مسئلہ کشمیر کیسے حل ہو گا؟

ممتاز کشمیری رہنما اور آزاد کشمیر اسمبلی کے سابق رکن جناب عبدالرشید ترابی آئینِ نو سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی طرزِ کُہن پہ اڑتے ہیں۔ وہ کج بحثی سے بھی اجتناب فرماتے اور مخاطب کی بات بغور سننے کے بعد دلیل و منطق کے ساتھ اپنا نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں۔ ترابی صاحب نے اپنا اصولی مؤقف برقرار رکھتے ہوئے کشمیر پالیسی کو ریویو اور ری وزٹ کرنے کی ضرورت سے ہمیشہ اتفاق کیا ہے۔
گزشتہ روز اُن کے ساتھ ٹیلی فون پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ میں نے عرض کیا کشمیر کیلئے آپ اور آپ کی پارٹی جماعت اسلامی مسلسل 75 برس سے جدوجہد کر رہے ہیں۔ پاکستانی اور کشمیری اس جہدِ مسلسل کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں مگر اب مزاحمت اور جہاد کے اسالیب کو عصری تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ ترابی صاحب کا جواب تھا کہ ہم نے کب اس ضرورت سے انکار کیا ہے‘ ہم نے کشمیری رہنما کے ارشادات کی روشنی میں مقبوضہ کشمیر کی گزشتہ تین چار دہائیوں کی بدلتی ہوئی صورتحال کا جائزہ لیا ہے۔
بھارت کے ساتھ دو جنگوں اور مسلسل کشیدگی کے بعد مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں نے 1987ء کے کشمیری انتخابات میں بھرپور حصہ لینے اور پھر اسمبلی کے فورم سے آزادیٔ کشمیر کی جدوجہد کو جمہوری‘ سفارتی اور عالمی سطح پر آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا۔ بھارت اور پاکستان دونوں کے درمیان پائیدار امن کے قیام کیلئے یہ ایک نہایت مستحسن قدم تھا۔ اس الیکشن میں کشمیر کی ہم خیال کئی بڑی بڑی جماعتوں نے ''مسلم اتحاد‘‘ کے نام سے ایک انتخابی الائنس تشکیل دیا اور پورے جوش و خروش کے ساتھ الیکشن مہم چلائی۔ اس الائنس کو کشمیری ووٹروں کی طرف سے بھرپور پذیرائی ملی مگر الیکشن میں بدترین دھاندلی کی گئی۔ یوں بھارتی حکومت نے اعتدال پسند جماعتوں کا راستہ روکا۔ یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جب کشمیری نوجوان بہت دل برداشتہ ہوئے۔ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ بھارت اور اس کی کٹھ پتلی حکومت نے ہم پر اسمبلیوں کے دروازے بند کر کے ہمارے لیے احتجاجی اور جہادی مزاحمت کے علاوہ کوئی اور راستہ کھلا نہیں چھوڑا۔
حریت کانفرنس کے سیّد علی شاہ گیلانی نے 1989ء سے لے کر 2021ء میں اپنی وفات تک کشمیری تحریک آزادی کی جواں جذبوں کے ساتھ زبردست قیادت کی۔ اس دوران بھارت نے تقریباً دس لاکھ فوجیوں کی مدد سے وادیٔ کشمیر کے جذبۂ حریت سے سرشار نوجوانوں کی تحریک طاقت اور جبر کے خوفناک ہتھکنڈوں سے کچلنے کی کوشش کی۔ اس عرصے میں ایک لاکھ سے اوپر کشمیریوں کو شہید کیا گیا اور ہزاروں کو جیلوں میں ڈالا گیا ‘مگر جب کسی خطے کے لوگ من حیث القوم اپنی جان ہتھیلی پر رکھ لیتے ہیں تو پھر یہ قافلۂ سخت جاں کسی کے روکے رکتا نہیں۔ آہنی عزم وارادے کو شکست دینے کے لیے ابھی تک کوئی مشینری ایجاد نہیں ہوئی۔
ہمارے خیال میں اگر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے مقبوضہ کشمیر کے بھائی اور حکومتِ پاکستان مرحلہ وار کوئی پالیسی طے کر لیں تو خطے میں امن و امان بھی قائم ہو سکتا ہے اور آزادیٔ کشمیر کی منزل بھی قریب آ سکتی ہے۔ پہلے مرحلے میں ہندوستان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے اُس سے اہلِ کشمیر کے بنیادی انسانی حقوق اور وہاں آزادانہ انتخابات کی ضمانت حاصل کی جائے۔ اگرچہ اقبالؒ نے فرمایا تھا کہ
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد
اللہ نے ہمیں ایٹمی عصا عطا کر دیا ہے۔ اس لیے کلیمی اب کارِ بے بنیاد نہیں رہی۔ سیاسی محاذ اور کشمیر کی نیم خود مختاری کو مستحکم کرکے دوسرے مرحلے یعنی اُس حقِ خود ارادیت کی طرف تیز رفتاری سے پیش قدمی کی جا سکتی ہے۔ عالمی سطح پر زبردست سفارت کاری کے ذریعے یو این او کو کشمیر کے بارے میں اپنی قرار دادوں پر عمل درآمد کے لیے آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ اسی ایٹمی عصا کا اعجاز تھا کہ فروری 1999ء کو اُس وقت کے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی بس کے ذریعے اپنے سرکاری وفد اور میڈیا کے ساتھ لاہور آئے تھے۔ یہاں اعلانِ لاہور بھی ہوا تھا جس پر واجپائی اور اُس دور کے پاکستانی وزیراعظم میاں نواز شریف کے دستخط ثبت تھے۔ اس اعلان میں مسئلہ کشمیر سمیت تمام تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے خوش اسلوبی سے حل کرنے کی شقیں موجود تھیں۔ واجپائی ایک شاعر بھی تھے انہوں نے اپنے دورۂ لاہور کے دوران آئندہ جنگوں کو خیرباد کہنے اور امن و آشتی کے حوالے سے اپنی ایک نظم بھی پیش کی تھی۔ یہاں اس کی چند سطریں پیشِ خدمت ہیں:
جنگ نہ ہونے دیں گے
بھارت پاکستان پڑوسی ساتھ ساتھ رہنا ہے
پیار کریں یا وار کریں دونوں کو ہی سہنا ہے
تین بار لڑ چکے لڑائی کتنا مہنگا سودا
روسی بم ہو یا امریکی‘ خون ایک بہنا ہے
جو ہم پہ گزری بچوں کے سنگ نہ ہونے دیں گے
جنگ نہ ہونے دیں گے
یہ تو آگے چل کر وقت ہی بتاتا کہ واجپائی اعلانِ لاہور کو اس کی حقیقی روح کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف لاتے یا نہیں مگر اس سے پہلے ہی لداخ سیکٹر میں کارگل کا واقعہ پیش آ گیا۔ یوں اعلانِ لاہور پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ میاں نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے بے دخل کر کے جب جنرل پرویز مشرف خود اقتدار میں آئے تو انہیں اپنی مشرقی سرحد پر امن کے قیام اور مسئلہ کشمیر کو دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ پھر انہوں نے کامیاب سفارت کاری کے ذریعے 2001ء میں آگرہ میں بھارتی وزیراعظم واجپائی کے ساتھ مذاکرات کا اہتمام کیا۔ ان مذاکرات سے اچھی توقعات وابستہ کر لی گئی تھیں کہ خطے میں امن بھی قائم ہو گا اور مسئلہ کشمیر کا مستقل حل بھی نکلے گا۔ مگر اس مرتبہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بنیاد بنا کر بھارت کے بعض شدت پسندوں نے مذاکرات کامیاب نہ ہونے دیے۔
دونوں ممالک کے مابین 2003ء میں سیز فائر کے معاہدے کے بعد 2004ء سے 2008ء تک مختلف سطحوں پر کمپوزٹ ڈائیلاگ ہوتے رہے۔ بات کافی آگے بڑھی مگر 2008ء میں ممبئی میں نامعلوم لوگوں نے حملے کیے۔ بھارت نے ان دھماکوں کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال دی۔ اس طرح بات بننے کے بجائے بگڑ گئی۔ جنگ سے بچنے اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے دوطرفہ کوششیں جاری رہیں۔ 2017ء سے لے کر 2019ء تک پاکستان اور بھارت کے درمیان بیک چینل ڈپلومیسی چلتی رہی اور ایک مرتبہ پھر شجرِ امید ثمر بار دکھائی دینے لگا مگر بھارت کے متعصب حکمران نریندر مودی اور اس کی جماعت نے ان کوششوں پر پانی پھیر دیا اور 2019ء میں کشمیر کو نیم خود مختار سٹیٹس کی ضمانت دینے والی شق 370کو لوک سبھا سے بھارتی دستور سے خارج کروا دیا۔
بھارت اور پاکستان دو پڑوسی ایٹمی قوتیں ہیں اگر انکے درمیان جنگ ہوتی ہے تو سوائے تباہی و بربادی کے اس خطے میں کچھ نہیں بچے گا۔ جناب قاضی حسین احمد نے پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کا آئیڈیا دیا تھا جس پر کئی برس سے سارے پاکستان میں سرکاری و عوامی سطح پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ پیر کے روز جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے اسلام آباد میں قومی کشمیر کانفرنس کے موقع پر ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے جناب مشاہد حسین سیّد کی سربراہی میں فرینڈ اینڈ کشمیر کے نام سے ایک فورم قائم کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔دونوں پڑوسی ممالک ایک بار پھر ڈائیلاگ کی طرف آئیں کیونکہ دوطرفہ تباہی و بربادی سے بچنے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کا یہی طریقہ ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں