"SBA" (space) message & send to 7575

قاسم عمران خان کی چیخ اور فاطمہ بھٹو کی ٹویٹ

ابو الانبیاء سیدنا ابراہیم اور سیدنا اسماعیل علیہما السلام کی تاریخ سے باپ بیٹے کے رشتے کی گہرائی اور سچائی خوب سمجھ میں آتی ہے۔ ویسے تو رشتے سبھی اچھے ہوتے ہیں لیکن بلاشبہ باقی رشتہ داروں اور اپنی اولاد میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ کئی حوالوں سے اور کئی اعتبار سے! یہ بھی طے ہے کہ ہر بچے کا پہلا اور سب سے بڑا ہیرو اُس کا والد ہوتا ہے۔ اس وقت ایک والد کے لیے ایک بیٹے نے ایسے کان مخاطب کرنے کے لیے دل چیر دینے والیGenuine چیخ بلند کی ہے جسے آپ فراق اور احتجاج‘ دونوں نام دے سکتے ہیں۔ عمران خان کے آفیشل فیس بک اکائونٹ پر اُن کے بیٹے قاسم خان نے بندی خانے میں بند ہونے کے باوجود اُن کی گمشدگی کا نوحہ لکھا ہے۔ یوں تو پوری قوم اور بین الاقوامی میڈیا عمران خان کی سیفٹی اور خیریت جاننے کے لیے بہت فکرمند ہے مگر قاسم خان اپنے ہیرو‘ جو دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں کا ہیرو ہے‘ عمران خان سے ہونے والی ادنیٰ ترین ذہنیت نما بدسلوکی پر چیخ پڑا۔ یہی نہیں بلکہ قاسم خان کے دکھ کو بچپن میں والد کو کھو دینے والی‘ پاکستان کے عدالتی مقتول سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو شہید کی پوتی فاطمہ بھٹو نے انسانی اقدار میں ڈوب کر محسوس کیا۔ باقی سیاسی اشرافیہ کے لیے 'مختاریا گَل ودھ گئی اے‘ کہہ دینا کافی ہو گا۔
وہ جنہوں نے انسانی حقوق کی پامالی پر نہ بولنے کی شپَت لے رکھی ہے‘ وہی ہیں جن کے ذریعے پاکستان میں انسانی حقوق کے نام پر کروڑوں ڈالر سے زیادہ کی فنڈ نگ ہوتی ہے ۔ یہ فنڈنگ مخصوص ایجنڈے والی غیر حکومتی تنظیموں کے اکائونٹس میں جاتی ہے‘ جنہیں عرفِ عام میں NGO کہا جاتا ہے۔ ان تنظیموں کو بھی نہ سڑک پہ گھسیٹی جانے والی عمران خان کی بہن نظر آئی‘ نہ ہی باپ کی سلامتی پر فکرمند بیٹے قاسم خان کی چیخ سنائی دی۔ وجہ صاف ظاہر ہے‘ مزید کچھ کہہ کر میں قلم کا سواد لٹانا نہیں چاہتا۔
موضوع کو آگے بڑھانے سے پہلے آئیے دونوں پوسٹس کو پڑھ لیتے ہیں۔
پہلے عمران خان کے صاحبزادے قاسم خان کی پوسٹ۔ پچھلے ہفتے قاسم خان نے اپنے والد کے فیس بک سوشل میڈیا اکائونٹ سے ان لفظوں میں الرٹ جاری کیا: میرے والد کی گرفتاری کو 845 دن ہو چکے ہیں۔ پچھلے چھ ہفتوں سے انہیں مکمل بے خبری کے ماحول میں ڈیتھ سیل میں تنہا رکھا گیا ہے۔ میرے والد کی بہنوں کو ان سے مکمل طور پر ملاقات سے روک دیا گیا ہے۔ حالانکہ متعلقہ عدالتوں کے واضح احکامات موجود ہیں کہ ان کی ملاقات کروائی جائے۔ قاسم خان نے مزید لکھا کہ عمران خان صاحب سے نہ تو فون کال پر ہماری بات کروائی گئی اور نہ ہی کسی دیگر ذریعے سے اُن کے زندہ ہونے کا کوئی ثبوت ہم تک پہنچا ہے۔ اس لیے میں اور میرا بھائی اپنے والد سے کسی قسم کا بھی کوئی رابطہ نہیں کر سکتے۔ قاسم خان نے یہ بھی واضح کیا کہ میرے والد کی قیدِ تنہائی اور یہ مکمل اندھیرا جس میں اُنہیں بند کیا گیا ہے کسی حفاظتی پروٹوکول کا حصہ ہرگز نہیں۔ یہ بات واضح ہے‘ جان بوجھ کر میرے والد کو ان حالات میں رکھا گیا ہے۔ کوشش کی جا رہی ہے کہ عمران خان کی حالت کو چھپایا جائے اور ہمارے خاندان کو یہ نہ معلوم ہو سکے کہ میرے والد محفوظ بھی ہیں یا نہیں۔ عمران خان کے بیٹے قاسم خان نے اپنی پوسٹ میں مزید لکھا کہ میں واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستانی حکومت اور اس کے آقائوں کو میرے والد کی حفاظت کی ذمہ داری اور اس غیر انسانی تنہائی کے ہر نتیجے کی قانونی‘ اخلاقی اور بین الاقوامی سطح پر مکمل ذمہ داری اُٹھانا ہو گی۔ اس پوسٹ کے دوسرے حصے میں قاسم خان نے اقوامِ عالم کو مخاطب کیا۔ عمران خان کے صاحبزادے نے عالمی برادری‘ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں اور ہر جمہوری آواز سے یہ کہہ کر اپیل کی کہ وہ ان حالات میں فوری مداخلت کریں۔ ساتھ ہی لکھا کہ میرے والد کی زندگی کی تصدیق کا مطالبہ کریں۔ عدالت کے احکامات کے مطابق ہماری رسائی عمران خان تک یقینی بنائیں۔ عمران خان سے اس غیر انسانی تنہائی کو ختم کروانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ یہ بات اب دہرانے کی ضرورت نہیں رہی کہ عمران خان کو صرف سیاسی وجوہات کی بنا پر قید میں رکھا گیا ہے۔
دوسرا‘ فاطمہ بھٹو کا ٹویٹ۔ پاکستان کی تاریخ کا مضبوط سیاسی بیک گرائونڈ رکھنے والے بھٹو خاندان کی یکے از وارثان فاطمہ بھٹو پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے عمران خان کی قیدِ تنہائی پر صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی پوتی اور اُن کے صاحبزادے میر مرتضیٰ بھٹو کی بیٹی نے اپنے ٹویٹر اکائونٹ پر لکھا: عمران خان نے اس ملک کی خدمت کی ہے۔ وہ ماضی قریب میں پاکستان کے وزیراعظم رہے ہیں۔ فاطمہ بھٹو نے اپنے پیغام میں کہا کہ عمران خان کو اندھیرے میں نہیں چھپایا جا سکتا ۔ وہ مزید لکھتی ہیں کہ یہ کوئی سیاسی سوال یا معاملہ نہیں ہے نہ ہی یہ سوچا جا سکتا ہے کہ عمران خان کی پارٹی کا نام کیا ہے کیونکہ یہ بنیادی انسانی اخلاق کا تقاضا ہے کہ عمران خان سے سلوک انسانیت سے ماورا نہ ہو۔ اگلے جملے میں فاطمہ بھٹو کہتی ہیں: کسی بھی قیدی کے ساتھ عمران خان کی طرح کا غیر انسانی سلوک کیا جانا قابلِ قبول نہیں۔
فارم47 والی کابینہ پورے زور سے عمران خان کی ملاقاتیں بند کرنے کو عین دستوری اور قانونی ثابت کرنے پر لگی ہوئی ہے جبکہ ڈھولچی کہہ رہے ہیں کہ سیاسی لیڈر جیل چلا جائے تو اُس سے سیاسی لوگوں کی ملاقات نہیں کروائی جا سکتی۔ یاددہانی کے لیے آئیے 11 مارچ سال 2019ء کے اخبارات کے آرکائیو میں چلتے ہیں‘ جن میں جلی سرخیوں کے ساتھ ان الفاظ میں رپورٹ شائع ہوئی: ''کوٹ لکھپت جیل لاہور میں قید نواز شریف سے بلاول بھٹو نے پیپلز پارٹی رہنمائوں پر مشتمل وفد سمیت تفصیلی ملاقات کی۔ نواز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی اس ملاقات کے دوران سیاسی صورتحال پر بھی تفصیلی گفتگو ہوئی‘‘۔ اس سے پہلے 7 مارچ کو پیپلز پارٹی نے نواز شریف سے بلاول بھٹو کی سربراہی میں وفد سمیت ملاقات کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ درخواست کے جواب میں 8 مارچ کو پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت نے نواز‘ بلاول ملاقات کی اجازت دی۔ نہ صرف یہ اجازت دی گئی بلکہ تین دن بعد یہ ملاقات ہو بھی گئی۔
عمران خان اندھیرے میں روشنی ہے۔ جس نے قوم کے دل میں حقیقی آزادی کی امنگیں جگا دیں۔ جس کرب وبلا میں وہ کھڑا ہے‘ ڈیلر اور ویلر اُس کے تصور سے بھی کانپتے ہیں۔ قوم کی ہمدردیاں اپنے اس ہمدرد کے ساتھ ہیں۔
میں خوش نصیب ہوں کہ تباہی کے باوجود
دل میں مرے اُمنگ تو ہے گرمیاں تو ہیں
اُس پیکرِ حسیں کی محبت نہیں تو کیا
اُس پیکرِ خلوص کی ہمدردیاں تو ہیں

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں