"SBA" (space) message & send to 7575

مفتی تقی عثمانی، 27ویں ترمیم اور عمران خان کا مستقبل

یہ مطلق العنان جابرحکمران یعنی آل آزاد عبدالمظفر شہاب الدین محمد المعروف شاہ جہاں کی بادشاہی کا عہد تھا۔ میرے قبیلے کے صوفی شاعر اور مصنف نے آج سے تقریباً چار سو سال پہلے‘ گزرے اور آنے والے زمانوں کی ابدی حقیقت کو چند لائنوں میں یوں محصور کر چھوڑا:
جے کر دین علم وِچ ہوندا تاں سِر نیزے کیوں چڑھدے ھُو
اٹھارہ ہزار جو عالم آہا اَگے حسینؓ دے مردے ھُو
کہتے ہیں وقت گزر جانے کے بعد جو تھپڑ یاد آئے اُسے اپنے منہ پر مارنا چاہیے۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے زبان دی‘ حیثیت دی‘ استطاعت دی اور کسی شعبے کا برانڈ بنا دیا‘ وہ اگر اپنی بود وباش‘ رہائش وخوراک‘ آسائش وراحت اور افزائشِ نسل سے اوپر اُٹھ کر کمزور کے حق میں یا اوروں کے مفاد میں بولنے کی ہمت بھی نہ کر سکیں تو سوچیے! پھر وہ کہاں کے اشرف المخلوقات ہوئے؟ ہمارا بائیو لوجیکل شرف یہی ہے کہ ہم حیوانِ ناطق ہیں۔ ورنہ بچے تو بچھو بھی پیدا کر لیتا ہے۔ اُنہیں پالتا ہے۔ اردگرد کے پھن پھیلائے ہوئے سانپوں کے زہر سے اُن کی زندگی بھی بچاتا ہے۔ اشرف المخلوقات اور تصورِ حیات کے اسی تسلسل میں حضرت علامہ اقبال نے مسلم اُمّہ کے نام پیغام میں ممولے کو شہباز سے لڑانے کی ترغیب دی تھی۔ آج کے سوشل میڈیا کو ہی دیکھ لیں۔ بیچارگی کی مثال کُکڑی اپنی آنے والی نسل کے چوزوں کے تحفظ کے لیے چیتے‘ شہباز اور فیلکن سے اپنی جان لڑاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
دساتیرِ عالم کی زبان میں یہ Phenomenon دیکھیں تو اسے ہر چارٹر آف ہیومن رائٹس‘ ہر الہامی پیغام اور ہر مہذب قانون ودستور میں رائٹ ٹو لائف یا زندہ رہنے کا بنیادی حق قرار دیا گیا۔ دینِ اسلام میں اس بابت سب سے دو ٹوک احکامات آئے ہیں۔ اس لیے کہ اسلام کا پیغام اشرف المخلوقات کے لیے ارفع ترین طرزِ حیات اپنانے یا وے آف لائف پر چلنا سکھاتا ہے۔ جدید پولیٹکل سائنس کی زبان میں طرزِ حیات معروف معنوں میں یہ سسٹم آف گورننس کہلاتا ہے جس میں طاقتور اور کمزور کے درمیان بیلنس پیدا کرنے کے لیے کھلا‘ بے لاگ اور شفاف احتساب پہلی اینٹ ہے۔ اسی آسمانی حکم اور وطنِ عزیز کی جدید زمینی حقیقتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مولانا تقی عثمانی نے ستائیسویں آئینی ترمیم میں احتساب سے اجتناب یا استثنا کے موضوع پر تاریخ ساز مگر بروقت بیان جاری کیا ہے۔ مفتی تقی عثمانی سلطان باھوؒ کی طرزِ فکر کے مطابق بھی سرخرو ہو گئے۔ ایسے دور میں جب بات بات پر سیاسی دفترِ افتاء کھولنے والے منہ پر تالے لگائے بیٹھے ہیں‘ مفتی صاحب کے الفاظ ہمیشہ تاریخ میں گونجتے رہیں گے۔ مفتی تقی عثمانی کے سارے میڈیا اور سوشل میڈیا میں وائرل الفاظ یہ ہیں:
''اسلام میں کوئی بھی شخص چاہے وہ کتنے بڑے عہدے پر ہو کسی بھی وقت عدالتی کارروائی سے بالاتر نہیں ہو سکتا۔ خلفاء راشدین کی مثالیں سب کو معلوم ہیں۔ ہمارے دستور میں پہلے بھی صدر کو صدارت کے دوران تحفظ دیا گیا تھا جو اسلام کے خلاف تھا۔ اب تاحیات کسی کو یہ تحفظ دینا شریعت اور آئین کی روح کے بالکل خلاف ہے‘ جو ملک کے لیے نہایت شرمناک ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ملک کو اس بے عزتی سے بچائیں آمین!‘‘۔
ستائیسویں آئینی ترمیم نے پاکستان کی سوسائٹی‘ نظامِ حکومت‘ مستقبل اور ادارہ جاتی طاقت کے عدم توازن جیسے بڑے بنیادی مباحث چھیڑ دیے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے الجزیرہ اور گلف نیوز سے لے کر مغرب کے سارے بڑے اخباروں میں دو پہلوئوں سے ستائیسویں آئینی ترمیم پر خوب لکھا جا رہا ہے۔ ایک پہلو یہ کہ کیا ستائیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے پاکستان کی عسکری طاقت میں اضافہ کرنا مقصود ہے جبکہ دوسرے خیال کے لکھنے والے یہ سوال زیادہ شدومد سے اٹھا رہے ہیں کہ ستائیسویں آئینی ترمیم نے پاکستان کے آئین کو ملٹرائز کر دیا ہے۔
ان دنوں سرزمینِ وطن کے اندر جو لوگ پوچھے بغیر لکھنے اور بولنے کی سکت رکھتے ہیں اُن کے نزدیک ستائیسویں آئینی ترمیم صرف بے وقت یا بے محل نہیں بلکہ اس کا براہِ راست تعلق پاکستانی تاریخ کے پاپولر ترین لیڈر قیدی نمبر 804 کے مستقبل سے جڑا ہے۔ عمران خان کی دوسری گرفتاری‘ اٹک جیل کے بعد اڈیالہ جیل کی قید کے دنوں کے جو واقعات وحالات میرے علم میں ہیں اس پر درباری بینڈ بھی خوب ڈھول تاشے بجاتے رہے۔ عاقلاں را اشارہ کافی است۔ خصوصی فلائٹ کے ذریعے امریکہ سے آنے والے ڈاکٹر حضرات کی ایک مثال جو پبلک بھی ہوئی‘ یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ عمران خان پر سارا زور زبردستی اور جبروت‘ دو وجوہات کے لیے برپا کیا گیا۔ اس کی پہلی وجہ ووٹ کو عزت دو اور مجھے کیوں نکالا جیسی اشرافیہ کی برانڈڈ ڈیل پر راضی کرنا تھا۔ دوسری وجہ باہر آ کر کسی کے خلاف کچھ بھی نہ کرنے کی گارنٹیاں تھیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ تو طے ہے کچھ کام انسان کی منصوبہ بندی کے مطابق ہو سکتے ہیں لیکن سارے کام ہرگز نہیں کیونکہ انسان جتنے بڑے عہدے پر ہو‘ طاقت کے جتنے بڑے زعم میں مبتلا ہو‘ آخرکار وہ ہے تو انسان۔ اس لیے قادرِ مطلق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ سدا کی بادشاہی بھی صرف مالکِ ارض وسما کے لیے مخصوص۔ پچھلے کچھ ہفتوں سے پاکستان میں وہ آرگینک تبدیلی شروع ہو چکی ہے جسے صرف اندھے نہیں دیکھ سکتے۔ ایسے عقل کے اندھے‘ محاورے کے مطابق جن کی آنکھیں سبز ہوگئیں۔ قدرتِ کاملہ کے اپنے طریقے ہیں جن میں سے تازہ ترین ہے جیفری ایپسٹین لِیکس۔ آخری زارِ روس نکولس دوم کے زمانے (فروری 1917ء کے کیمونسٹ انقلاب تک) میں گریگوری یفیمووِچ راسپوٹین کی راج دربار پر حیثیت حاوی تھی۔ روسی راسپوٹین کے بعد امریکی ایپسٹین کو ایسی ہی حیثیت امریکن وائٹ ہائوس‘ کیپٹل ہِل اور اقتدار کے سارے مراکز میں ملی۔ وہ رہتا امریکہ میں لیکن کام اسرائیل کے لیے کرتا تھا‘ اس لیے صہیونیوں کی آنکھ کا تارا تھا۔ ایپسٹین نے بڑے بڑے جزیرے خریدے‘ دنیا بھر میں فارم ہائوسز بنائے۔ جہاں بڑے سیاستدان‘ صنعتکار اور بارسوخ لوگوں کی نوجوان خواتین کے ساتھ خفیہ وڈیوز بنائی جاتی تھیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ الیکشن مہم میں اعلان کیا وہ ایپسٹین فائلز کو عام کریں گے۔ دو دن پہلے ایپسٹین کی جولائی 2018ء کی ای میلز سامنے آئیں‘ جنہوں نے دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ ایپسٹین نے لکھا:
''پاکستان میں عمران خان قابلِ قبول نہیں‘‘۔ ایک ای میل کے الفاظ پڑھنے کے قابل ہیں:
"Imran Khan in Pakistan, a much greater threat to the peace than Erdogan, Khomeini, Xi or Putin."
اس کے بعد ایپسٹین نے عمران خان کوصحیح Bad News قرار دیا۔ اب یاد کیجیے سائفر‘ سازش اور نوازش۔ مستقبل اُسی کا ہے جس سے طاقت کے عالمی مراکز بھی فکرمند تھے۔
یکایک ایسے جل بجھنے میں لطفِ جاں کنی کب تھا
جلے اک شمع پر ہم بھی مگر آہستہ آہستہ

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں