"FBC" (space) message & send to 7575

پاکستان اور روس کے مابین معاہدے

دنیا میں نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ جغرافیائی اور سیاسی تبدیلیاں نت نئے اتحاد اور بلاک تشکیل دے رہی ہیں۔ پاکستان اور روس کے مابین حال ہی میں ہونے والے معاہدے اس کی ایک مثال ہیں۔ ان معاہدوں پر زیادہ بحث نہیں ہوئی مگر یہ معاہدے خطے کے مستقبل کے حوالے سے بہت اہم ہیں۔ یہ معاہدے تجارتی و معاشی تعاون کے فروغ پر زور دیتے ہیں‘ اور باہمی تعلقات کو مضبوط بنانے کے عزم کی علامت ہیں۔ تاہم دونوں ممالک کی ان کوششوں کی کامیابی کا انحصار اندرونی چیلنجوں اور وسیع تر علاقائی تناظر پر ہے۔
پاکستان‘ روس کیلئے جنوبی ایشیا میں سٹرٹیجک نقطۂ نظر سے قدم جمانے کے لیے بہت اہم ہے۔ روسی دانشوروں کے خیال میں یہ خطہ مغربی پابندیوں اور نیٹو کی توسیع کے خلاف روسی اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔ دوسری طرف پاکستان کیلئے روس کے توانائی کے وسائل اور مہارت‘ ملکی توانائی بحران کا حل ہیں۔ اس کیساتھ ساتھ روس کے ساتھ دفاعی شعبے میں تعاون کا فروغ پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھا سکتا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین مضبوط تعلقات کے قیام کا مقصد طویل مدتی شراکت داری کو برقرار رکھنے کیلئے ایک با ضابطہ فریم ورک بنانا ہے۔ دیکھا جائے تو دونوں ممالک ہی اقتصادی ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے ان معاہدوں کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ پاکستان کی روسی منڈی تک رسائی سے ہماری ٹیکسٹائل اور زراعت جیسی صنعتوں کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے انفراسٹرکچر کے منصوبوں بشمول بندرگاہوں اور ریلوے میں روسی سرمایہ کاری ماسکو کو چین پاکستان اقتصادی راہداری نیٹ ورک میں ضم کر سکتی ہے۔ اس سے اقتصادی تعاون کی ایک سہ رخی شکل سامنے آئے گی۔ ان اُمید افزا پیش رفتوں کے باوجود دونوں ممالک کو اہم اندرونی رکاوٹوں کا سامنا ہے جو ان معاہدوں کے نفاذ کو متاثر کر سکتی ہیں۔
پاکستان کا سیاسی عدم استحکام اور معاشی کمزوری اب بھی بڑی رکاوٹیں ہیں۔ قیادت میں متواتر تبدیلیاں‘ کمزور معیشت اور خارجہ پالیسی کی ترجیحات پر اتفاقِ رائے کا فقدان ان معاہدوں کو پورا کرنے میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ پاکستان کا مغربی مالیاتی اداروں پر انحصار بھی ایک غیرمتوازن صورتحال پیدا کر سکتا ہے۔ یوکرین میں جاری تنازع کی وجہ سے مغربی پابندیوں سے نبرد آزما روس کو اس وقت اقتصادی تنہائی کا سامنا ہے۔ اگرچہ یہ مغرب سے آگے اپنی شراکت داریوں کو متنوع بنانا چاہتا ہے۔ اس کی اندرونی اقتصادی جدوجہد اس کی بیرونی شراکت داریوں میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کرنے کی صلاحیت کو محدود کر سکتی ہے۔ پاکستان کے ساتھ ان دوطرفہ معاہدوں کی تکمیل کیلئے روس کو ان مسائل سے اپنی توجہ ہٹانا ہو گی۔ اس کے باوجود روس نے یہ معاہدے ایک ایسے خطے میں واقع ملک سے کیے ہیں جہاں تزویراتی مقابلہ اور پیچیدہ حرکیات جیسے عوامل موجود ہیں۔
بھارت روایتی طور پر روس کا قریبی اتحادی ہے‘ اس لیے پاکستان اور روس کے گہرے تعلقات کو مشکوک اور محتاط نظروں دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم ماسکو کا اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان توازن قائم کرنے کا عمل یہ بتاتا ہے کہ وہ دونوں میں سے کسی کو الگ کیے بغیر دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنا چاہتا ہے۔سی پیک کے ذریعے پاکستان میں چین کا اثر بڑھتا جا رہا ہے لیکن روس کے ساتھ اس کا تعاون سہ فریقی اقدامات کے مواقع پیدا کر سکتا اور ایک نئی یوریشین اقتصادی راہداری کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ معاہدے پاکستان کیلئے مغربی طاقتوں کی طرف سے سخت اقدامات کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔جہاں تک افغانستان کی صورتحال کا پاک روس معاہدوں پر اثرا انداز ہونے کا تعلق ہے تو پاکستان اور روس دونوں کے لیے اپنے اپنے مفادات کا حصول یقینی بنانے کے لیے لازم ہے کہ افغانستان مزید افراتفری کا شکار نہ ہو‘ کیونکہ اس سے دونوں ممالک کے مابین طے پانے والے معاہدوں اور علاقائی استحکام کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ افغانستان کے علاقائی ممالک کے ساتھ مضبوط روابط اندرونی استحکام کے لیے بہت اہم ہیں۔ خطے میں جمہوریت اورگڈگورننس کا تصوراس حوالے سے ایک اضافی چیلنج ہے‘ جبکہ پاکستان اپنے پارلیمانی اداروں کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ اس کی جمہوریت اکثرو بیشتر داخلی مدا خلتوں سے مجروح ہوتی رہتی ہے۔ دوسری طرف روس کو اکثر اس کے آمرانہ طرزِ حکمرانی کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔اپنے معاہدوں سے طویل مدتی فوائد حاصل کرنے کیلئے دونوں ملکوں کو ''گڈ گورننس‘‘ کا مسئلہ حل کرنا پڑے گاجو جامع اور شفاف پالیسی سازی کے بغیر ممکن نہیں۔
پاک روس تعلقات کی مضبوطی کیلئے اب علامتی اشاروں سے آگے بڑھ کر گڈگورننس اور اصلاحات پر بامعنی بات چیت کو فروغ دینا ہو گا۔ اپنے معاہدوں کی صلاحیت کا ادراک کرنے کیلئے پاکستان اور روس کو عملی انداز اپنانا ہوگا۔ توانائی‘ تجارت اور بنیادی انفراسٹرکچر جیسے میدانوں پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔ مثال کے طور پر روس سے پاکستان کو گیس کی فراہمی کیلئے مجوزہ گیس پائپ لائن منصوبے کو تیز کرنے سے دونوں معیشتوں کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ بہتر سفارتکاری دو طرفہ تعلقات کو مہمیز دے سکتی ہے۔ اس ضمن میں علاقائی سلامتی اور تجارتی پالیسیوں جیسے حساس معاملات پر تیز رفتاری سے کام کرنا ہو گا۔ علاقائی روابط کو فروغ دینے کے لیے چین اور دیگر وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ مل کر کام کرنا‘ دوطرفہ تعلقات کے فوائد کو بڑھا سکتا ہے۔
پاکستان اور روس کے درمیان ہونے والے حالیہ معاہدے دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک نئے باب کا آغاز ہیں لیکن انکا مستقبل ملکی اور علاقائی چیلنجوں پر قابو پانے پر منحصر ہے۔ مالی خسارے اور کرپشن سے بھرے خطے میں یہ معاہدے دونوں ممالک کیلئے بہتر طرزِ حکمرانی کے ماڈلز کی وکالت کرنے کا موقع بھی فراہم کرتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ کوششیں کامیاب ہوں گی یا نہیں۔ پاکستان اور روس کے مابین یہ معاہدے ایک لچکدار شراکت قائم کرنے کا ذریعہ ہیں جس میں بھارت بھی ایک بڑی جغرافیائی قوت کے طور پر موجود ہے۔ کچھ پاکستانی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس معاملے کو آگے بڑھانے کیلئے پاکستان کو افغانستان اور بھارت‘ دونوں کیساتھ مکالمہ کرنا ہوگا‘ جو اس خطے کی بڑی جغرافیائی اور سیاسی حقیقتیں ہیں۔
پاکستان اور روس کیلئے اگلا روڈ میپ یہ ہے کہ وہ تیزی سے ابھرتے ہوئے عالمی نظام کی پیچیدگیوں کو سمجھ کر آگے بڑھیں۔ ہمارے اس خطے میں لیڈر کو Larger Than Life سمجھا جاتا ہے۔ لیڈر یہاں عوام کو بہت زیادہ متاثر کرتے ہیں۔ لیڈر چاہیں تو کسی ملک کو قریب ترین دوست قرار دے دیں اور اگر چاہیں تو اس کو دشمن قرار دے کر دھتکار دیں۔ آگے اس لیڈر کے کارکن‘ اسکے بیانیے کو خواہ یہ حقیقت ہو یا نہ ہو‘ عوام میں پھیلا دیتے ہیں۔ ایسا اس پورے خطے میں بلا امتیاز ہو رہا ہے۔ اس میں روس‘ چین‘ پاکستان اور بھارت سب شامل ہیں۔ مغربی جمہوریتوں میں ایسا نہیں ہوتا تو اس کی وجہ وہاں کے جمہوری اداروں کی مضبوطی ہے۔ وہاں جمہوریت کی جڑیں عوام کے اندر تک سرایت کر چکی ہیں۔ وہاں عوام اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے اپنے فیصلے کرتے ہیں۔ اس طرح عوام کی فیصلہ سازی میں شراکت یقینی ہو جاتی ہے۔
پاکستان اور روس اب تک تجارت‘ توانائی‘ سلامتی اور نقل و حمل سمیت متعدد شعبوں میں دوطرفہ تعلقات کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ روس خام تیل اور اناج سمیت توانائی کے وسائل کا کلیدی سپلائر ہے جو مشکلات کی شکار پاکستانی معیشت کیلئے بہت اہم ہیں۔خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان روس کو توانائی بحران اور اقتصادی چیلنجوں کیلئے ایک قابلِ قدر شراکت دار کے طور پر دیکھتا ہے۔ ان تعلقات کا یورپی یونین‘ امریکہ اور دیگر اہم بین الاقوامی کھلاڑیوں کے متوازی ہونا ضروری ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ دنیا میں کچھ بھی مفت دستیاب نہیں‘ دنیا کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کی بنیاد پر چلتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں