اُڑان پاکستان اور ورلڈ بینک کی رپورٹ

وزیراعظم میاں شہباز شریف نے پہلے ایک نہایت خوشنما پانچ سالہ اقتصادی منصوبہ پیش کیا اور اگلے روز یہ نوید سنائی کہ مہنگائی سات سال کی کم ترین سطح پر آ گئی ہے۔ حکومت نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ مہنگائی کی شرح دسمبر 2024ء میں4.1فیصد پر آ چکی ہے جبکہ ورلڈ بینک کی تازہ ترین رپورٹ اور پاکستانی صارفین کی دُہائی ہماری معیشت کی ایک اور متضاد تصویر دکھا رہی ہے۔
مئی 2023ء میں مہنگائی کی شرح 38فیصد پر جا پہنچی تھی مگر دسمبر 2024ء کے اعداد و شمار کے مطابق مہنگائی 4.1فیصد پر آ چکی ہے۔ خدا جانے الہ دین کے کس چراغ کی مہربانی سے وزیراعظم کے مشیروں نے شرح مہنگائی میں اتنی بڑی کمی دکھائی ہے حالانکہ پاکستانی صارفین بدستور شب و روز مہنگائی کا رونا رو رہے ہیں۔ گیس‘ پٹرول‘ ڈیزل‘ خوراک اور اشیائے صرف کی قیمتیں بدستور بڑھ رہی ہیں۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2024ء کے دوران مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافے کی بنا پر عام آدمی کی قوتِ خرید میں بہت کمی واقع ہوئی ہے۔ ورلڈ بینک نے کہا ہے کہ سال 2024ء میں پاکستان میں غربت کی شرح 2023ء کے مقابلے سات فیصد بڑھی ہے۔ اس ایک سال کے دوران ایک کروڑ 30لاکھ مزید پاکستانی خط غربت سے نیچے آ گئے ہیں۔ آئے روز تلاشِ روزگار میں غیرقانونی طور پر بیرونِ ملک جانے والے سینکڑوں پاکستانی نوجوان اپنے سنہری خوابوں سمیت دور دیسوں کے سمندروں میں ڈوب رہے ہیں۔ یہ ہولناک خبریں دلوں کو تڑپا رہی ہیں اور ہمیں یہ باور کرا رہی ہیں کہ ملک میں ہر معیار کے روزگار کے مواقع بہت کم ہو چکے ہیں۔
رواں ہفتے وزیراعظم پاکستان نے ''اُڑان پاکستان‘‘ کے نام سے ایک پُرکشش منصوبے کی نقاب کشائی کی ہے۔ اس موقع پر میاں شہباز شریف نے قوم کو یہ خوشخبری سنائی ہے کہ اس منصوبے پر عمل پیرا ہو کر ترقی کی شرح میں بہت اضافہ ہو گا اور ملک میں خوشحالی کا دور دورہ ہو گا۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ معاشی و معاشرتی منصوبے میں برآمدات میں اضافے‘ آئی ٹی ٹیکنالوجی کے وسیع تر استعمال‘ ماحولیات و موسمیات کے شعبوں کی ترقی‘ انرجی اور عدلِ اجتماعی کے اہداف مقرر کیے گئے ہیں۔
''عدلِ اجتماعی‘‘ ایک وسیع تر اصطلاح ہے اس میں معاشرتی و معاشی اور قانونی و سیاسی ہر طرح کا عدلِ انصاف شامل ہے۔ سب کے لیے عدل سے یہ مراد ہے کہ اب معیشت کے ثمرات صرف ایلیٹ کلاس تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ خطِ غربت سے نیچے زندگی کی گاڑی کو دھکا دینے والے دس کروڑ انسانوں کو بھی کسمپرسی کے حالات سے نکالا جائے گا۔
ہماری دعا ہے کہ وزیراعظم کا یہ منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہو۔ چند روز قبل وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بھی کم و بیش ایسی ہی بات کہی تھی کہ ہمیں اپنی برآمدات بڑھانے پر بہت زور دینا ہو گا اور اس کے لیے آئی ٹی‘ زراعت اور صنعتوں کو بطورِ خاص بہت اہمیت دینا ہو گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آئی ٹی سے متعلقہ ٹیکنالوجی اور خدمات اس وقت ترقی پذیر دنیا کی بہت بڑی ایکسپورٹ انڈسٹری بن چکی ہے مگر افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اس شعبے نے ابھی اُڑان بھری ہی تھی کہ پی ٹی اے نے انٹرنیٹ بندش سے اس کے پَر کاٹ دیے۔ تین چار روز پہلے آنے والی خبروں کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے چیئرمین کو طلب کیا اور ان سے انٹرنیٹ کی بندش اور کم رفتاری پر اپنی شدید برہمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے چیئرمین پر واضح کیا کہ یہ بندش آئی ٹی برآمدات کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ انٹرنیٹ ایشو پر کمیٹی کے رکن سینیٹر کامران مرتضیٰ نے اپنے تحفظات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ صارفین کو فائیو جی نیٹ نہیں دے سکتے تو کم از کم 2023ء والا ہی انٹرنیٹ بحال کر دیں۔ جب ارکان نے چیئرمین سے یہ استفسار کیا کہ آپ نے انٹرنیٹ کی بندش یا سپیڈ میں کمی کس قانون کے تحت کی ہے تو وہ تقریباً لاجواب ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ کمیٹی وزیر قانون اور وزیر داخلہ کو طلب کرے تاکہ وہ بتائیں کہ اس سلسلے میں کس قانون کے تحت ایسا کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔
پی ٹی اے کے چیئرمین میجر جنرل (ر) حفیظ الرحمن نے معزز سینیٹر کو بتایا کہ ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (وی پی این) کی بندش کے بارے میں انہوں نے کوئی احکامات جاری نہیں کیے تھے۔ 1970-80ء کی دہائی میں موبائل فون تھا نہ انٹرنیٹ۔ اُس وقت جب حکومتیں عام ٹی وی پر اس طرح کی پابندیاں عائد کرتی تھیں تو معروف بیورو کریٹ اور دانشور مرحوم الطاف گوہر کہا کرتے تھے کہ وہ زمانہ زیادہ دور نہیں کہ جب گھروں کے آنگنوں میں ہر طرح کی خبریں اُترا کریں گی تو پھر کیا کرو گے۔
اب یہ سننے میں آ رہا ہے کہ ایسا انٹرنیٹ آنے والا ہے کہ جس کے لیے سگنلز کی ضرورت نہیں ہو گی۔ جس طرح کہیں بھی کوئی ٹرانزسٹر ریڈیو ہوا کی لہروں پر آنے والی نشریات کو کیچ کر لیتا ہے اسی طرح کچھ مدت میں انٹرنیٹ کے سگنلز بھی صوتی لہروں میں بدل جائیں گے‘ جنہیں کہیں بھی کیچ کیا جا سکے گا۔ آئی ٹی کا ذکر زلفِ یار کی طرح طویل ہو گیا ہے مگر اس کے بغیر بھی چارہ نہیں کیونکہ یہ اب ہماری معیشت کی لائف لائن ہے۔ جناب وزیراعظم نے برآمدات کو 60بلین ڈالرز سالانہ تک پہنچانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ برآمدات میں مطلوبہ اضافہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک انرجی کی سستے داموں مسلسل فراہمی کو یقینی نہیں بنایا جاتا۔ ہماری ایکسپورٹ انڈسٹری کا ہر شعبہ‘ چاہے وہ ٹیکسٹائل ہو‘ آئی ٹی ہو یا کوئی اور شعبہ‘ سبھی انرجی سے جڑے ہوئے ہیں۔ ماحولیات و موسمیات کو جتنا پبلک فرینڈلی بنایا جائے گا اتنا ہی معیشت کے لیے سود مند ہو گا۔ اسی طرح ہر سال بارشوں کے موسم میں سیلابوں سے بہت بڑے پیمانے پر تباہی ہوتی ہے۔ بستیوں کی بستیاں صفحۂ ہستی سے مٹ جاتی ہیں۔ بہت بڑی تعداد میں انسان اور مال مویشی بھی لقمۂ اجل بن جاتے اور اربوں ڈالر کا مالی نقصان ہوتا ہے۔
سیلابوں کو روک کر اگر اُن کا پانی ڈیموں میں جمع کرنے کا منصوبہ شروع ہو جائے تو صحراؤں کو گل و گلزار بنایا جا سکتا ہے اور وہاں نفع آور فصلوں کو اگایا جا سکتا ہے۔ اور اشیائے خورو نوش کو عالمی معیار پر محفوظ کرکے بہت بڑا زرمبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔ اُڑان پاکستان کے پانچ نکات میں عدلِ اجتماعی کا نکتہ ہمارے دل کو بہت بھایا ہے۔ موجودہ صورتحال میں معیشت کے سارے ثمرات امیروں کی جھولی میں ڈالے جاتے ہیں اور یوں وہ امیر تر جبکہ غریب مہنگائی کی یلغار اور بالواسطہ ٹیکسوں کی بنا پر قوتِ لایموت سے بھی محروم ہو رہے ہیں۔
ہمارے خیال میں جمعرات کی سب سے بڑی بریکنگ نیوز یہ ہے کہ جس بات کو طویل عرصے سے ہم جیسے طالب علم دہرا رہے تھے‘ خود وزیراعظم نے علی الاعلان اس کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''معاشی استحکام‘ سیاسی استحکام سے جڑا ہوا ہے‘‘۔ یقینا ایسا ہی ہے۔ جس پُرسکون اور مثبت طریقے سے حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات آگے بڑھ رہے ہیں اس سے سیاسی استحکام کے امکانات بھی روشن ہو رہے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام بھی آئے اور اس سے جڑا ہوا معاشی استحکام بھی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں