پاکستان کو درپیش سماجی‘ اقتصادی اور سیاسی چیلنجز اُن ممالک کی کہانی سے حیرت انگیز مماثلت رکھتے ہیں جو اپنے دیرپا مقاصد کو اپنے ملکوں میں طرزِ کہن یعنی ''سٹیٹس کو‘‘ سمجھ کر توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان کا سماج ان مشکلات کی کسی نہ کسی جگہ‘ کوئی نہ کوئی واضح جھلک پیش کرتا ہے۔ ان سطور میں ہم پاکستان کے سماجی‘ اقتصادی اور سیاسی منظرنامے میں دیگر ممالک کے ساتھ مماثلت کا جائزہ لیں گے تاکہ ان عوامل کو سمجھا جا سکے جو اس صورتحال کے پس منظر میں کارفرما ہوتے ہیں۔
سماجی واقتصادی عدم مساوات ایک عالمی مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ تیسری دنیا کے سبھی ممالک کو درپیش ہے۔ طبقاتی تقسیم اور سماجی عدم مساوات صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ کئی ترقی پذیر ممالک کی حقیقت ہے‘ تاہم پاکستان میں عدم مساوات کے بنیادی مسائل کافی سنگین ہیں۔ یہاں جاگیردارانہ طرز کا زمینداری نظام‘ ناقص ٹیکس وصولی نظام اور غیر دستاویزی معیشت جیسے عوامل اس تقسیم کو گہرا کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے پاکستان برازیل جیسے ممالک سے مماثلت رکھتا ہے‘ جہاں عدم مساوات پائیدار ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ دونوں ممالک میں تعلیم اور صحت کے نظاموں میں کم ترین سرمایہ کاری کی روش نسل در نسل غربت کو بڑھاتی ہے‘ جس سے لاکھوں افراد کے لیے ترقی کے مواقع محدود ہو جاتے ہیں۔
پاکستان کا سیاسی منظرنامہ‘ جو غیر جمہوری مداخلتوں‘ کمزور جمہوری اداروں اور گورننس کے بحرانوں سے عبارت ہے‘ نوآبادیاتی افریقی ممالک مثلاً نائیجیریا کے حالات سے مشابہت رکھتا ہے۔ دونوں ممالک نوآبادیاتی دور کی ''تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی حکمت عملی سے متاثر رہے ہیں جس نے ان تقسیم شدہ معاشروں کو آج بھی اقتدار کی کشمکش کا شکار بنا رکھا ہے۔
پاکستان میں شناخت کی سیاست کے مسائل‘ چاہے وہ نسلی‘ مذہبی لسانی یا طبقاتی ہوں‘ نوآبادیاتی دور کے بعد کے ممالک‘ جیسے سوڈان کے چیلنجز سے مشابہت رکھتے ہیں۔ شناخت کی سیاست اکثر اہم سماجی واقتصادی مسائل سے توجہ ہٹا دیتی ہے۔ حکومتی اداروں کو شفاف‘ جوابدہ اور مستحکم بنا کر ترقی کے لیے ایک بنیاد فراہم کی جا سکتی ہے۔
بار بار حکومت کی تبدیلی اور کرپشن کے سکینڈل ملکی نظام پر عوامی اعتماد کو کمزور کرتے ہیں۔ گورننس کے لیے مستقل وژن کی کمی ایک ایسا خلا پیدا کرتی ہے‘ جسے اکثر مقبولِ عام نعروں سے پُر کیا جاتا ہے۔ یہ سیاسی عدم استحکام سماجی واقتصادی اصلاحات میں بھی رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔
پاکستان کا بیرونی مالی امداد پر انحصار جنوبی ایشیا اور افریقی صحارا ممالک سے مشابہت رکھتا ہے۔ سری لنکا اور مصر جیسے ممالک نے قرضوں کے جال میں پھنس کر ایسے منصوبوں پر سرمایہ کاری کی جو اقتصادی فوائد دینے میں ناکام رہے۔
پاکستان میں شہری ترقی کی رفتار‘ جو آبادی میں اضافے اور دیہی علاقوں سے شہروں کی طرف ہجرت سے متاثر ہے‘ بھارت کے بڑے شہروں ممبئی اور کلکتہ کی شہری صورتحال سے ملتی جلتی ہے۔ دونوں ممالک میں بے قابو شہری پھیلائو نے کچی آبادیوں‘ ماحولیاتی خرابی اور عوامی خدمات کی ناکافی فراہمی جیسے مسائل کو جنم دیا ہے۔ رہائشی بحران‘ صفائی ستھرائی اور ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچے کے مسائل کو حل کرنے میں ناکامی شہروں کے اندر سماجی واقتصادی تفاوت کو بڑھاتی ہے۔ یہ غیر منصوبہ بند ترقی عوامی بے چینی کو پروان چڑھاتی ہے‘ جو اکثر سیاسی بدامنی یا سماجی تحریکوں کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔
اس وقت صورتحال یہ نظر آتی ہے کہ ملک اقتصادی بحران کا شکار ہے اور ایک بحران سے نکلتا ہے تو دوسرے کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ ہے معیشت کے ساختی نظام کی خرابیاں۔ منصفانہ ٹیکس نظام اور ملکی وسائل کو متحرک کر کے بیرونی امداد پر انحصار کو کم کیا جا سکتا ہے۔ حکومتوں کی مدت سے آگے بڑھ کر‘ طویل مدتی سیاسی واقتصادی وژن ترقیاتی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔ سماجی ہم آہنگی‘ جامع طرزِ حکمرانی اور وسائل کی منصفانہ تقسیم اس سماجی خلیج کو ختم کر سکتی ہے جس کے ساتھ معاشی ترقی ممکن نہیں ہے۔
یہ ایک قابلِ عمل اور ناگزیر راستہ ہے مگر چونکہ حکمران اشرافیہ کے کچھ طبقات کی اجارہ داری کو ختم کر سکتا ہے اس لیے وہ اس سے گریزاں رہتے ہیں مگر یہ راستہ عوام کی بڑی اکثریت کو ترقی کے راستے پر گامزن کر سکتا ہے۔ چیلنجز کے باوجود‘ پاکستان میں نوجوان آبادی‘ قدرتی وسائل اور سٹریٹجک جغرافیائی پوزیشن جیسی صلاحیت سے ترقی کو مہمیز دینا ممکن ہے۔ پاکستان میں ہم آہنگی کا فقدان ایک بڑا مسئلہ ہے‘ اپنی تاریخ اور دیگر ممالک کے تجربات سے سبق سیکھ کر پاکستان انفرادی جدوجہد کو اجتماعی جدوجہد میں تبدیل کر سکتا ہے۔ پاکستان کا نوجوان گھر بیٹھ کر ملک میں کسی انقلاب کا انتظار نہیں کر سکتا۔ انقلاب ایک مسلسل عمل کا نام ہے جس میں ہر شعبۂ زندگی میں کوئی نہ کوئی تبدیلی آتی رہتی ہے۔ اب 1917ء کا بالشویک انقلاب یا کوریا اورکیوبا کا انقلاب غیر متعلق ہو گئے ہیں۔ انقلاب کے لیے اب نئے راستے تلاش کرنا ہوں گے۔
یوکرین میں جاری جنگ اور چین اور امریکہ کی بڑھتی کشیدگی نے دنیا بھر میں دفاعی اخراجات اور معاشی غیر یقینی کی بدتر ہوتی صورتحال کو بڑھاوا دیا ہے۔ یکساں ٹیکس فریم ورک اب وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یورپی یونین کارپوریٹ ٹیکس کی شرحوں کو ہم آہنگ کرنے کی اپنی کوششوں کو آگے بڑھا رہی ہے تاکہ ممبر ممالک کے درمیان مسابقت کو کم کیا جا سکے اور ٹیکسوں کو بہتر بنایا جا سکے۔ ہائی ٹیک فرموں کے لیے ٹیکس کے میدان میں ہائی ٹیک ٹیکنالوجی کا استعمال ضروری ہے تاکہ ٹیکس اکٹھا کرنے کے نظام کو جدید تر بنایا جا سکے۔ ایک اجتماعی شرح‘ کم از کم کارپوریٹ ٹیکس کی شرح پر تعاون سے محصولات کے سلسلے کو مستحکم کرنے اور ٹیکس چوری کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔ جغرافیائی سیاسی تبدیلیوں سے معاشی خطرات کو کم کرنے اور مستحکم ٹیکس کی بنیاد کو مضبوط بنانے کے لیے جدید تجارتی ٹیکنالوجی کا استعمال ضروری ہے۔ ٹیکنالوجی کی جدت کو استعمال کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانا کہ نئے ٹیکس غیر متناسب نہ ہوں‘ کم آمدنی والی آبادی پر اثر انداز نہ ہوں‘ اس طرح عدم مساوات سے بچا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ہر شعبے‘ ہر ادارے اور ہر یونین کے لوگ اپنے اپنے تجربات سے فائدہ اٹھائیں۔ سرکاری ادارے ٹیکس کے نفاذ اور ٹیکس اکٹھا کرنے کے عمل میں کامیاب ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ان ملکوں کی آمدن اور کامیابیوں کے گن گانے کے بجائے ان کی کامیابیوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے عملی اقدامات کریں۔ عالمی مسابقت کا معاشی نظام پر جو منفی اثر پڑ رہا ہے‘ عملی طور پر متحرک ہو کر اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
سیاست میں بڑھتا ہوا پاپولزم پوری دنیا کیلئے ایک ابھرتا ہوا سنگین چیلنج ہے۔ معاشی تناؤ اور ٹیکس پالیسیوں میں عدم مساوات قوم پرست اور پاپولسٹ تحریکوں کو ہوا دے سکتی ہے‘ اس لیے ان عوامل کا مقابلہ کرنا ضروری ہے۔ ٹیکس کی ناکافی آمدنی صحت کی دیکھ بھال‘ تعلیم اور بنیادی ریاستی ڈھانچے جیسے اہم شعبوں میں سرمایہ کاری میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ بدلتے ہوئے جغرافیائی سیاسی حقائق کا تیزی سے جواب دینے کیلئے ٹیکس کے نظام میں لچک پیدا کرنا اور قابلِ اطلاق مالیاتی پالیسیوں کی تشکیل ضروری ہے۔ بجٹ کو مستحکم کرنے اور افراطِ زر کو کنٹرول کرنے کیلئے غیر مستحکم بیرونی توانائی کے ذرائع پر انحصار کو کم کرنا اور توانائی کی آزادی لازم ہے۔ اقتصادی لچک کو فروغ دینے کیلئے علاقائی ممالک اور مختلف مالیاتی اداروں اور تنظیموں کے رکن ممالک کے ساتھ تعاون کو مضبوط بنانا لازم ہے۔