یہ اس رحیم و کریم مالک کا خاص کرم ہے کہ اس نے اس عاجز کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہونے کی اور معمولی چیزوں پر شاداں ہونے کی توفیق بخش رکھی ہے۔ یہ اس کا بے پایاں کرم ہے کہ ان برُے حالات میں بھی وہ اپنے اس بندے کو خوش رہنے کے مواقع دیتا رہتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ حالات ایسے ہرگز نہیں کہ بندہ خوش ہونے کے بارے خیال ہی دل میں لائے مگر انسان بڑا سخت جان ہے اور مالکِ کائنات نے اس کی جبلت میں حالات کے مطابق خود کو تبدیل کر لینے کا وصف ڈال رکھا ہے۔ ایسے میں ظفر اقبال کا شعر یاد آیا ہے:
مجھ پر ظفرؔ خدا کی زمیں تنگ ہی سہی
خوش ہوں کہ میرے سر پہ کھلا آسماں تو ہے
سو‘ اس فقیر کے سر پر اس کے رحمتوں بھرے آسمان نے سایہ کر رکھا ہے اور اس کی کرم فرمائی کے طفیل اس حبس بھرے موسم میں کہیں نہ کہیں سے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا میسر آ جاتا ہے‘ جو کئی دن کے لیے باعثِ مسرت بن جاتا ہے۔
محاورہ ہے کہ اللہ شکر خورے کو شکر اور موذی کو ٹکر دیتا ہے۔ لندن میں استاذِ گرامی اصغر ندیم سید کا فون آیا کہ تم کہاں ہو؟ عرض کیا کہ فی الحال تو لندن میں ہوں۔ پوچھا: کب واپسی ہے؟ میں نے کہا: دو چار دن بعد پاکستان آکر قدم بوسی کیلئے حاضر ہو جاؤں گا۔ کہنے لگے: جلدی آ جاؤ اور فیصل آباد لٹریری فیسٹیول میں اپنی حاضری لگواؤ۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ فیصل آباد لٹریری فیسٹیول تو گزشتہ ماہ کے آخر میں تھا اور میں نے اس سفر کے سبب اس میں حاضر ہونے سے باقاعدہ معافی اور رخصت لی ہوئی تھی۔ کہنے لگے: 24نومبر کے احتجاج اور اس کے خوف سے موٹر ویز اور راستوں کی بندش کی وجہ سے اسے مؤخر کر دیا گیا تھا‘ اب تم نے اس میں لازماً شرکت کرنی ہے۔ اندھا کیا چاہے‘ دو آنکھیں! پاکستان آتے ہی دو دن کتابوں‘ دانشوروں‘ ادیبوں اور شاعروں کی صحبت‘ گفتگو اور مکالمے میں گزر جائیں تو بھلا اس سے شاندار بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ پاکستان واپس آتے ہی فیصل آباد کا قصد کر لیا۔
2017ء میں شروع ہونے والا یہ لٹریری فیسٹیول اب فیصل آباد کے لوگوں کی ادب پروری اور علم دوستی کی پہچان بن چکا ہے۔ یہ اس سلسلے کا آٹھواں فیسٹیول تھا۔ گزشتہ سال میں دعوت کے باوجود اس میں شرکت نہ کر سکا کہ میں بدقسمتی سے پاکستان میں نہیں تھا۔ تاہم اس سے پہلے میں دو‘ تین بار اس فیسٹیول کی رونقوں سے لطف اندوز اور مختلف سیشنز کے دوران ہونے والی علمی گفتگو سے مستفید ہو چکا ہوں۔ ڈاکٹر ناصر عباس جیسے نقاد اور ادیب کی گفتگو سننا اور حمید شاہد جیسے شاندار لکھاری‘ دانشور اور نقاد کی صحبت میں بیٹھنا اور کشور ناہید کی نظمیں سننا بھلا کسی عیاشی سے کم ہے؟ سو اس موج میلے کے طفیل اس فقیر کے دو دن ایسے گزرے ہیں کہ لطف جیسا لفظ بھی بے معنی ہو گیا۔
ایک سیشن سعادت حسن منٹو کی تینوں بیٹیوں نگہت منٹو‘ نزہت منٹو اور نصرت منٹو کے ساتھ تھا۔ اس سیشن کا عنوان تھا ''دنیا تیرا حسن یہی بدصورتی ہے‘‘۔ منٹو کے حوالے سے اصغر ندیم نے نہایت پُرمغز اور منٹو کی تحریروں کے حوالے سے اس کی یادوں کو تازہ کرنے والی گفتگو کی۔ منٹو کی بیٹیوں نے بھی اپنے والد کے حوالے سے کچھ باتیں بتائیں۔ 42سال کی عمر میں سعادت حسن منٹو جب دنیا سے رخصت ہوا تو بیٹیوں کی عمریں بالترتیب نو سال‘ سات سات اور پانچ سال تھیں۔ بھلا اس عمر میں باپ کی جدائی کے بعد باپ کی کمی کی علاوہ اور کیا یاد رہ سکتی ہے؟ اردو کا یہ زندہ جاوید افسانہ نگار صرف 42سال کی عمر میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گیا۔ آج منٹو کو رخصت ہوئے 64سال ہو چکے ہیں مگر منٹو نہ صرف اپنی تحریروں کے حوالے سے زندہ ہے بلکہ جب تک اردو زبان اس روئے ارض پر بولی اور پڑھی جائے گی‘ منٹو زندہ رہے گا۔
