مرزا غالب کی شعری عظمتوں اور رفعتوں کا صرف اُردو داں طبقہ ہی مداح نہیں بلکہ ایک عالم معترف ہے۔ انہوں نے اپنی غزلوں میں وہ سماں باندھا ہے کہ دنیا تقریباً دو صدیوں سے اُن کے گن گا رہی ہے۔ دوسری طرف مرزا نے اپنے اُردو اور فارسی کلام میں انفس و آفاق پر شاعرانہ انداز سے ایسی کمند ڈالی ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ وہ نفسیات کا مطالعہ کیے بغیر اس میدان میں سگمنڈ فرائیڈ کو پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔
پہلے ذرا غالب کی غزلوں کے سہل ممتنع اشعار دیکھئے۔
تھی وہ اک شخص کے تصور سے
اب وہ رعنائیِ خیال کہاں
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
مرزا غالب 1797ء میں اس جہاں میں آئے جبکہ سگمنڈ فرائیڈ 1856ء میں پیدا ہوئے۔ فرائیڈ نے انیسویں صدی کے اواخر یا بیسویں صدی کے اوائل میں کہیں ناآسودہ خواہشات کے حوالے سے کتھارسس اور خوابوں کا نظریہ پیش کیا ہوگا مگر مرزا نے اپنے تخیّل کی پرواز اور سوچ کی گہرائی سے اس کے بارے میں مدتوں پہلے کیا کہا تھا:
دل میں پھر گریہ نے اک شور اُٹھایا غالبؔ
آہ جو قطرہ نہ نکلا تھا سو طوفاں نکلا
تاہم آج یہ طالبعلم آپ کی خدمت میں مرزا اسد اللہ غالب کی دوربینی‘ دوراندیشی اور مردم شناسی کا ایک حیران کن پہلو اجاگر کرنے والا ہے۔ میری معلومات کے مطابق غالب کی شخصیت کی اس جہت کے بارے استاذِ گرامی جناب ڈاکٹر خورشید رضوی نے اردو ادب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنی کتاب ''اطراف‘‘ کے گراں قدر مضمون ''غالب اور سر سیّد‘‘ میں توجہ دلائی ہے۔ استاذِ محترم اُردو‘ عربی اور فارسی تینوں زبانوں کی لسانی و ادبی لطافتوں کے گہرے رمز شناس ہیں۔
یاد رہے سر سیّد 1817ء میں پیدا ہوئے۔ اس حوالے سے غالب اُن کے بزرگوں میں شمار ہوتے تھے۔ 1847ء میں جب سرسیّد نے دہلی کی قدیم عمارات اور وہاں کے یکتائے روزگار لوگوں کے بارے میں اپنی مشہور تصنیف ''آثار الصنادید‘‘ شائع کی تو اس کی ابتدا ہی میں مرزا غالب کا تذکرہ رقم کیا اور اُن کی شخصیت کے وصف نیز نمونۂ نظم و نثر پر مشتمل ایک طویل شذرہ لکھا۔اسی تعلقِ خاطر کے باعث مرزا غالب نے اس کتاب کے بارے میں پُرتکلف فارسی میں تقریظ لکھی اور سر سیّد کی تعریف و توصیف کی۔
قارئین کرام! مرزا غالب کا اصل حیران کن کارنامہ تو ابھی آگے آ رہا ہے۔ سر سیّد نے آثار الصنادید کی اشاعت کے کوئی آٹھ برس بعد ''آئینِ اکبری‘‘ کی تصحیحِ متن کا کام بے حد عرق ریزی اور جانفشانی سے کیا۔ سر سیّد نے ایک بار پھر اپنے اس اہم تحقیقی کام پر اپنے بزرگ محترم مرزا غالب سے تقریظ لکھوائی۔ لیکن اس بار مرزا نے جو بزبانِ فارسی منظوم تقریظ لکھی وہ یکسر غیر متوقع تھی۔ اس کا لب لباب یہ ہے کہ ''آئینِ اکبری‘‘ کے دفترِپارینہ کو زندہ کرنے کیلئے سر سیّد جیسے باصلاحیت آدمی کا اس قدر محنت کرنا وقت کا زیاں ہے۔ یہ وقت آئینِ اکبری پر نگاہِ بازگشت ڈالنے کا نہیں بلکہ انگریزوں کے دستور و آئین سے نظر ملانے کا ہے جنہوں نے عناصرِ فطرت کو تسخیر کرکے نو بہ نو ایجادات کی ہیں اوربحر و بر پر اپنا سکہ رواں کر دیا ہے۔ انگریز تقریباً دو صدیوں تک انڈیا پر قابض رہے۔ پہلے ایسٹ انڈیا کی شکل میں اور بعد میں براہِ راست برٹش راج کے ذریعے برصغیر کے 1947ء تک مالک و مختار رہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ مرزا کی اس دنیا میں آمد سے پہلے ہی انگریز یہاں پوری طرح آ چکے تھے۔ مرزا کچھ مدت کیلئے دہلی سے کلکتہ جا کر بھی مقیم ہوئے جہاں انہوں نے بچشم خود انگریزوں کے بحری جہازوں اور کئی دیگر ایجادات کا مشاہدہ کیا۔
استاذِ محترم ڈاکٹر خورشید رضوی نے سر سیّد کی کتاب کے بارے میں مرزا غالب کی منظوم فارسی تقریظ کا دلکش اردو نثر میں ترجمہ کیا ہے۔ ہم یہاں اس ترجمے کے کچھ حصے پیش کر رہے ہیں۔ مرزا سر سیّد کو مخاطب کر کے لکھتے ہیں ''آنکھ کھول کر اس دیرِکہن میں اہلِ انگلستان کو دیکھو۔ اور اُن کے شیوہ و انداز پر نظر ڈالو کہ انہوں نے کیسے کیسے آئین پیدا کیے ہیں۔ ان لوگوں نے پانی پر کیا منتر پڑھ دیا ہے کہ دھواں (بھاپ) پانی میں کشتی کھیتا ہے۔ اور کبھی روئے زمیں پر پہیہ چلاتا ہے۔ وہ گھڑی میں سو کوس سے پیغام لے آتے ہیں۔ مرزا سر سیّد کو مزید نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: صاحب ِہوش لوگوں کے کام پر نظر ڈالو اور ہر آئین میں نئی طرح کے سو کام دیکھو۔ اس آئین کے آگے دیگر آئین پرانی جنتری کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ اے بیدار مغز دانش مند (سر سیّد) اُٹھو اور خوب سے خوب ترکی جستجو کرو۔ غالب لکھتے ہیں :سیّد احمد خان جو سر سے پاؤں تک علم اور شکوہ کی تصویر ہے‘ اسے ہر خواہش کا حصول خدا کی طرف سے میسر رہے۔ یہاں ''آئین‘‘ سے غالب کی مراد افکار و نظریات اور ایجادات ہیں ۔ تاریخ داں نہ ہونے کے باوجود آنے والے زمانوں کے بارے میں غالب کا وژن حیران کن ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر غالب کا بہت بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے انگریزوں کے طرزِ فکر اور اُن کی علمی ترقی کو سمجھنے اور اپنی قوم کو سمجھانے کا فریضہ جس شخص کے ذمے لگایا وہ اس کیلئے موزوں ترین تھا۔ بعد ازاں سر سیّد کے علی گڑھ یونیورسٹی کے قیام‘ علومِ جدیدہ کی بزبان انگریزی تحصیل اور انگریزوں کی ایجادات و سائنسی ترقی سے استفادہ کرنے کی تلقین جیسے کارناموں نے ثابت کر دیا کہ مرزا غالب کی نگہ انتخاب نے ہی سر سید کے ذریعے مسلمانانِ ہند کی سیاسی آزادی اور علمی ترقی کی راہ کشادہ کی۔
مرزا غالب کی ولادت کے تقریباً 80 برس بعد 1877ء میں علامہ اقبال اس دنیا میں وارد ہوئے۔ اقبال مشرقی زبانوں کے علاوہ بہت بڑے انگریزی دان بھی تھے اور انہوں نے برطانیہ اور جرمنی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر رکھی تھی۔ وہ اُردو اور فارسی کے بلند پایہ شاعر تھے۔ وہ مسلمانانِ ہند ہی نہیں ملتِ اسلامیہ کے شاعر ہیں۔ اقبال بھی علوم جدیدہ کے حصول کو مسلمانوں کیلئے بہت ضروری سمجھتے تھے۔ انہوں نے بھی فرمایا تھا:
آئینِ نو سے ڈرنا طرزِ کہن پہ اَڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
اقبالؒ نے نہ صرف مسلمانانِ ہند کو تصورِ پاکستان دیا بلکہ اس تصور کو حقیقت کا روپ دینے کیلئے محمد علی جناح جیسی عظیم المرتبت شخصیت کا انتخاب بھی کیا۔ جناح نے شبانہ روز محنت سے اقبال کے خواب کو حقیقت کا روپ دیا اور پاکستان جیسا عظیم مسلم ملک قائم کر دکھایا۔ مرزا غالب کی نصیحت کو ایک بار پھر یاد کیجئے کہ انگریزوں کے افکار و ایجادات کے آگے دیگر آئین پرانی جنتری کی حیثیت اختیار کر گئے۔
آج چیٹ جی پی ٹی اور چینی ڈیپ سیک کے دور میں ہماری سوچ اور اپروچ پرانی جنتری کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمیں بھی ترقی یافتہ دنیا کے ہم قدم ہونے کیلئے بہت سے غیر ضروری کاموں سے دامن چھڑا کر درست سمت میں تیزی سے گامزن ہونے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