غزہ پر قبضے کا ٹرمپ منصوبہ

جب سے امریکی صدر ٹرمپ دوبارہ برسرِاقتدار آئے ہیں اُس وقت سے آئے روز کسی نہ کسی کو دھمکیاں دے کر پانی کی گہرائی کا اندازہ لگاتے رہتے ہیں۔ پہلے انہوں نے کینیڈا کو امریکہ کی 51ویں ریاست بن جانے کو کہا۔ پھر دو پڑوسی ممالک میکسیکو اور کینیڈا‘ نیز چین کی امریکہ کے لیے درآمدات پر بھاری ٹیرف لگانے کی دھمکی دی‘مگر ابھی تک کسی بھی دھمکی کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا کیونکہ یہ قابلِ عمل ہی نہیں۔
ٹرمپ نے تین چار روز قبل اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس کے دوران غزہ پر قبضہ کرنے کی دھمکی دی۔ جمعرات کے روز انہوں نے غزہ کو امریکی نو آبادیاتی ریاست بنانے اور وہاں سے اہلِ غزہ کو بے دخل کر کے انہیں اُردن‘ مصر اور دیگر قریبی عرب ممالک میں بسانے کا باقاعدہ منصوبہ پیش کیا۔دنیا ٹرمپ کا یہ بیان سن کر ششدر رہ گئی ہے۔اُن کی پہلی دھمکی کے بعد شدید عالمی ردعمل سامنے آیا ہے۔چین اور روس نے دھمکی کی مذمت کی ہے جبکہ امریکہ کے روایتی یورپی اتحادیوں نے بھی اس پر کڑی تنقید کی ہے۔ برطانیہ‘ فرانس اور جرمنی نے واضح طور پر کہا ہے کہ یہ تو کھلی کھلی نسل کُشی ہو گی۔ اقوام متحدہ کا کہنا یہ ہے کہ ایسا سوچنا بھی یو این کے چارٹر کی شدید ترین خلاف ورزی ہے۔ اردن کے شاہ عبداللہ نے ڈونلڈ ٹرمپ کی اس تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔ اسی طرح مصر نے بھی کہا ہے کہ ہم غزہ کی تعمیرِنو تو ضرور چاہتے ہیں مگر کسی صورت اہلِ غزہ کی اپنے وطن سے بے دخلی کی کبھی حمایت نہیں کریں گے۔
سعودی وزیر خارجہ نے واضح کیا فلسطینیوں کی خود مختار ریاست کے قیام کے بغیر ہم اسرائیل سے ہرگز تعلقات قائم نہیں کریں گے۔ اہلِ غزہ کے ترجمان نے شدید ترین ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ٹرمپ کی دھمکی کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ اپنی مٹی سے بے دخلی ناممکن ہے۔ہم نے ٹرمپ کی دھمکی کے بعد کے منظر نامے کو کسی قدر تفصیل سے اس لیے بیان کیا ہے تاکہ قارئین کو معلوم ہو سکے کہ ضمیرِ عالم سویا ہوا نہیں‘ جاگ رہا ہے۔
حالیہ امریکی انتخابات کے دوران وہاں کی کئی فیصلہ کن ریاستوں کے مسلم امریکیوں کی اکثریت نے ڈونلڈ ٹرمپ کو اس لیے ووٹ دیے تھے کہ وہ غزہ میں نہ صرف مستقل امن قائم کرائیں گے بلکہ اسرائیل سے دو ریاستی فارمولے پر عمل درآمد کرتے ہوئے اہلِ فلسطین کی خود مختار ریاست کے قیام کی راہ ہموار کریں گے۔ مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ سپر پاور کی حیثیت سے امریکی صدر نے ظالم کا ساتھ دیا ہے اور مظلوم پر مزید قیامتیں ڈھانے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔
ٹرمپ کا یہ منصوبہ تو اکیسویں صدی کا ''نکبہ‘‘ ہے۔عربی میں نکبہ افراتفری او رپریشاں حالی کو کہتے ہیں۔ 14مئی 1948ء کو جب غاصب صہیونیوں نے فلسطین میں اعلانِ آزادی کیا اور اسرائیلی ریاست کو کئی طاقتوں کی سازشوں سے قائم کر دیا‘ اُس سے اگلے روز 15مئی 1948ء سے ڈیڑھ سال تک جاری رہنے والی جنگ میں ساڑھے سات لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے نکال کر قریبی عرب ملکوں میں دھکیل دیا گیا اور اُن کے گھروں پر باہر سے آنے والے صہیونیوں کو آباد کیا گیا۔ اپنی سرزمین سے بزورِ شمشیر نکالے جانے والے یہ فلسطینی ابھی تک اپنے وطن نہیں لوٹ سکے۔اسرائیل اور امریکہ کو اچھی طر ح معلوم ہے کہ آج حماس کی حکومت کے زیر قیادت اہلِ غزہ اپنے وطن میں موت کو ترجیح دیں گے اور وہاں سے ہرگز کہیں ہجرت پر آمادہ نہیں ہوں گے۔
اگر آج اکیسویں صدی میں بزورِ شمشیر دوسرے ملکوں کو فتح کرنے اور وہاں اپنی نوآبادیات قائم کرنے کا رواج چل نکلا تو پھر دنیا تہذیب و تمدن اور انسانی حقوق کی ضمانت دینے والے یو این او جیسے عالمی اداروں سمیت جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے وحشی دور میں واپس چلی جائے گی۔ اگر طاقت کے بل بوتے پر ملکوں کو تاراج کرنے اور اُن کے باسیوں کو اپنے وطن سے بے دخل کرنے کا کلچر شروع ہو جاتا ہے تو پھر روس کو یوکرین اور چین کو تائیوان پر قبضے کا جواز مل جائے گا۔ وزیراعظم نیتن یاہو نے اپنے حالیہ دورئہ امریکہ کے دوران وائٹ ہاؤس‘واشنگٹن میں بڑی چکنی چپڑی باتوں سے ڈونلڈ ٹرمپ کی تعریف کی۔ انہوں نے امریکی تاریخ میں ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا سب سے بہترین دوست قراردیا۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ڈیڑھ برس تک بے سروسامانی کے ساتھ حماس نے اہلِ غزہ کی حمایت کے ساتھ مزاحمت کی تاریخ میں کئی نئے ابواب رقم کئے ہیں۔ مزاحمت کی اس شدت سے ہی اسرائیلی وزیراعظم کو کچھ سبق سیکھنا اور ہوش کے ناخن لینے چاہئیں تھے۔ اسرائیل بمباری و گولا باری کے نتیجے میں 47 ہزار سے زائد اہلِ غزہ کہ جن میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی تھی‘ نے جام شہادت نوش کیا۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ شدید زخمی ہوئے۔ ہسپتالوں کو زمین بوس کر دیا گیا۔ وہاں برائے نام ادویات اور کسی طرح کی سرجری کے لیے کوئی سامان نہیں مگر پھر بھی آہنی عزم و ارادے کے مالک فلسطینی و غیر ملکی ڈاکٹر کسی نہ کسی طرح مریضوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔
مرکزی غزہ کے تقریباً دس لاکھ فلسطینی جو ادھر اُدھر پناہ لیے ہوئے تھے اب اپنے گھروں کے ملبے پر لوٹ آئے ہیں‘ آنسو بہانے کے لیے نہیں بلکہ اُن کی تعمیرِ نو کے لیے۔ اہلِ غزہ نے ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی پر سخت ترین ردعمل دیتے ہوئے یہاں تک کہا ہے کہ امریکہ ہماری مدد نہیں کرتا تو نہ کرے مگر ہم اللہ کے فضل اور اپنے زورِ بازو پر اپنے آشیانوں کو دوبارہ آباد کریں گے۔ غزہ کے ساتھ اسرائیل اور مصر کی سرحدیں ملتی ہیں۔ جنگ کے دوران غزہ کی تقریباً تمام آبادیوں میں ہر طرف تباہی و بربادی پھیلا دی گئی۔ حتیٰ کہ اسرائیلی فوجیوں نے علاقوں میں ٹینکوں اور بوٹوں سے پھلوں کے باغوں اور زرعی فارموں کو بھی صحرا میں بدل دیا ہے۔ جنگ سے قبل غزہ کے لوگ جنوب میں رفح‘ خان یونس اور مرکزی علاقے میں دیر البلاح اور غزہ شہر میں رہتے تھے۔ تقریباً آدھی آبادی کے پاس اپنے گھر تھے مگر اب سب بے گھر ہو چکے ہیں۔
اس وقت سب سے بڑی ذمہ داری عربوں اور مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے۔ ایک طرف تو انہیں سفارتی ذرائع سے یورپی حکمرانوں اور امریکہ کے انصاف پسند اداروں کے ساتھ مل کر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس کی دھمکیوں اور منصوبوں سے باز رکھنے کے لیے بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ دوسری طرف یو این او کے فورم سے مستقل جنگ بندی اور تباہ و برباد شہری ریاست کی تعمیرِ نو کے لیے ایک جامع منصوبہ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ تیل کی دولت سے مالا مال ہمارے عرب بھائی دل کھول کر غزہ کی تعمیرِنو کے لیے فنڈز مہیا کریں۔ امت مسلمہ کے سعودی عرب جیسے رہنما امریکی صدر کے اس دعوے کی بھی عملاً تردید کریں جس میں انہوں نے کہا ہے کہ عرب ممالک بھی ان کے منصوبے کے حامی ہیں۔
پاکستانی حکومت نے فلسطینیوں کی غزہ سے بے دخلی کے منصوبے پر جو محتاط اور بے ضرر سا بیان دیا ہے اس سے ہرگز امت مسلمہ کے جذبات کی ترجمانی نہیں ہوتی۔ اگر امریکہ طاقت کے بل بوتے پر غزہ پر دھاوا بولتا ہے تو پھر فلسطین ہی نہیں سارا مشرق وسطیٰ جنگ کی تباہ کاریوں کا شکار ہوگا۔ ہمیں یہی توقع ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ دوسری دھمکیوں کی طرح اس دھمکی کو بھی واپس لینے میں دیر نہیں لگائیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں