"SBA" (space) message & send to 7575

شام کے بعد…؟؟

نجانے آج شام کے تین حوالے ذہن میں کیوں در آئے ہیں۔ پہلے حوالے کی وجہ فرحت عباس شاہ ہیں۔ چند سال پہلے میں نے انہیں شہرِ اقتدار آنے کی تکلیف دی۔ اس طرح مکمل ایک دن فرحت عباس شاہ کے ساتھ گزارا۔ برسوں پہلے مال روڈ راولپنڈی کے پنج ستارہ ہوٹل میں شام کے بعد ایک کمپنی کلائنٹ سے میٹنگ تھی۔ بزنس سنٹر کے عقب سے ملک مظہر نامی گلوکار کی دل سوز آواز میں یہ شعر پہلی بار سنا:
تُو ہے سورج تجھے معلوم کہاں رات کا دکھ
تُو کسی روز میرے گھر میں اُتر شام کے بعد
میٹنگ کے بعد میں نے ریسٹورنٹ لان میں بیٹھ کر ملک مظہر سے فرحت عباس شاہ کی شاعری تسلی سے بھلے سُروں میں سنی‘ گپ شپ لگائی اور انہیں شہر کا ریڈ زون بھی پھرایا۔ دوسرا حوالہ میرے اجداد کی سرزمین بلادالشّام کا ہے۔ جہاں 1969-70ء میں خون آشام خانہ جنگی کے بعد علویین قبیلے کے ایک فوجی افسر حافظ الاسد نے سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے مسندِ اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ جس کے عشروں بعد تیونس کے ریڑھی بان بو عزیزی کے خون سے آنے والی بہارِ عرب نے سرزمینِ شام کو ایک بار پھر خاک و خون میں غلطاں کر ڈالا۔ عرب اور ایفرو عرب ممالک میں جہاں جہاں بعث پارٹی کے نوجوان فوجیوں نے آمرانہ حکومتوں کا تختہ اُلٹا‘ وہاں وہاں مغربی ممالک کو شدید آمریت نظر آنا شروع ہو گئی۔ حالانکہ جزیرۂ عرب اور افریقی عرب ملکوں میں ہمارے عوامی اور انقلابی شاعروں کی زبان میں شیوخ و شاہ برسرِاقتدار آئے‘ شخصی ملوکیت کی بہار ہر طرف چھا گئی۔ اس کا بنیادی اور سب سے بڑا سبب 1928ء سے 1948ء تک عالمی صہیونی تحریک کی جانب سے صلیبی جنگیں لڑنے والے مغربی ملکوں کی بھرپور امداد اور مکمل معاونت سے عثمانی ایمپائر کا خاتمہ تھا۔ اسی حوالے سے شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبال نے اتاترک کو مخاطب کرکے مسلم آزاری اور مسلم ناداری کا یہ نوحہ لکھا تھا۔ اسے پڑھ کر یوں لگتا ہے کہ یہ نوحہ اقبال کے دوربین قلم نے 1924ء میں نہیں بلکہ 2024ء میں قرطاس کے حوالے کیا۔
اے تہی ساغر! ہماری آج ناداری بھی دیکھ
فرقہ آرائی کی زنجیروں میں ہیں مسلم اسیر
اپنی آزادی بھی دیکھ‘ ان کی گرفتاری بھی دیکھ
بارشِ سنگِ حوادث کا تماشائی بھی ہو
اُمتِ مرحوم کی آئینہ دیواری بھی دیکھ
سازِ عشرت کی صدا مغرب کے ایوانوں میں سن
اور ایراں میں ذرا ماتم کی تیاری بھی دیکھ
چاک کر دی تُرکِ ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ‘ اوروں کی عیاری بھی دیکھ
شام کا تیسرا حوالہ وہ ہے جس پہ مغرب کے مین سٹریم میڈیا نے Perfect Black out کر رکھا ہے۔ آئیے ٹیکنالوجی کی اس سیاہ چادر کے پیچھے آج کے شام کا کشٹ اور دلدر بھرا چہرہ تلاش کریں۔
شام کے بعد کا پہلاچہرہ: یہ عربی زبان کی ایک سوشل میڈیا سائٹ ہے جس میں ماؤنٹ حیونان‘ جو گولان کی پہاڑیوں میں سب سے اونچی چوٹی ہے اور شام کے دارالخلافہ دمشق سے صرف 30کلو میٹر کے فاصلے پر ہے‘ اس پہ اسرائیل کی فوج ایس ڈی ایف پہلی بار اسرائیلی پرچم کو اونچے پول کے ساتھ لگا رہی ہے۔ شامی عرب صحافی نے لکھا: ''گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی جھنڈا گاڑنے کی حسرت لے کر سارے اسرائیلی سربراہ قبر میں چلے گئے۔ شام کے ظالم حافظ الاسد اور اس سے زیادہ ظالم بشار الاسد نے یہ جھنڈا گولان میں کبھی نہیں لگنے دیا۔ آج ایک تُرکِ ناداں کے حمایتی لشکر نے یہ اسرائیلی خواب پوراکر دکھایا‘‘۔
عرب میڈیا اور الجزیرہ ٹی وی نے سقوطِ دمشق سے تین دن پہلے‘ جب بشار الاسد کا چل چلاؤ فائنل ہو رہا تھا‘ اس بارے میں خبریں چلائیں۔ تب اسرائیل نے 35 کلومیٹر چوڑے Demilitarized Zone کو کراس کر کے شام کی سرزمین کے اندر آکر اپنی دفاعی پوسٹیں بنانا اور سرحدی باڑ لگانا شروع کر دی تھی۔ خاص طور سے قنطیرہ کے گاؤں پر اسرائیل نے سب سے پہلا قبضہ کیا اور وہاں نیا بارڈر بنایا۔ اس گاؤں کا ایک سرا سیدھا بیرونِ دمشق سے لگتا ہے جبکہ دوسرا سرا بیروت سے 55‘ 60 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اسرائیل نے اس انتہائی اہم شامی سرزمین کے حصے پر قبضہ کر کے شام کی سرزمین سے لبنان پر حملہ کرنے کا ایک ملٹی فرنٹ جنگی راستہ کھول لیا ہے۔ اس قبضے کے دور رس نتائج پر بات کرنے کے لیے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو خود نئے اور مکمل مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں پر چڑھا اور ان الفاظ میں گریٹر اسرائیل کے بارے میں اپنا پلان دہرایا: ''I will change the face of middle east‘‘۔ قارئینِ وکالت نامہ! یاد رکھیے گا امریکی حمایت یافتہ ''ابراہم اکارڈ‘‘ کو۔
شام کے بعد کا دوسرا چہرہ: سقوطِ دمشق کے بعد اسرائیل نے کم از کم 100 روزانہ ایئر سٹرائیکس اور پچھلے دو دن 200روزانہ ایئر سٹرائیکس کے حساب سے شام کی تمام تر دفاعی صلاحیت کو زمیں بوس کر دیا ہے۔ جس میں شام کی نیوی کا بحری بیڑا‘ شام کے تمام تر جنگی جہاز اور ہوائی اڈے‘ ماسوائے دو عدد روسی ایئر بیس کے‘ پہلی Tartus ایئر بیس اور دوسری Hmeymimایئر بیس۔ شام کے طول و عرض میں ہر ایسی بلڈنگ‘ جس کے بارے میں شبہ ہے کہ یہ پولیس‘ فوج یا انٹیلی جنس کے لیے استعمال ہوتی ہے‘ اسے بموں سے اڑا دیا گیا ہے۔ اسرائیل نے اسی عرصے کے دوران شامی سائنسدان شادیہ حبال‘ جو انٹرنیشنل فزکس ڈاکٹر تھیں‘ انہیں خاوند سمیت دمشق میں اڑا دیا۔ یہ مہم بڑے پیمانے پر شروع ہو گئی ہے جس کے نتیجے میں کیمسٹری کے ایک پروفیسر‘ فزکس کے ڈاکٹرز اور سٹرٹیجک پروفیشنلز کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
شام کے بعد کا تیسرا چہرہ: آپ اسے المیہ کہیے کہ آنے والی آفت سے آنکھیں بند کرنا یا کنفیوژن کہ شام میں لڑنے والے مختلف گروپوں کو جزیرۂ عرب اور ترکیہ کی جانب سے حمایت حاصل تھی۔ جونہی اسرائیل نے شام میں کارروائیاں شروع کیں‘ فوراً دوحہ گروپ کا اجلاس ہوا۔ جس میں مشرقِ وسطیٰ کے سارے بڑے سٹیک ہولڈرز شامل تھے۔ انہوں نے واویلا بعد اَز مرگ کے طور پر نان سٹیٹ ایکٹرز کی طرف سے دمشق پر قبضے کو مسترد کر دیا۔ شام کا یہ سفر بری آمریت سے اچھی آمریت تک کا سفر کہلائے گا۔ سقوطِ شام کے بعد ابراہم اکارڈ کے بینر تلے اسرائیل کے لیے اس وقت کوئی ٹکر کی عسکری طاقت یا ایسا ملک جو اس کے عزائم کو چیلنج کر سکے‘ بظاہر نظر نہیں آتا۔ اس منزل تک مشرقِ وسطیٰ کی مسلم گروہ بندی نے اپنے آپ کو خود پہنچایا ہے۔ فرقہ وارانہ تعصب اور امریکہ کے ٹوڈی ازم کی عینک اتار کر دیکھیں تو پھر اقبال یاد آئیں گے۔
صورتِ آئینہ سب کچھ دیکھ اور خاموش رہ
شورشِ امروز میں محوِ سرودِ دوش رہ

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں