پاکستان بہتر سفارت کاری سے نئے عالمی تعلقات کا خواہاں ہے۔ اس کام کا آغاز ایسے ممالک سے ہونا چاہیے جن سے پاکستان کے تعلقات خراب ہیں۔ اگرچہ یہ ایک مشکل کام ہے لیکن یہ کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ افغانستان اور بھارت سمیت جن جن ممالک کے ساتھ سفارتی سطح پر تلخیاں یا تناؤ ہے‘ اسے کم کرنا ناگزیر ہے۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ پڑوسی اور روایتی طور پر دشمن تصور کیے جانے والے ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لائے بغیر سفارتی میدان میں کسی بڑی کامیابی کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ اگرچہ سفارتی حلقوں کی رائے مختلف ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس حوالے سے بہت کوشش ہو چکی‘ یہ برف پگھلنے کے امکانات کم ہیں۔
پاکستان کی عالمی سفارتکاری میں ایک حالیہ پیشرفت بیلا روس کے صدر الیگزینڈر لوکاشنکو کا دورۂ پاکستان ہے۔ اس دورے سے دو طرفہ تعلقات میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا جس سے یہ تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔ اس دورے میں بیلا روس کے اعلیٰ سطحی وفد کی اہم پاکستانی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتیں ہوئیں۔ بیلا روس نے خطے میں سٹرٹیجک لحاظ سے ایک اہم ملک کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دیا ہے۔یہ دورہ بیلاروس کے جنوبی ایشیائی خطے میں اپنے تعلقات کو وسعت دینے کے ارادے کا مظہر تھا۔ یہ دورہ عالمی سیاسی اتحادوں میں تبدیلی کا اظہار بھی تھا۔ تاریخی طور پر بیلاروس‘ روس اور مشرقی یورپ کے ساتھ زیادہ قریب رہا ہے لیکن حالیہ برسوں میں اس نے تیزی سے اپنے خارجہ تعلقات کو متنوع بنانے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان جنوبی ایشیائی خطے میں اپنی مضبوط اقتصادی اور تزویراتی اہمیت کے ساتھ طویل عرصے سے علاقائی معاملات میں ایک اہم کھلاڑی رہا ہے۔ بیلاروس اس خطے میں نسبتاً چھوٹی لیکن اُبھرتی ہوئی معیشت ہے۔ یہ پاکستان کو تجارت‘ سرمایہ کاری اور مختلف شعبوں میں تعاون کیلئے ایک اہم پارٹنر کے طور پر دیکھتا ہے۔ پاکستان بھی مشرقی یورپ کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسعت دینے کا خواہاں ہے اور بیلاروس کے صدر کا دورہ باہمی اقتصادی تعلقات کو مزید گہرا کرنے اور سفارتی تعاون کو وسیع کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ بیلاروس مشینری‘ بھاری صنعتوں اور زرعی آلات جیسے شعبوں میں ترقی یافتہ صنعتوں والا ملک ہے۔ ظاہر ہے اس دورے کا مقصد اقتصادی تعاون کو مضبوط بنانا ہے۔ اس کے ساتھ اس طرح کا کوئی مسئلہ بھی درپیش نہیں جو عموماً چھوٹے ممالک کے ساتھ ہوتا ہے۔ روس کے ساتھ اس کے تعلقات کی ایک خاص سطح پر ہیں لیکن یہ تعلقات مواقع اور امکانات کا دروازہ بھی کھولتے ہیں۔ بیلاروس کے دورۂ پاکستان کا ایک اہم محور اقتصادی تعاون کا فروغ تھا۔ دونوں ممالک کے مابین دو طرفہ تجارت حالیہ برسوں میں بہت معمولی رہی ہے لیکن صدر بیلا روس کے دورے کے دوران دونوں فریقوں نے اس فرق کو دور کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ دونوں ممالک کے مابین زراعت‘ دفاع‘ توانائی اور اعلیٰ ٹیکنالوجی سمیت متعدد شعبوں میں تعاون کے وسیع امکانات موجود ہیں۔
بیلا روس اپنی مضبوط صنعت کے لیے جانا جاتا ہے۔ خاص طور پر مشینری‘ آٹو موٹو اور زرعی آلات کے حوالے سے‘ جن کی پاکستان جیسی ترقی پذیر مارکیٹ میں بہت زیادہ ضرورت ہے۔ دونوں ممالک نے مشترکہ منصوبوں اور تکنیکی تعاون کو بڑھانے کے طریقوں پر بھی تبادلۂ خیال کیا ہے۔ پاکستان اپنے بڑھتے ہوئے صنعتی شعبے کے ساتھ اپنی مشینری اور ٹیکنالوجی کے ذرائع کو متنوع بنانے کا خواہاں ہے۔ یہاں صنعتی ترقی نہ ہونا ہمیشہ سے ایک سنگین مسئلہ رہا ہے۔ اور بیلاروس اس سلسلے میں ایک قابلِ قدر شراکت دار بن کر اُبھر سکتا ہے۔ یہ زرعی اور صنعتی ٹیکنالوجی منتقل کر سکتا ہے جو اسے سابق سوویت یونین سے بڑے پیمانے پرورثہ میں ملی۔
مزید برآں دونوں ممالک زرعی شعبے میں تعاون کو وسعت دینے کے خواہاں ہیں۔ بیلاروس زرعی مشینری اور جدید کاشتکاری کی تکنیکوں میں مہارت کی پیشکش کر رہا ہے۔ یہ پاکستان جیسے ملک جہاں زراعت معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے‘ کیلئے قابلِ قدر شراکت داری ہو سکتی ہے۔ دفاع اور سلامتی میں تعاون دورے کا ایک اور اہم پہلو تھا۔ دفاعی اور سکیورٹی تعاون اس دور میں غیر ملکی تعلقات کا سب سے اہم مقصد ہوتا ہے جبکہ پاکستان کے امریکہ جیسے ممالک کے ساتھ بھی دیرینہ تعلقات ہیں‘ لہٰذا وہ اپنی دفاعی شراکت داری کو متنوع بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بیلاروس اپنی بہتر دفاعی صنعت کے ساتھ پاکستان کو عسکری ہارڈویئر اور مہارت کی فراہمی میں کردار ادا کر سکتا ہے۔ دونوں ممالک نے مشترکہ دفاعی تربیت‘ ٹیکنالوجی کے اشتراک اور انسدادِ دہشت گردی میں تعاون کے امکانات کا بھی جائزہ لیا۔ اگرچہ یہ ایک پیچیدہ میدان ہے‘ اور راستے میں کئی کانٹے بچھے ہیں۔دفاعی تعلقات کا فروغ صرف عسکری تجارت تک محدود نہیں بلکہ اس خطے میں سٹرٹیجک تعلقات کو مضبوط بنانے کے بارے میں بھی ہے جو جغرافیائی طور پر حساس ہے۔ بہت سے عالمی مسائل پر بیلاروس کا غیرجانبدارانہ مؤقف اسے پاکستان کے لیے ایک پُرکشش پارٹنر بناتا ہے جو اتار چڑھاؤ والے اتحادوں اور علاقائی حرکیات کو بدلتے ہوئے زیادہ جغرافیائی سیاسی توازن کا خواہاں ہے۔
سفارتکاری اور جغرافیائی سیاسی حکمت عملی کے تناظر میں بیلا روس کے صدر کے دورۂ پاکستان نے تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی ماحول میں سفارتکاری کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔ روس کے ساتھ اپنی سیاسی صف بندی اور اندرونی اختلاف کی وجہ سے مغرب سے دوری کا سامنا کرنے والا بیلاروس اپنے بین الاقوامی تعلقات کو وسعت دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان ایک اہم کھلاڑی کے طور پر بیلاروس کو ایک اہم سٹرٹیجک اہمیت کے حامل خطے میں داخلے کی پیشکش کرتا ہے۔ پاکستان کیلئے نئے سفارتی تعلقات کو فروغ دینا بھی ازحد اہم ہے‘ جنوبی ایشیا کا موجودہ پیچیدہ جغرافیائی سیاسی منظر نامہ اس کی ضرورت کو مزید بڑھاتا ہے۔ بیلاروس کیساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا پاکستان کو تجارت اور سرمایہ کاری کیلئے نئی راہیں فراہم کر سکتا ہے‘ جبکہ ہمسایہ ممالک بھارت اور افغانستان کے ساتھ جاری کشیدگی کے تناظر میں ایک متنوع سفارتی پورٹ فولیو بھی پیش کر سکتا ہے۔ اب اس دورے کا مستقبل کیا ہے؟ مستقبل میں تعاون کے امکانات کیا ہیں‘ خصوصاً جب عالمی طاقتیں اس دورے کے مضمرات اور مقاصد کا جائزہ لیں گی‘ اور اپنے اپنے نتائج اخذ کریں گی۔
اگرچہ بیلاروس کے صدر کے دورۂ پاکستان نے یقینی طور پر قریبی شراکت داری کی بنیاد رکھی‘ تاہم اس شراکت داری کے مستقبل کی ابھی سے مکمل پیش گوئی کرنا قبل از وقت ہے۔ دونوں ممالک کو اس دورے سے پیدا ہونے والی مثبت سیاسی خواہش کو حقیقت میں بدلنے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہو گی‘ جیسے تجارتی معاہدوں‘ مشترکہ منصوبوں اور عوام سے عوام کے تبادلے جیسے اقدامات۔ اس کیلئے دونوں ممالک کے درمیان کلیدی شعبوں میں براہِ راست روابط بہت ضروری ہیں جس سے تجارت اور سیاحت میں سہولت ہو سکتی ہے‘ نیز مشینری مینوفیکچرنگ‘ آئی ٹی اور فارماسوٹیکل جیسے شعبوں میں کاروباری اور صنعتی معاہدوں پر دستخط بھی شامل ہیں۔ مزید برآں تعلیمی پروگراموں کے تبادلے اور تکنیکی تربیت کے میدان میں تعاون اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ملکوں اور قوموں کیلئے کلچرل سطح پر تعاون سب سے اہم ترین ہتھیار رہا ہے۔ یہ وہ شعبہ ہے جس میں تعاون قوموں اور ریاستوں کے باہمی تعلقات کو ایک خاص سطح پر لے جاتا ہے‘ بلکہ اس کے بغیر تعلقات میں فروغ ادھورا سا رہ جاتا ہے اور اس میں وہ بالیدگی نہیں آتی جس کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان کا ہمیشہ یہ مسئلہ رہا کہ یہ متصادم نظاموں اور ثقافتوں والے ممالک کے ساتھ تعلقات کے قیام کا خواہشمند رہا ہے۔ اس طرح کے تعلقات میں گرمجوشی کم ہوتی ہے اور تعلقات ایک خاص سطح سے آگے نہیں جاتے۔