لندن کی سردی اپنی جگہ مگر ملتان سے محبت میں مبتلا اس مسافر کے دل میں اصلی ٹھنڈ تو ملتان کے حوالے سے آنے والی ایک خبر نے ڈالی۔ معلوم ہوا کہ ملتان کے قلعہ کہنہ قاسم باغ کی بحالی اور تزئین و آرائش کیلئے حکومت پنجاب نے ایک خطیر رقم کی منظوری دے دی ہے۔ تفصیلات معلوم کیں تو علم ہوا کہ اس قدیمی اور تاریخی ورثے کو اس کی اصل حالت میں بحال کرنے کی غرض سے حکومت پنجاب نے دو ارب 78 کروڑ روپے سے زیادہ کی خصوصی گرانٹ منظور کی ہے۔ میں ملک میں ہونے والی ترقیٔ معکوس پر تنقید کے نشتر چلاتا رہتا ہوں کہ کسی طرف سے کوئی اچھی خبر نہیں ملتی‘ مگر اس اچھی خبر پر چند تحفظات کے باوجود یہ عاجز خوش ہے کہ چلیں دیر سے ہی سہی مگر اس شہرِ ناپُرساں کی کچھ تو سنی گئی۔ ورنہ ملتان اور جنوبی پنجاب کے ساتھ تو سدا سے سوتیلی ماں والا سلوک روا رکھا جاتا ہے اور اس قسم کے سارے فنڈ شالامار باغ سے شروع ہوتے ہیں اور چوبرجی سے ہوتے ہوئے شاہی قلعے کے سامنے سے گھوم کر دہلی دروازے سے داخل ہو کر مسجد وزیر خان‘شاہی حمام اور شاہی گزر گاہ سے گزرتے ہوئے گلی سورجن سنگھ پر ختم ہو جاتے ہیں۔ اس بار تو ایک محیر العقول کارنامہ انجام پایا ہے کہ اس لاوارث شہر کے تاریخی ورثے کی بھی لاٹری نکل آئی ہے۔
ایمانداری کی بات ہے کہ ایسے موقع پر جب ملک شدید معاشی مسائل میں گھرا ہوا ہے‘ اپنے شہر کی خوبصورتی کیلئے ملنے والی اس رقم پر دل خوش ہونے کے ساتھ ساتھ ملول بھی ہے لیکن پھر سوچتا ہوں کہ اگر یہ رقم ملتان کو اس کے تاریخی اور ثقافتی ورثے کی بحالی کیلئے نہ ملتی تو یہ بھی تختِ لاہور کے پائے مضبوط کرنے میں خرچ ہو جاتی۔ چلیں شکر ہے کہ یہ رقم حکمرانوں کے غیر ملکی علاج‘ نئی گاڑیوں کی خرید‘ سرکاری افسروں کے غیر ملکی دوروں‘ وزیروں اور ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں میں مزید کئی سو فیصد اضافے اور کسی وزیراعلیٰ یا گورنر کیلئے نئے ہوائی جہاز کی خرید کے بجائے دنیا کے قدیم ترین شہر کے تاریخی اور ثقافتی ورثے کی بحالی کیلئے مختص ہو گئی ہے۔ لیکن اس خطیر رقم کے اب اس بحالی پروجیکٹ پر مختص ہونے کے بعد اس عاجز کو ایک اور فکر لاحق ہو گئی ہے کہ کیا یہ رقم وہ مقصد پورا کر سکے گی جس کیلئے یہ منظور کی گئی ہے؟
ہم لوگ تاریخی ورثے کی بحالی کے نام پر اس چیز کی اصل شکل کو خوبصورت بنانے کے چکر میں نہ صرف بدصورت کر دیتے ہیں بلکہ برباد بھی کر دیتے ہیں۔ اب یہ جو دو ارب 78کروڑ کی رقم ہے اس کو اس قدیم قلعے پر کیسے خرچ کیا جاتا ہے‘ اس بارے میں یہ عاجز لاعلم بھی ہے اور فکر مند بھی۔ فکر مندی کے پیچھے کوئی بدگمانی نہیں بلکہ ماضی کے حقیقی اور تلخ تجربات ہیں۔ اسی قلعے پر پرانے دمدمے کو مرمت کے نام پر مسمار کرنے کے بعد اس کی جگہ پر جو بدوضع‘ بدہیئت‘ بدصورت اور بدنما چوکور ڈبا نما عمارت بنائی گئی ہے‘ وہ دمدمے کے نام پر تہمت ہے۔ اس لاوارث قلعے پر بننے والی سرکاری اور غیر سرکاری عمارتوں کا جمگھٹا اس کے حسن کو گہنانے کیلئے اپنا حصہ بقدر جثہ ڈال رہا ہے۔ پولیس مدد گار سنٹر‘ چھوٹے چھوٹے مزارات اور قلعے کے دروازے پر رکھی ہوئی فضول ریلوے بوگی میں بنا ہوا ریستوران اس تاریخی ورثے کو مزید بدصورت بنا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ کرنے والے بھی وہ سرکاری افسر اور آثارِ قدیمہ کے ماہرین ہیں جو درحقیقت جانتے ہی نہیں کہ بحالی کس چڑیا کا نام ہے اور اس سلسلے میں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے۔
میرے لیے پہلی تشویش کی بات تو یہ ہے کہ ملتان کے نام پر ملتان کے قلعے کی بحالی کیلئے ملنے والی دو ارب 78کروڑ سے زائد کی رقم کے خرچ کرنے کا اختیار والڈ سٹی اتھارٹی کو سونپ دیا گیا ہے۔ یعنی اس رقم کی داڑھی مونچھیں والڈ سٹی اتھارٹی کے ہاتھ میں ہیں۔ اس اتھارٹی کے مدارالمہام تھری ڈی کے ذریعے دی جانے والی پریزینٹیشنز کے ماہر ہیں اور بیکار مال کو خوبصورت اور اچھی پیکنگ میں ڈال کر بیچنے میں یدِطولیٰ رکھتے ہیں۔ ان کی ہر ایسی پیشکش ایک پنجابی محاورے ''دلی شہرنمونہ‘ اندروں مٹی باہروں چونا‘‘ کے عین مطابق ہوتی ہے۔ مرعوب کر دینے والی انگریزی‘ ڈیجیٹل ڈیزائننگ‘ دھانسو قسم کی عکاسی اور بیورو کریسی کے کنکشنز کے زور پر دی جانے والی تعارفی معلومات اس قدر متاثر کن ہوتی ہیں کہ بندہ مسحور ہو جاتا ہے اور سارا پروجیکٹ خاموشی سے اغوا ہو جاتا ہے۔
پروجیکٹ اغوا کرنے سے یاد آیا ستمبر یا اکتوبر2021ء میں اسی قسم کی اغوا کاری سے متعلق ایک سیمینار میں جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ سیمینار قلعہ کہنہ قاسم باغ کی بحالی اور تزئینِ نو سے متعلق تھا۔ تب شاید اس پروجیکٹ کیلئے ملنے والی غیر ملکی امداد کو کھانچہ لگانا مقصود تھا۔ اس پروجیکٹ میں بھی قلعہ کہنہ کو بنانے اور سنوارنے کی فزیبیلٹی رپورٹ بنائی گئی تھی اور اس فزیبیلٹی رپورٹ میں قلعہ پر موجود مزار کی بحالی اور بابری مسجد والے سانحہ کے ردعمل میں تباہ کیے جانیوالے پرہلاد مندر کی تعمیرِ نو وغیرہ شامل تھے۔ میرا اس وقت بھی مؤقف یہی تھا کہ ملتان کا قلعہ اپنے سینے پر موجود مزاروں کا نام نہیں بلکہ قلعہ سے مراد اس کے وہ آثار ہیں جو ختم کر دیے گئے یا ختم ہو رہے ہیں۔ قلعہ کو اس کی قدیمی شکل میں بحال کرنا ہی قلعہ کی بحالی ہے نہ کہ دیگر غیرمتعلقہ چیزوں کی لیپا پوتی کرکے اپنا مال پانی بنا لیا جائے۔
مجھے خوف یہ ہے کہ یہ ساری منظور کردہ رقم کارِ لاحاصل میں خرچ نہ ہو جائے کہ ہمارا ماضی اسی قسم کی مثالوں سے بھرا پڑا ہے۔ چند سال قبل اٹلی کی حکومت نے ملتان کے قدیمی شہر کی بحالی کے لیے خطیر رقم دی اور اس سلسلے میں ملتان والڈ سٹی پروجیکٹ کے نام سے کام شروع ہو گیا۔ اس پروجیکٹ کے دو مرحلے تھے اور فنڈ کے پیسے مرحلہ وار ملنے تھے۔ پہلے مرحلے میں ہی اتنی بدانتظامی اور خورد برد ہوئی کہ دوسرے مرحلے کی نوبت ہی نہ آئی۔ پہلے مرحلے میں ملتان کی فصیل کے اندر والے شہر کی بحالی تو خیر سے کیا ہونی تھی محض حرم دروازے کی تزئین و آرائش ہوئی اور اس کے ارد گرد تجاوزات کا خاتمہ ہونے کے علاوہ جو کام سب سے زیادہ پیسے کھا گیا وہ سید یوسف رضا گیلانی کے جد امجد موسیٰ پاک شہید کے دربار تک جانے والے راستے کو کشادہ کرنا اور مزار کے ارد گرد کی عمارتیں ہٹا کر وہاں پارکنگ کی سہولت مہیا کرنا تھا۔ اس کام میں سرکاری مشینری‘ نگران محکمہ اور این جی اوز نے خوب ہاتھ رنگے۔ اٹلی والے‘ جو خود یورپ میں کمیشن اور کک بیکس وغیرہ کے معاملے میں سب سے بدنام ہیں‘ ہمارے ہاں کے حالات دیکھ کر اتنے حیران و پریشان ہوئے کہ پہلے مرحلے پر ہی ہاتھ کھڑے کر گئے اور دوسرے مرحلے پر سرے سے ہی بھاگ گئے۔
تین سال قبل ہونے والے سیمینار میں بھی ملتان کے قدیمی قلعہ کی بحالی کیلئے بنائے گئے سارے منصوبے میں اس کی فصیل کا کہیں کوئی ذکر نہیں تھا۔ ملتان کے قلعہ کے جغرافیہ کی بات کی جائے تو اس کا موجودہ دروازہ جس کا نام بابِ قاسم ہے‘ گھنٹہ گھر والی سمت ایک ڈھلوان کے اوپر ہے اور فاتحِ ملتان محمد بن قاسم کے نام سے معنون ہے۔ اس دروازے سے دائیں طرف والا قلعہ کا حصہ کسی زمانے میں شہرپناہ سے متصل تھا اور اس جگہ فصیل نہیں تھی کیونکہ اس مقام کے بعد شہر کی فصیل ہی حفاظتی حصار کا کام دیتی تھی۔ اس جگہ سے لے کر دولت دروازے تک قلعے کا جنوبی حصہ شہر کے ساتھ جڑا ہوا تھا اور ویسے بھی اب یہ ساری جگہ حسین آگاہی بازار کی وجہ سے مکمل طور پر کمرشل ہو چکی ہے۔ بینکوں‘ پلازوں اور دکانوں کی وجہ سے اس جگہ فصیل بنانا بہت ہی مہنگا کام ہو گا تاہم پرہلاد مندر کے سامنے اور مزار بہاء الدین زکریا والی سمت سے لے کر بابِ قاسم کی بائیں طرف والا سارا شمالی حصہ زیادہ تر خالی ہے اور تھوڑے سے حصے پر تجاوزات ہیں‘ جو ختم کرائی جا سکتی ہیں۔ اس طرف حج کمپلیکس‘ محکمہ آثارِ قدیمہ کے دفاتر‘ اوقاف کے دفاتر‘ عارضی قسم کی چند سرکاری عمارات اور چھوٹی چھوٹی تعمیرات ہیں جنہیں ہٹانا قطعاً مشکل نہیں ہے۔ (جاری)