ادھر امریکہ میں موسم کی بوقلمونی کا مت ہی پوچھیں‘ بندہ حیران بھی ہے اور پریشان بھی۔ موسموں کی بات ہوئی تو یاد آیا کہ پاکستان دنیا کے اُن گنتی کے ممالک میں شامل ہے جس میں ہر قسم کا موسم پایا جاتا ہے۔ ہم عمومی طور پر چار موسموں سے آشنا ہیں۔ سردی‘ گرمی‘ خزاں اور بہار۔ درمیان میں برسات کو بھی موسم شمار کر لیں تو کھینچ تان کر پانچ موسم بن جاتے ہیں۔ اگر دیسی مہینوں کو موسموں میں بدل کر دیکھیں تو پرانے وقتوں میں سال کو بارہ مہینوں میں تقسیم کرتے ہوئے سال کے دوران دم بدم بدلتے ہوئے موسم کو مہینوں سے وابستہ کر کے ان کو بارہ حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ لاعلمی کا عالم یہ ہے کہ اگر اب کوئی کہہ دے کہ اس ملک میں بارہ موسم پائے جاتے ہیں تو لوگ اس کی کم علمی کا مذاق اڑاتے ہیں اور بارہ موسموں کی بات کو ٹھٹھے میں اڑا دیتے ہیں لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔
قریب سو سال قبل مسیح برصغیر کے بادشاہ راجہ بکرم جیت کے زمانے میں بنایا جانے والا کیلنڈر دنیا کے قدیم ترین کیلنڈروں میں سے ہے۔ میں بچپن میں جب بزرگوں کے پاس بیٹھتا تھا تو وہ دیسی مہینے کے حساب سے موسم کا حساب لگایا کرتے تھے۔ یہ کیلنڈر جسے دیسی یا پنجابی کیلنڈر بھی کہا جاتا ہے‘ دراصل بکرمی کیلنڈر ہے جو اس کیلنڈر کے بانی راجہ بکرم جیت کے نام سے معنون ہے۔ بکرمی کیلنڈر میں سال 365 دنوں پر مشتمل ہے۔ اس میں 9 مہینے 30 دنوں کے‘ ایک مہینہ بیساکھ یا وساکھ 31 دنوں کا اور دو مہینے جیٹھ اور ہاڑ 32 دنوں کے ہیں۔ بکرمی کیلنڈر کے حساب سے سال کا آغاز بیساکھ کے مہینے سے ہوتا ہے۔ مختلف علاقوں کی زبانوں میں ان دیسی مہینوں کے نام مختلف تلفظ سے ادا کیے جاتے ہیں‘ مثال کے طور پر صرف بیساکھ کو ہی لے لیں تو اسے وساکھ‘ ویساکھ‘ وساخ اور وسوک وغیرہ کے نام سے پکاراجاتا ہے۔ اگر ہم عیسوی سال کے پہلے مہینے جنوری کو معیار بنائیں تو اس لحاظ سے بکرمی سال کا دسواں مہینہ ماگھ جنوری کی تیرہ تاریخ سے شروع ہوتا ہے۔ ماگھ کا مہینہ سخت سردی اور دھند سے پہچانا جاتا ہے۔ اس کے بعد پھاگن کا مہینہ ہے جو سردی کی شدت میں کمی‘ سرد خشک ہوائوں اور بہار کی آمد سے جڑا ہوا ہے۔ اگلا مہینہ چیت ہے جو بہار کے موسم کا اعلان کرتا ہے۔ اس کے بعد بکرمی کیلنڈر کا پہلا مہینہ بیساکھ آ جاتا ہے جو عیسوی کیلنڈر کے حساب سے 13 اپریل کو شروع ہوتا ہے۔ پنجاب کا تہوار بیساکھی مذہبی نہیں‘ موسمی تہوار تھا اور گندم کی فصل کو ہاتھ لگنے سے یعنی کٹائی شروع ہونے سے منسوب تھا۔ گندم اس خطے کے لوگوں کی ہزاروں سالوں سے بنیادی خوراک ہے۔ شاید اسی لیے اس علاقے کے کیلنڈر کو بھی گندم کی فصل کی کٹائی کے آغاز سے جوڑ دیا گیا۔ واللہ اعلم! تاہم یہ صرف میرا گمان ہے ممکن ہے خام ہی ہو۔ بیساکھ کا مہینہ گرم سرد اور ملے جلے موسم کا نقیب ہے۔ اگلا مہینہ جیٹھ ہے‘ جیٹھ کے نام سے ایک پرانا پنجابی گانا یاد آ گیا:
پنجابن ٹھیٹھ ماہیا‘ مہینہ جیٹھ ماہیا؍ پانی آ گیاں پُلاں دے ہیٹھ ماہیا
جیٹھ کا مہینہ گرمی اور لُو چلنے کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ اگلا مہینہ ہاڑ ہے‘ اسے اساڑھ اور ہاڑھ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ گرم مرطوب مہینہ ہے۔ اس کے بعد ساون کا مہینہ آتا ہے۔ حبس اور گرمی کے موسم کے بعد مکمل مون سون والا یہ مہینہ برسات کے حوالے سے مشہور ہے۔ شاعری‘ ادب اور گانوں میں ساون کے مہینے کو بارش سے جوڑ کر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ ایک انڈین گانا بڑا مشہور تھا ''ساون کا مہینہ پون کرے شور‘‘ یعنی ساون کے مہینے میں ہوا بہت شور کر رہی ہے۔ ساون کی بعد بھادوں (بدرو‘ بدرا) کا مہینہ آتا ہے۔ یہ مہینہ معتدل موسم اور ہلکی مون سون کی نشانی ہے۔ پھر اسوج کا مہینہ جسے اسوں یا اسو بھی کہا جاتا ہے‘ اس میں موسم مکمل معتدل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد کاتک (کتی‘ کتے) سردی کی آمد کا اعلان ہے۔ اس میں راتیں سرد ہونی شروع ہو جاتی ہیں۔ پھر مگھر آ جاتا ہے جو سرد موسم کا علمبردار ہے۔ اگلا مہینہ پوہ کا ہے جو سخت سردی کا مہینہ ہے۔ اس طرح بکرمی کیلنڈر کے بارہ ماہ اس خطے کے موسموں کے حوالے سے طے شدہ نشانیوں کے حامل ہیں اور میں نے بزرگوں کو ان مہینوں کے حساب سے موسم کا مکمل حساب رکھتے ہوئے دیکھا ہے۔ تب لوگ ان بارہ مہینوں کو بارہ موسموں کی نظر سے دیکھتے تھے اور انگلیوں پر گن کر آئندہ موسم کی تبدیلی کے بارے میں پیشگوئی کر دیتے تھے۔ تب ہر چیز کی طرح موسم بھی صدیوں پرانی ڈگر پر چلتے تھے۔ ان کا بیڑہ غرق ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے کیا ہے۔ کلائمیٹ چینج وغیرہ جیسی خرافات آسمانی نہیں بلکہ ہماری حرکتوں کا نتیجہ ہیں جنہیں ہم بھگت رہے ہیں۔
اس پرانے دیسی کیلنڈر میں موسم کی بارہ حصوں میں تقسیم کے علاوہ دن بھی آٹھ پہروں میں تقسیم ہوتا تھا۔ یہ جو آٹھ پہرے روزے کا تذکرہ ہوتا ہے تو یہ بھی پورے چوبیس گھنٹوں پر مشتمل انہی پہروں کی وجہ سے ''آٹھ پہرہ‘‘ کہلاتا ہے۔ اس میں ہر پہر تین گھنٹوں پر مشتمل ہوتا ہے اور یہ صبح دھمی کے ویلے سے شروع ہوتے ہیں۔ ویلا دراصل پہر کا پنجابی یا علاقائی ترجمہ ہے۔ دھمی دا ویلا (صبح 6 بجے سے 9 بجے تک)‘ دو پہراں دا ویلا (9 بجے سے 12 بجے دن تک)‘ پیشی دا ویلا (پنجابی میں ظہر کی نماز کو پیشی کی نماز بھی کہتے ہیں۔ دوپہر 12بجے سے سہ پہر 3 بجے تک)‘ دیگر دا ویلا (عصر کی نماز کو دیگر کی نماز کہتے ہیں۔ سہ پہر 3 بجے سے 6 بجے شام تک )اس کے بعد نماشاں دا ویلا (شام 6 بجے سے رات 9 بجے تک)‘ کفتاں دا ویلا (رات 9بجے سے 12بجے تک)‘ اَدھ رات دا ویلا (رات 12سے سحر 3بجے تک) اور آخری اسور (سرگی) دا ویلا (سحر 3 بجے سے صبح 6 بجے تک)۔
قارئین! آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آج اس پرانی روح کے حامل منتشر الذہن کالم نگار کے دل میں کیا سمائی ہے کہ وہ ہمیں بکرمی کیلنڈر اور دن کے پہروں کی تقسیم میں خوار کر رہا ہے‘ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ادھر امریکہ میں موسم کی نیرنگی دیکھ کر اپنے موسم یاد آئے۔ موسم یاد آئے تو ان موسموں سے جڑے ہوئے دیسی مہینوں پر مشتمل بکرمی کیلنڈر یاد آ گیا اور سال سے چلنے والی بات مہینوں سے ہوتی ہوئی دنوں تک پہنچی تو دن کے آٹھ پہر یاد آ گئے۔ اب اس یاد کا کیا کریں‘ کبھی بھی‘ کسی وقت بھی اور کسی چیز کی بھی آ سکتی ہے۔ بھلا یاد پر بھی کبھی پہرے بٹھائے جا سکتے ہیں؟
پاکستان میں تقریباً ہر وہ موسم پایا جاتا ہے جس کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ تاہم ان موسموں سے لطف اندوز ہونے کیلئے آپ کو سال کے مختلف مہینوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے یا ایک دو موسموں سے ایک وقت میں لطف اندوز ہونے کیلئے ملک کے ایک علاقے سے دوسرے میں جانا پڑتا ہے ‘تاہم ایک ہی وقت میں مختلف موسموں کی وہ شدت مفقود ہے جو امریکہ میں ہے‘ لیکن اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ شمالاً جنوباً ساڑھے چھبیس سو کلومیٹر پر پھیلے ہوئے امریکہ کے مقابلے میں پاکستان کا رقبہ امریکہ کا محض 11فیصد ہے اور شمالاً جنوباً عرض بلد کا فرق بھی چند سو کلومیٹر سے زیادہ نہیں۔ میں شمالاً جنوباً جغرافیائی فرق کا ذکر اس لیے کر رہا ہوں کہ موسم میں تبدیلی شمالاً جنوباً فاصلے سے پڑتی ہے نہ کہ شرقاً غرباً فاصلے سے۔ اس لحاظ سے دنیا میں پاکستان کے رقبے کے حامل بلکہ دگنے رقبے والے کسی بھی ملک میں موسم کی اتنی رنگا رنگی اور تنوع نہیں پایا جاتا جتنا کہ پاکستان میں ہے اور دنیا میں کوئی دوسرا ملک ایسا نہیں جس میں بیک وقت دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی اور سولہواں بڑا ریگستان بھی ہو۔
موسم گرما میں پاکستان کے شمالی علاقہ جات جس قدر خوشگوار موسم اپنی جھولی وا کیے آپ کا منتظر ہوتا ہے اس کا تصور بھی محال ہے‘ تاہم مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہم نے نہ صرف یہ کہ اپنا انفراسٹرکچر بہتر نہیں کیا بلکہ جہاں جہاں سیاحتی سرگرمیاں تیز کی ہیں‘ وہاں کا ماحولیاتی نظام بُری طرح پامال وبرباد کر دیا ہے اور اچھے بھلے قدرتی حسن کو بے ہنگم تعمیرات سے بدصورتی میں بدل دیا ہے۔