منٹو سے شناسائی اس عمر میں ہو گئی تھی جس عمر میں ماں باپ اپنے بچوں کو منٹو سے حتی الامکان بچانے اور اس کی تحریوں سے دور رکھنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ ابا جی ایمرسن کالج میں لائبریرین تھے اور اس سہولت کے طفیل ہمارے گھر میں کتاب بھی گھر کے فرد کی صورت اختیار کر چکی تھی۔ کالج میں داخل ہوتے ہی منٹو‘ کرشن چندر‘ بلونت سنگھ اور راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں کی چاٹ لگ گئی۔ ابا جی نہایت مہربان اور شفیق ہونے کے ساتھ مذہبی اور اخلاقی حوالے سے اُتنے ہی سخت گیر اور بے لچک تھے جتنے اُس زمانے کے ''ابا جی‘‘ عموماً ہوا کرتے تھے۔ وہ میرے کمرے میں آتے‘ مجھ سے مختلف کتابوں کے حوالے سے گفتگو کرتے‘ بیدی اور کرشن چندر کا موازنہ کرتے‘ منٹو کی تحریروں کو زیر بحث لاتے مگر مجال ہے کبھی انہوں نے منٹو کی تحریریں پڑھنے سے روکا ہو یا ناگواری کا اظہارکیا ہو۔ وہ کہتے تھے 'ہر تحریر اپنا انجام خود منتخب کرتی ہے اور پڑھنے والا اس منزل پر خود پہنچے تو اس کا فیصلہ درست بھی ہوگا اور دیر پا بھی‘۔ سو یہ طالب علم پڑھنے کے حوالے سے دوسروں کے بتائے ہوئے راستوں پر چلنے کے بجائے اپنے راستے خود متعین و منتخب کرتا رہا۔
کیا عجب بات ہے کہ منٹو نے اپنا تخلیقی خزانہ 42سال کی عمر میں مکمل کر لیا۔ وارث شاہ نے اپنی لازوال تخلیق 'ہیر وارث شاہ‘ 44سال کی عمر میں مکمل کر لی۔ سراج اورنگ آبادی نے اپنی شہرہ آفاق غزل‘ جسے اردو کی دس عظیم ترین غزلوں میں شمار کیا جاتا ہے 'خبرِ تحیر عشق سن‘ نہ جنوں رہا نہ پری رہی‘ 26سال کی عمر میں کہی۔ انگریزی کا مشہور شاعر اور رومانوی تحریک کا اہم رکن لارڈ بائرن 36سال کی عمر میں اپنا کام مکمل کرکے دنیائے فانی سے کوچ کر گیا۔ دنیا کی سو بہترین کہانیوں میں‘ جن میں قدیم اور عالمی سطح پر پذیرائی پانے والی تحریریں شامل ہیں‘ اردو کی صرف ایک کہانی شامل ہے اور وہ منٹو کا افسانہ ٹوبہ ٹیک سنگھ ہے۔
فیصل آباد لٹریری فیسٹیول کا مشاعرہ بڑا شاندار اور جاندار تھا‘ یہ بات بے محل ہے کہ مشاعرہ کس نے لوٹا لیکن اس مشاعرے میں سنائی جانے والی شاعری ایسی تھی جس نے اس شعر دوست کے دل کو نہ صرف شاد کیا بلکہ اگلے کئی روز تک جھومتے رہنے کا بندوبست بھی کیا۔ فی الحال شیخوپورہ کے شاہین عباس کی ایک غزل:
موجۂ خونِ پریشان کہاں جاتا ہے
مجھ سے آگے میرا طوفان کہاں جاتا ہے
تیری خوشبو کو لٹاتے ہوئے آتے جاتے
باقی بچتا ہے جو انسان کہاں جاتا ہے
آج میں پہلی دفعہ ساتھ نہیں‘ پیچھے ہوں
دیکھتا ہوں میرا سامان کہاں جاتا ہے
کچھ بتا تو سہی اے دھیان سے جاتے ہوئے شخص
تو چلا جائے تو پھر دھیان کہاں جاتا ہے
داستاں گو کی نشانی کوئی رکھی ہے کہ وہ
داستاں گوئی کے دوران کہاں جاتا ہے
چائے کی پیالی میں تصویر وہی ہے کہ جو تھی
یوں چلے جانے سے مہمان کہاں جاتا ہے
قارئین! کالم کا دامن تنگ ہے اور شاعری کا سمندر تاحد نظر پھیلا ہوا ہے۔ آج کا دن اسی ایک غزل پر اکتفا کیجیے۔ اچھا تو ایک شعر بھی کافی ہوتا ہے‘ یہ تو پوری غزل ہے۔