"MMC" (space) message & send to 7575

شام تاریخ کے آئینے میں…(حصہ دوم)

1258ء میں بغداد کی تباہی کے بعد قاہرہ میں عباسی خلافت کا سلسلہ جاری ہوا‘ مملوک سلاطین رکن الدین بیبرس‘ سیف الدین قلادون اور خلیل الاشرف بن قلادون نے صلیبیوں سے شام اور فلسطین کے بقیہ ساحلی شہر اور قلعے آزاد کرا لیے‘ ان میں طَرطُوس‘صُور‘ صَیدَاء اور بیروت شامل تھے۔ آخری قلعہ عَکَّۃ (Acre) 1291ء میں سلطان خلیل الاشرف نے فتح کیا۔ 1400ء میں مغل فاتح تیمور لنگ نے حَلَب اور دِمَشق میں لوٹ مار کی‘ اس کے حکم پر دمشق کی جامع اموی کو آگ لگا دی گئی۔ 1516ء میں عثمانی ترک سلطان سلیم اول نے پرتگالی صلیبیوں کا خطرہ بھانپ کر شام ومصر کو کمزور ممالیک حکمرانوں کے تسلط سے نکالنے کا آغاز کیا اور جنگ مَرج دَابِق (نزد حَلَب) میں ممالیک کو شکست دے کر شام پر قبضہ کرلیا۔ پھر اگلے سال مصر وحجاز کے عثمانی سلطنت میں شامل ہونے سے خلافت بھی عثمانیوں کومنتقل ہو گئی اور سیلم اول قسطنطنیہ میں پہلا ترک خلیفہ بنا۔
انیسویں صدی کے اواخر میں ترکوں نے دمشق کو ریلوے لائن کے ذریعے قسطنطنیہ سے ملا دیا اور 1908ء میں دمشق تا مدینہ ریل چلنے لگی۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران اکتوبر 1918ء میں برطانوی فوجیں شام پر قابض ہو گئیں‘ پھر ایک خفیہ معاہدے کے تحت جولائی 1920ء میں فرانسیسی سامراج نے شام پر قبضہ کر لیا۔ 1941ء میں فرانس نے لبنان کو شام سے الگ کرکے آزاد کر دیا۔ 1946ء میں شام نے فرانسیسی استعمار سے آزادی حاصل کر لی‘ اس دوران میں 1943ء سے1949ء تک شُکرِ ی اَلقُوَتلِی شام کے صدر رہے۔ مارچ 1949ء میں کرنل حُسنِی اَلزَّعِیم نے حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ یہ عرب دنیا کا پہلا فوجی انقلاب تھا‘ اسی سال اگست میں دوسرے فوجی انقلاب میں صدر حُسنِی اَلزَّعِیم مارے گئے اور سامی حناوی صدر بنے۔ اس کے بعد کرنل ادیب شِشکَلِی نے اقتدار سنبھالا‘ ان کی حکومت 1954ء تک قائم رہی‘ پھر ان کو ملک چھوڑنا پڑا۔1955ء میں شُکرِ یْ اَلقُوَتلِی دوبارہ صدر بنے‘ القوتلی کے دوسرے عہدِ صدارت میں شام اور مصر کا اتحاد 'متحدہ عرب جمہوریہ‘ قائم ہوا‘ مگر ستمبر 1961ء میں عبدالکریم نہلاوی نے فوجی انقلاب برپا کرکے شام کی مصر سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ 8 مارچ 1963ء کو عرب کی اشتراکی جماعت حزب البَعْث کی شراکت سے شام میں فوجی انقلاب برپا ہوا‘ ڈاکٹر نور الدین العطاشی صدر اور یوسف زین وزیراعظم بنے۔ نومبر 1970ء میں وزیر دفاع حافظ الاسد نے حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا‘ ان کا تعلق اقلیتی نُصیری فرقے سے تھا۔ جولائی 2000ء میں ان کی وفات پر ان کے بیٹے بشار الاسد صدر بنے اور ایک عوامی بغاوت کے نتیجے میں 8 دسمبر 2024ء کو باغی رہنما محمد الجولانی کی قیادت میں بشار حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ اسد خاندان کے 54 سالہ دورِ اقتدار کا خاتمہ تھا۔ اس طرح اقتدار ''ھَیئَۃُ تَحرِیرِ الشَّام‘‘ کے عبوری وزیراعظم محمد البشیر کو منتقل ہوا۔
شام کے مشہور شہر: دِمَشْق‘ جو علم وادب کا مرکز رہا ہے اور ہزاروں سال سے شام کا دارالحکومت چلا آ رہا ہے‘ 41ھ سے 132ھ تک اموی دارالخلافہ رہا ہے۔ یہاں پر 4000ق م کے شہر کے آثار ملتے ہیں۔ (2) حَلَب: حضرت ابراہیم علیہ السلام فلسطین جاتے ہوئے یہاں سے گزرے تھے‘ اس شہر کوسکندرِ رومی اور عربوں نے فتح کیا‘ یہ شہر حمدانی اور زنگی حکومتوں کا دارالحکومت رہا ہے۔ حلب شام کا دوسرا بڑا شہر اور صنعتی وتجارتی مرکز ہے۔ حَلَب کی جامع مسجد میں حضرت زکریا علیہ السلام کا مزار ہے۔ (3) بُصریٰ: یہ جنوبی شام میں اردن کی سرحد کے پاس واقع ہے‘ یہاں بُحیرا نامی مسیحی راہب نے نبیﷺ کے لڑکپن میں آپ کی نبوت کی پیشگوئی کی تھی۔ بُصرٰی عہدِ فاروقی میں فتح ہوا۔ (4) لَاذِقِیَّہ: نہر الکبیر الشمالی کے دہانے کے قریب یہ شام کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے۔ یونانی بادشاہ سلیوکس اوّل نے اپنی ماں کے نام پر اس شہر کی بنیاد رکھی تھی۔ (5) طَرطُوس: شام کے ساحل پر واقع اس تاریخی بندرگاہ میں ان دنوں روس کا بحری اڈا قائم ہے۔ یہ جزیرہ رواد کے مقابل واقع ہے‘ عراقی تیل کی پائپ لائن طرطوس پہنچتی ہے‘ یہ شہر عبادہ بن صامت کی قیادت میں 17ھ میں فتح ہوا‘ اس کا قدیم نام اَنطَرطُوس تھا۔ 1099ء میں صلیبی اس پر قابض ہوئے اور 1291ء میں مملوک سلطان خلیل الاشرف نے اسے آزاد کرایا۔ (6) تَدمُر: یہ شہر صحرائے شام کے اندر واقع ہے‘ اس کو عَروسِ صحرا کہا جاتا ہے۔ تیسری صدی عیسوی میں تَدمُر عرب مملکت کا دارالحکومت رہا‘ ملکہ زنوبیہ کی قیادت میں رومیوں کے مقابل رہا۔ (7) رَقَّۃ: یہ شمالی شام میں فرات کے کنارے مشہور شہر ہے‘ اس کو سلیوکی یونانیوں نے آباد کیا۔ ہارون الرشید کا گرمائی دارالحکومت رہا ہے۔ تاتاریوں نے اس شہر کو تباہ کیا تھا۔ (8) اِدلِب: شمالی شام کا ایک صوبہ ہے اور بغاوت کے دوران مسلح تحریکوں کا گڑھ رہا ہے‘ اس کے علاوہ حَمَا‘درْعَا‘ دَیرَ الزُّور وغیرہ بھی شام کے مشہور شہروں میں شامل ہیں۔ شام کی فضیلت کے بارے میں احادیثِ مبارکہ میں رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''قیامت سے پہلے حضرموت کے سمندرکی طرف سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو اکٹھاکرے گی‘ صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! اس وقت آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں‘ آپﷺ نے فرمایا: تم شام چلے جانا‘‘ (ترمذی: 2217)۔ (2) ''جب شام والوں میں خرابی پیدا ہو جائے گی تو تم میں کوئی اچھائی باقی نہیں رہے گی‘ میری امت کے ایک گروہ کو ہمیشہ اللہ کی مدد حاصل رہے گی‘ اس کی مدد نہ کرنے والے قیامت تک اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے‘‘ (ترمذی:2192 )۔ (3) ''ایمان یمن کی طرف سے نکلا ہے اورکفر مشرق کی طرف سے‘ سکون واطمینان والی زندگی بکری والوں کی ہے اور فخر وریاکاری گھوڑے اور اونٹ والوں میں ہے‘ جب مسیح دجال اُحُد کے پیچھے آئے گا تو فرشتے اس کا رخ شام کی طرف پھیر دیں گے اورشام ہی میں وہ ہلاک ہو گا‘‘ (ترمذی: 2243)۔ (4) حضرت زید بن ثابتؓ بیان کرتے ہیں: ہم لوگ رسول اللہﷺ کے پاس کاغذ کے پرزوں سے قرآن کو مرتب کر رہے تھے‘ تو آپﷺنے فرمایا: مبارک ہو شام کے لیے‘ ہم نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! کس چیز کی‘ آپﷺ نے فرمایا: اس بات کی کہ رحمن کے فرشتے ان کے لیے اپنے پر بچھا تے ہیں‘‘ (ترمذی: 3954)۔ (5) رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''میری امت کی ایک جماعت اللہ کے حکم پر قائم ودائم رہے گی‘ اس کا مخالف اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا‘ وہ اپنے دشمنوں سے جہاد کرتی رہے گی‘ جب ایک لڑائی ختم ہو گی تو دوسری جنگ چھڑ جائے گی‘ اللہ تعالیٰ ایک قوم کو ان کے مقابل کھڑا کرے گا تاکہ ان سے (مال غنیمت کے ذریعے) ان کو رزق ملتا رہے حتیٰ کہ قیامت آ جائے گی اور آپﷺ نے فرمایا:یہ اہل شام ہیں‘‘ (المعجم الاوسط: 7948)۔ (6) نبیﷺ نے فرمایا: شام اللہ کا چُنیدہ ملک ہے‘ وہ اپنے منتخب بندوں کو اس میں جمع فرمائے گا‘ تو جو شام سے نکل کر اس کے غیر کی طرف جائے گا‘ یہ اللہ کی ناراضی سے ہوگا اور جو اس میں داخل ہوگا‘ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہوگا‘‘ (معجم الکبیر: 7718)۔ (7) رسول اللہﷺ نے فرمایا: حالات اس طرح ہو جائیں گے کہ تم لوگ مختلف گروہوں اور لشکروں میں بٹ جائو گے‘ ایک لشکر شام میں ہوگا‘ ایک یمن میں اور ایک عراق میں۔ ابن حوالہ کہتے ہیں: میں نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ میری رہنمائی فرمائیے! اگر حالات ایسے ہو جائیں تو کہاں سکونت اختیار کروں‘ آپﷺ نے فرمایا: شام میں‘ بلاشبہ یہ علاقہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ ہے‘ اللہ تعالیٰ اپنے پسندیدہ بندوں کو یہاں جمع فرمائے گا‘ لیکن اگر تم لوگ اس سے انکار کرو‘ تو پھر اپنے یمن کو اختیار کرنا اور اپنے تالابوں کا پانی پینا‘ بلاشبہ اللہ نے مجھے شام اور اہل شام کے متعلق (فتنوں سے حفاظت کی) ضمانت دی ہے‘‘ (ابودائود: 2483)۔
نوٹ: ہم نے مقامات کے ناموں پر حرکات لکھی ہیں تاکہ قارئین صحیح تلفظ کے عادی ہو جائیں‘ نیز ابن عبد الہادی کی کتاب 'سرزمین شام‘ کی تقدیم میں محسن فارانی نے تاریخِ شام کا جو خلاصہ لکھا ہے‘ یہ کالم اسی سے مرتب کیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں