مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما رانا ثنا اللہ بعض اوقات دلچسپ انداز میں کوئی لطیف نکتہ بیان کر دیتے ہیں۔ دو تین روز قبل انہوں نے ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں عدلیہ میں آنے والی مختلف تبدیلیوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ججز کے دفاتر کی دیواریں سانجھی ہیں پھر بھی نجانے کیوں وہ ایک دوسرے سے بات کرنے کے بجائے خطوط لکھنے کو ترجیح دیتے ہیں؟ اس پر مجھے فارن سروس کے ایک آفیسر جناب عبید الرحمن نظامانی کا سنایا ہوا ایک شعر یاد آ گیا۔
کئی برس قبل طائف میں اُن سے بے تکلف ملاقات ہوئی۔ انہوں نے اس موقع پر سندھی زبان کا ایک شعر سنایا جس کا مفہوم یہ تھا کہ ''میرے اور تمہارے گھر ساتھ ساتھ واقع ہیں مگر کچھ دنوں سے محسوس یہ ہو رہا ہے کہ اُن کے درمیان فاصلہ بہت بڑھ گیا ہے‘‘۔ جب دلی اور ذہنی قربت ہو تو پھر دیواریں بھی درمیان میں حائل نہیں ہوتیں مگر جب بوجوہ فاصلے بڑھ گئے ہوں یا بڑھا دیے گئے ہوں تب یہی دیواریں آپس کے کمیونیکیشن میں سدِّ سکندری بن کر کھڑی ہو جاتی ہیں۔اسی طرح اسلام آباد میں تمام ادارے قریب قریب ہی واقع ہیں مگر جب اُن کے درمیان فاصلے بڑھ چکے ہوں تو پھر عام سے تبصرے اور ریمارکس بھی خاصے تلخ محسوس ہوتے ہیں۔
جناب ایاز صادق سے میری سرسری سی ایک دو ملاقاتیں ہوں گی مگر میں اُن کی عمومی شخصیت کا بہت مداح ہوں۔ میرے بعض احباب کے اُن سے بہت قریبی روابط ہیں۔ اُن کے ذریعے سپیکر قومی اسمبلی کا جو امیج میرے ذہن میں قائم ہوا ہے‘ وہ بھی بہت مثبت ہے۔ میں بطور خاص اُن کی سنجیدگی‘ متانت‘ قوتِ برداشت اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت سے بہت متاثر ہوں۔ یہی وہ اوصاف ہیں جو ایک سپیکر میں ہونے چاہئیں۔
مسلم لیگ (ن) کے باقی فرنٹ لائن کھلاڑیوں کے بارے میں تو تبصرہ نہیں کرتا مگر ایاز صادق کے بحیثیت سپیکر انتخاب کو حسنِ انتخاب ہی کہا جائے گا۔ہم نے اُن کے موجودہ دور میں دو بار اُن کی برہمی کو دیکھا ہے۔ پہلی بار تو اُن کی برہمی قابلِ داد تھی۔ اس برہمی کو ہر سنجیدہ فورم پر بہت سراہا گیا؛ البتہ اس بار ایک جج کے ریمارکس پر اُن کی برہمی کو قابلِ تشویش گردانا گیا ہے۔
ستمبر 2024ء میں پی ٹی آئی کے اسلام آباد میں مارچ کے موقع پر اسی جماعت کے دس ممبرانِ قومی اسمبلی نے پارلیمنٹ کے اندر پناہ لے لی۔ پولیس نے اسمبلی کی عمارت کے اندر داخل ہو کر باقاعدہ 'ہنٹ‘ کر کے انہیں گرفتار کر لیا۔اس پرجناب ایاز صادق بہت برہم ہوئے۔ اگلی صبح انہوں نے آئی جی اسلام آباد کو طلب کیا‘ اس کی سرزنش کی اور اسے حکم دیا کہ فی الفور دس کے دس ممبرانِ اسمبلی کو رہا کرے۔ تاہم اس بار چند روز قبل اُن کی برہمی بلکہ سرگرانی پہلے سے کہیں شدید تھی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک جج نے جو سی ایس ایس کے 2024ء کے امتحانات کے نتائج کے اب تک اعلان نہ ہونے اور 2025ء کے امتحانات کے انعقاد پر دائر کردہ ایک درخواست کی سماعت کے دوران کچھ ریمارکس دیے۔ عمومی نوعیت کے ان ریمارکس میں فاضل جج نے کہا کہ عدلیہ‘ پارلیمنٹ اور انتظامیہ سمیت تمام ستون منہدم ہو چکے ہیں‘ عدلیہ کا ستون ہوا میں ہے مگر ہم پھر بھی مایوس نہیں۔عدلیہ کی ہمیشہ یہ روایت رہی ہے کہ وہ دورانِ سماعت اس طرح کے ریمارکس دیتی رہتی ہے۔ ان ریمارکس پر جناب ایاز صادق اپنی کمپوزڈ شخصیت کے برعکس یکدم طیش میں آ گئے۔ اس پر انہوں نے ایک رولنگ بااندازِ وارننگ عدلیہ کو جاری کی۔ ان کے ردعمل کا مطلب تو یہ ہوا کہ اعلیٰ عدالتوں میں بہت کچھ مینج کرنے کے بعد اب وہ ججز کی زباں بندی کا حکم بھی صادر فرما رہے ہیں۔ جناب سپیکر! آپ سے بڑھ کر اسے کون جانتا ہے کہ عدلیہ جتنی باوقار اور بااختیار ہوگی اسی میں سب کا بھلا ہے آج کی حکومت کا بھی اور کل کی اپوزیشن کا بھی۔
ہم نے صحافت کے اساتذہ سے سن رکھا تھا کہ عدلیہ اور دفاعی اداروں کے بارے میں لکھتے یا بولتے ہوئے سنبھل کے چلو‘ یوں سمجھو کہ تم پل صراط سے گزر رہے ہو۔ اب سپیکر صاحب کی برہمی سے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ عوام کو اپنے منتخب کردہ ارکانِ اسمبلی کی پارلیمنٹ کے اندر کارکردگی کا جائزہ لینے کا بھی شاید حق نہیں۔ گویا پارلیمنٹ کے بارے میں بات کرنے سے پہلے یہ ذہن نشین کرنا ہوگا کہ اس پر تنقید بھی پل صراط سے گزرنے کے مترادف ہے۔
گزشتہ دنوں جھٹ منگنی پٹ بیاہ کے انداز میں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں جو قانون سازی ہوئی‘ بطور خاص 26ویں آئینی ترمیم اور پیکا ایکٹ‘ کیا اس پر تنقید و تبصرہ کا استحقاق ووٹروں کو ہے یا نہیں؟سیاسی طور پر ترقی یافتہ قومیں اہم معاملات میں قانون سازی سے پہلے بل کا مسودہ اخبارات میں شائع کرا دیتی ہیں تاکہ عوامی رائے عامہ کھل کر سامنے آ جائے۔پھر بل تیار کیا جاتا ہے اور پھر اسمبلی میں اس پر آزادانہ بحث ہوتی ہے مگر آج کل پارلیمنٹ میں ایسا کوئی تکلف نہیں کیا جا رہا۔ مگر حیران کن مشاہدہ یہ ہے کہ جب ہمارے سیاستدان اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو وہ آزادیٔ اظہار اور آزاد عدلیہ کے سب سے بڑے علمبردار ہوتے ہیں مگر جب وہی برسراقتدار آجاتے ہیں‘ تب وہ شہری آزادیوں پر پابندیاں لگانے اور آزاد میڈیا کے پَر کاٹنے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔
عمران خان کی حکومت نے اسی پیکا ایکٹ جیسا قانون صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نافذ کیا تھاتو اس پر تنقید کرنے والوں میں بطور اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف پیش پیش تھے۔ اس وقت انہوں نے احتجاج کرنے والے صحافیوں کے کیمپوں میں جا کر ان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا تھا۔ اگرچہ جناب ایاز صادق اپنی جماعت کہ جو اِن دنوں میاں شہباز شریف کی ''عملی سیاست‘‘ کی پیروکار ہے‘ کی پالیسیوں کے پابند ہیں۔ ہر چند سپیکر اپنی پارٹی کی طے کردہ لائن کو لے کر چلتا ہے تاہم وہ بحیثیت سپیکر اپنی جماعتی سیاست سے ماورا بھی بہت سی ذمہ داریوں کا امین ہوتا ہے۔ محترم سپیکر صاحب کو یہ بھی باور کر لینا چاہیے کہ بے شک پارلیمنٹ سپریم ہے مگر عدلیہ بھی ملک کا ایک واجب الاحترام خود مختار ادارہ ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ پارلیمنٹ بھی آئینی حدود و قیود کی پابند ہے۔ جہاں پارلیمنٹ ماورائے آئین کوئی قانون سازی کرے گی یا کوئی رولنگ دے گی‘ تو وہاں اسے عوامی و قانونی جوابدہی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
جناب ایاز صادق نہایت سنجیدگی کے ساتھ مذاکرات کے پروگرام کو لے کر آگے بڑھ رہے تھے۔ ہم نے اس وقت بھی لکھا تھا کہ موجودہ اور سابق سپیکر قومی اسمبلی جناب اسد قیصر دونوں نہایت سنجیدہ اور بردبار شخصیات ہیں جو مذاکرات کو روزمرہ احتجاجی طوفانوں سے نکال کر کنارے لگا لیں گے مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔ شاید بانی پی ٹی آئی کو اُن کے بعض دوستوں نے یہ سمجھا رکھا ہے کہ اگر انہوں نے اپنے رویے میں کوئی لچک پیدا کی تو ان کی سیاسی ساکھ بہت متاثر ہوگی۔ خان صاحب جتنا جلدی اس تاثر سے باہر آ جائیں اتنا ہی اُن کی سیاست اور جماعت کے لیے بہتر ہوگا۔
جناب ایاز صادق ججز کے عمومی ریمارکس پر زیادہ برہم ہونے کے بجائے اس وقت ملکی سیاست میں جاری ہیجان اور عدم استحکام کے خاتمے پر توجہ دیں اور حکمت و تدبر کے ساتھ تاریخی کردار ادا کریں۔