھڑنے اور گرنے سے قبل پتوں کا سوکھنا اور اس عمل کے دوران درجہ بہ درجہ رنگ بدلنا ایسا مرحلہ ہوتا ہے جب خزاں اپنے پورے جوبن پر ہوتی ہے اور ''فال‘‘ اپنا پورا حسن آپ پر کھول کر رکھ دیتی ہے۔ مجھے خزاں کے دوران زمین پر بکھرے رنگوں کے قالین کو اوپر فضا سے دیکھنے کا بارہا اتفاق ہوا ہے۔ ہر خطے اور ہر علاقے کی خزاں کا اپنا حسن اور اپنا تنوع ہے۔ ایک علاقے کی خزاں دوسرے علاقے سے مختلف ہوتی ہے۔ کہیں درخت گہرے سبز رنگ سے پیلاہٹ کی طرف رواں ہوتے ہیں۔ کہیں پر درخت مکمل پیلے ہو چکے ہوتے ہیں۔ کہیں ایسے درخت ہیں جو سبز سے پیلے ہونے کے بجائے سرخ اور کہیں نارنجی رنگ اختیار کر لیتے ہیں۔ کہیں پر پتے سوکھنے کے دوران نسواری رنگ میں بدل جاتے ہیں۔ غرض نیچے نظر دوڑائیں تو رنگوں کی بہار ایسی دکھائی دیتی ہے کہ قدرت کی صناعی پر عقل حیران رہ جاتی ہے۔ پہاڑی علاقے میں درختوں کا رنگ مختلف ہوتا ہے اور میدانی علاقوں میں اس فرشی رنگ کا قالین بالکل مختلف دکھائی دیتا ہے۔ سب سے خوبصورت منظر وہاں ہوتا ہے جہاں پہاڑ اور میدان باہم گلے ملتے ہیں۔ کہیں گہرے سبز رنگ کا قطعہ دکھائی دیتا ہے اور کہیں کھلے سبز رنگ کی بہار آنکھوں کو تراوت بخشتی ہے۔ کہیں سبز رنگ پیلاہٹ میں بدل رہا ہوتا ہے اور کہیں پیلا رنگ زمین پر بکھرے ہوئے سونے جیسا دکھائی دیتا ہے۔ کہیں سرخ‘ کہیں نسواری اور کہیں نارنجی رنگ اپنی چھب دکھاتا ہے۔ ہر موسم کا اپنا اپنا حسن ہے اور ہر علاقے کی اپنی اپنی خوبصورتی ہے۔ بہار تو بہار ہے‘ اب بھلا اس کی تعریف الفاظ میں کس طرح کی جا سکتی ہے؟
موسموں کا بدلنا بذات خود ایک ایسا حسن ہے جو صرف تبدیلی کا مرہون منت ہے اور تبدیلی وہ تنوع ہے جو انسان کو سدا سے درکار ہے۔ گرمیاں لمبی ہو جائیں تو ہم تنگ پڑ جاتے ہیں۔ سردیوں کا موسم آنے میں تاخیر ہو جائے تو طبیعت بے چین ہو جاتی ہے۔ برسات روٹھ جائے تو دل اداس ہو جاتا ہے۔ خزاں نہ آئے تو نئے برگ وبار کا سارا نظام تلپٹ ہو جاتا ہے۔ انسان کی فطرت میں کچھ نیا دیکھنے کی جستجو اور کچھ نیا کرنے کا جذبہ شاید مقصودِ مشیت بھی تھا۔ بہار میں سرسبز درخت اور خزاں میں ان کے پتوں کا سوکھنے کے دوران مختلف رنگ بدلنے سے لے کر سردیوں میں مکمل ٹنڈمنڈ حالت تک پہنچنے کا عمل مسلسل خوبصورتی کا ایسا قسط وار منظرنامہ ہے جو صرف دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس منظر کو بیان کرنا کسی قلمکار اور قلم کے بس سے باہر کی شے ہے۔ موسموں کی تبدیلی کے باعث ویسے تو دنیا میں ان گنت چیزیں بدلتی ہیں مگر ہم صرف درختوں کی شکل وصورت میں پیدا ہونے والی تبدیلی پر غور کریں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ مالک کائنات کی اس رنگین دنیا میں دراصل تنوع ہی ہے جس نے خوبصورتی کو اس کے بام عروج پر پہنچایا ہے‘ وگرنہ یکسانیت تو ہمیں مار کر رکھ دیتی۔ تنوع بذات خود ایک ایسی خوبصورتی ہے جو لمحہ بہ لمحہ ہمیں عالمِ حیرت سے روشناس کراتی ہے۔ حسن یکسانیت میں نہیں‘ خواہ وہ کتنی ہی بڑھ کر کیوں نہ ہو۔ قدرت کے نظام کی نیرنگی میں تبدیلی‘ تنوع اور توازن ہی وہ حسن ہے جو سدا بہار ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں