آ ج کے کالم کے لیے کئی اور اہم موضوعات بھی ذہن میں گردش کر رہے تھے۔ ایک موضوع تو امریکہ کی طرف سے پاکستان کے میزائل پروگرام پر لگائی جانے والی قدغنیں اور وطن عزیز پر عائد کی جانے والی پابندیاں ہیں۔امریکہ اپنے حلیفوں کو گاہے گاہے اس طرح کے تحائف بھیجتا رہتا ہے۔دوسرا موضوع بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے لایا جانے والا ڈیجیٹل آزادی بل ہے۔ بلاول نے سندھ یونیورسٹی میں طلبہ و طالبات سے خطاب کرتے ہوئے انہیں یہ خوشخبری سنائی کہ تیز رفتار انٹرنیٹ بنیادی انسانی حق ہے۔ ابھرتے ہوئے سیاست دان نے نوجوانوں کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کہ پہلے ہائی ویز اور موٹرویز ہماری ترجیح تھے مگر آج تیز رفتار انٹرنیٹ ہماری اوّلین ترجیح ہے۔موجودہ دور میں آئی ٹی انڈسٹری اور اس سے متعلقہ وسیع تر بزنس مواقع سب سے بڑی ایکسپورٹ بن چکے ہیں۔ ہم ان دونوں اہم موضوعات پر اگلے کسی کالم میں اظہارِ خیال کریں گے۔
آج تو ہم وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کے اُس بیان کو زیر بحث لائیں گے جسے سُن اور پڑھ کر پاکستان میں ہی نہیں پاکستان سے باہر بھی دیگر کئی مسلم ممالک کے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ خواجہ محمد آصف نے سلطان محمود غزنوی کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے بجائے انہیں بھارتی بیانیہ کے مطابق لٹیرا قرار دیا ۔ افغان حکومت نے اس بیان کی شدید مذمت کی ہے اور اسے انتہائی غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔
ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ خواجہ آصف کالج کے دنوں میں ایک لااُبالی شخصیت کے مالک تھے تاہم سیاست میں آنے کے بعد ان کے اندر قدرے سنجیدگی آ گئی تھی اور سیاسی حلقے یہ سمجھ رہے تھے کہ شاید آگے چل کر وہ اپنے والدِ محترم خواجہ محمد صفدر کے نقشِ قدم پر چلیں گے۔ مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ جوں جوں خواجہ آصف کے بالوں میں سفیدی بڑھتی جا رہی ہے توں توں اُن کے مزاج کی غیرسنجیدگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ خواجہ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بولتے بہت زیادہ ہیں ‘ سوچتے بہت کم ہیں اور پڑھتے تو شاید بالکل نہیں۔
وزیر دفاع کسی ملک کا ایک صاحبِ مطالعہ زیرک و سمجھدار شخص ہوتا ہے مگر یہ کیسے وزیر دفاع ہیں کہ جنہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ پاکستان کے ایک میزائل کا نام ''غوری میزائل‘‘ ہے۔ ظاہر ہے کہ کوئی ملک اپنی انتہائی اہم دفاعی پراڈکٹ کو کسی ہیرو کے نام سے ہی موسوم کرے گا‘ کسی ''لٹیرے‘‘ کے نام سے نہیں۔ ابن سبکتگین سلطان محمود غزنوی کو مسلمانانِ ہند نے بت شکن کا خطاب دیا تھا۔ وہ ہمارے ہیرو‘ شجاعت کی علامت اور ایک واجب الاحترام سلطان ہیں۔ آج سے لگ بھگ ایک ہزار سال قبل محمود غزنوی نے ہندوستان کے کچھ علاقے فتح کرنے کے بعد ان کے مرکزی بت کدے سومنات پر کئی حملے کیے اور مندر کو تباہ کر دیا تھا۔ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے نزدیک محمود غزنوی کی حیثیت ایک مثالی حکمران اور فاتح ہندکی ہے۔ علامہ اقبالؒ کو محمود غزنوی سے زبردست لگاؤ تھا۔ وہ انہیں ہند میں شوکتِ اسلام کی علامت سمجھتے تھے۔ تبھی تو علامہ نے یہ اشعار شدتِ جذبات کے ساتھ کہے تھے۔
نہ عشق میں رہیں گرمیاں نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں
جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں
غزنوی موجودہ افغانستان کے صوبہ خراسان کا ایک اہم شہر ہے۔ 962ء سے 1187ء تک کی سلطنت غزنویہ کا یہ شہر دارالحکومت تھا۔ محمود غزنوی971ء میں دنیا میں آئے اور اُن کی وفات 1030ء میں ہوئی۔ 999ء سے لے کر 1030ء تک انہوں نے اس سلطنت پر نہایت عدل و انصاف سے حکومت کی اور بہترین حکمرانی کے انمٹ نقوش تاریخ کے صفحات پر ثبت کیے۔ غزنی کے قدیم شہر میں بادشاہوں کے علاوہ کئی شعرا اور سائنسدانوں کے مزارات بھی ہیں جن میں مشہور ترین ابو ریحان البیرونی ہیں ۔
موجودہ افغان بھی سلطان محمود غزنوی کو اہلِ پاکستان کی طرح اپنا ہیرو سمجھتے ہیں۔ اسی لیے کابل حکومت نے خواجہ آصف کے ان کے بارے میں نہایت تکلیف دہ ریمارکس کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ افغان حکومت نے خواجہ صاحب کے بیان کو تاریخی حقائق سے عدم واقفیت سے تعبیر کیا ہے ۔ کابل حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستانی وزیر کو یہ بھی معلوم نہیں کہ محمود غزنوی تو اسلامی دنیا میں ایک انتہائی معزز و محترم شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ کابل حکومت کے اہم وزرا نے حکومت پاکستان کو متوجہ کرتے ہوئے یاد دلایا کہ ایک طرف آپ اپنے ایک میزائل کا نام محمود غزنوی سے موسوم کر کے مرحوم سلطان کو عزت بخشتے ہیں اور دوسری طرف آپ کا بے خبر وزیر دفاع اس واجب الاحترام تاریخی شخصیت کی کردار کشی کرتا ہے۔
شاعرِ مشرق اور دوسرے کئی شعرا نے اپنے کلام میں سلطان محمود غزنوی کو خراج عقیدت پیش کیا اور کئی مصنفین نے اُن کی زندگی اور فتوحات کے حوالے سے ناول بھی لکھے ہیں۔ علامہ اقبالؒ کی قومی و ملی شاعری نے مسلمانانِ عالم کو ایک بار پھر اسلام کی عظمتِ رفتہ سے دنیا کو سیراب و فیض یاب کرانے کی طرف متوجہ کیا ہے۔ایران و افغانستان میں علامہ اقبالؒ کا فارسی کلام بہت محبوب و مقبول ہے۔ علامہ نے 1933ء میں افغان فرمانروا نادر شاہ کی دعوت پر پڑوسی ملک کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے قصرِ دلکشا میں نادر شاہ سے ملاقات کے موقع پر یہ کہہ کر اس کے ہاتھ چوم لیے تھے کہ آپ ایک آزاد ملک کے آزاد حکمران ہیں۔ یہ کہہ کر علامہ اقبال نے عمر میں اپنے سے چھوٹے شاہ کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور بعد ازاں اس بوسے کا سبب اپنے فارسی شعر میں یوں بیان کیا ہے:
جانم از سوزِ کلامش در گداز
دستِ او بو سیدم از راہِ نیاز
شعر کا مطلب کچھ یوں ہے کہ شاہ کے ولولہ انگیز خطاب نے میری روح کو تڑپا دیا ہے اسی جذبۂ نیاز مندی کی بنا پر میں نے اس کے ہاتھ کو بوسہ دیا۔ بعد ازاں علامہ اقبال کابل سے غزنی تشریف لے گئے اور وہاں انہوں نے محمود غزنوی کے مزار پر فاتحہ پڑھی اور سلطان کو دعائیہ خراجِ عقیدت پیش کیا۔ افغان حکومت نے علامہ اقبال کے انتقال پر اُن کے مرقد کیلئے لوحِ مزار بھی بھیجی تھی جس پر خوبصورت خطاطی میں فارسی اشعار بھی لکھے تھے اور عربی زبان کا یہ قول بھی درج تھا:ان من الشعرلحکمۃ وان من البیان لسحراکہ بے شک اشعار میں حکیمانہ باتیں ہوتی ہیں اور بعض باتیں جادو اثر ہوتی ہیں۔
یہ ساری تفصیل بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ واضح کیا جائے کہ اہلِ افغانستان علامہ اقبال کی فارسی شاعری اور محمود غزنوی کے بارے میں ان کے جذبات کی دل سے قدر دان رہی ہے ۔خواجہ محمد آصف ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے محمود غزنوی کے بارے میں انتہائی غیر ذمہ دارانہ ریمارکس کو بلاتاخیر واپس لیں اور اہلِ پاکستان و افغانستان کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے پر اُن سے معذرت طلب کریں۔ سلطان محمود غزنوی لٹیرا نہیں ہمارا ہیرو تھا۔