آج کے کالم کا ٹائٹل 'نواز شریف کی کہانی‘ اُن کی زبانی‘ نامی کتاب کا مکھڑا ہے۔ یہ کتاب نواز شریف کی جلاوطنی کے دوران سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے لکھی۔ غدار کون سال 2006ء جون کے مہینے میں لاہور سے شائع کی گئی۔ صاحبِ کتاب نواز شریف نے غدار کون کا انتساب پوری دلیری سے 1973ء کے دستور کے نام ان لفظوں میں کیا تھا:
''آئینِ پاکستان کے نام! جس کی حرمت بار بار پامال ہوتی رہی... اس کے باوجود آج بھی آئین ہی وہ واحد امرت دھارا ہے جس پر سب صوبے‘ سب پارٹیاں اور سب حلف اُٹھانے والے متفق ہو سکتے ہیں‘‘۔
نواز شریف نے غدار کون میں آئین کے تحفظ کے لیے حسرت انگیز الفاظ میں انتساب کا یہ ایکسٹرو لکھا ''کاش! آئین کی حرمت کا تحفظ مقدس روایت بن جائے‘‘۔
ان دنوں پاکستان کی پریشان کر دینے والی زمینی صورتحال‘ گنجلک سیاسی مسائل‘ معاشی پستی کی گمبھیرتا‘ عوامی مینڈیٹ کی پامالی‘ 26ویں اور 27ویں ترامیم کے بعد عدلیہ کو ایگزیکٹو کا Weak Arm بنا ڈالنا‘ صرف چھ ماہ میں نواز شریف کے گھر کے دورِ حکومت میں 500 مبینہ پولیس مقابلوں میں 675 افراد کی ہلاکت‘ ان ماورائے قانون مقابلوں کی ایک سٹوری بتانے جیسے حالات میں آئین کی حرمت کا تحفظ نواز شریف کے نزدیک کتنا مقدس رہ گیا ہے‘ یہ آسانی سے سمجھ میں آتا ہے۔ ساتھ ہی ڈی چوک سے مریدکے تک رُول آف لاء کے خون کے دھبے الگ سے سوالیہ نشان ہیں‘ جن کے جواب انہی سے لینا بنتے ہیں کیونکہ اُن کی بیٹی اور بھائی دونوں اس بات پر اصراری ہیں کہ دراصل یہ حکومت انہی کی ہے‘ اُنہی کے کہنے پر سرکار چلتی ہے۔
یہاں قارئینِ وکالت نامہ کی دلچسپی کے لیے ایک اور بات نذرِ ریکارڈ کرتے چلیں۔ غدار کون؟ وہی مشہورِ زمانہ کتاب ہے جس میں نواز شریف اور شہباز شریف کے انٹرویوز اور پرسنل پروفائل کے علاوہ پرویز مشرف سے ڈیل کر کے باہر جانے کی وجوہات بھی بیان ہوئی ہیں۔ نواز شریف نے اس کتاب میں ایک تاریخی اعتراف بھی کیا‘ کہتے ہیں: میں مکے‘ مدینے جانے سے انکار کرتا تو یہ کفرانِ نعمت ہوتا۔ اس بارے میں 'غدار کون؟‘ کے صفحہ نمبر 175 پر متفرقات کا باب باندھا گیا ہے‘ جس کے پہلے نکتے پر نواز شریف کا یہ جملہ پایا جاتا ہے ''میں جیلوں سے خوفزدہ نہیں تھا‘ مکہ مدینہ جانے سے انکار کرتا تو یہ کفرانِ نعمت ہوتا‘‘۔ انہوں نے پھر کہا: مجھے علم تھا سعودی عرب کی حکومت ہماری رہائی کے لیے جنرل مشرف سے مذاکرات کر رہی ہے۔ یہ مذاکرات جسٹس رفیق تارڑ کے ذریعے ہو رہے تھے‘ جن کی ایسی ہی خدمات کے عوض انہیں صدر رفیق تارڑ بنایا گیا تھا۔ ایسے کمالات ہوں تو اس طرح کے امکانات پیدا ہونے کو کوئی نہیں روک سکتا۔
ان دنوں سوشل میڈیا پر میاں صاحب کے دو وڈیو کلپ بڑے وائرل ہیں۔ ایک کلپ میں انہوں نے مشرقی پاکستان کا پہلا عوامی الیکشن ٹوٹل سویپ کرنے والے عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن کے بارے میں کہا کہ شیخ مجیب الرحمن باغی نہیں تھا پاکستان کا‘ وہ سخت حامی تھا پاکستان کا۔ ہم نے اُس کو باغی بنایا۔ اُس کو دھکیلا تاکہ وہ بغاوت کرے۔ نواز شریف نے اس گفتگو میں ایک نقطۂ نظر ظاہر کیا ہے۔ یہ نقطۂ نظر ''میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘ اور ''مشرقی پاکستان کے آخری ایام‘‘ جیسی کتابیں لکھنے والے ان سرکاری افسران نے بھی بیان کیا ہے‘ جو فال آف ڈھاکہ سے پہلے متحدہ پاکستان کی ملازمت میں تھے۔ ہم اس بحث کو پوائنٹ سکورنگ کے بجائے Objectively بامقصد بنا کر بات کر سکتے ہیں۔ جو کچھ کہا گیا وہ غداری کے کسی بھی قانون اور معیار کے مطابق قابلِ دست اندازی نہیں۔ البتہ خالص سیاسی مقاصد کے لیے اس طرح کے تجزیاتی خیالات پر بھی غداری کی فیکٹری کا لیبل لگ سکتا ہے۔
اب آئیے شیخ مجیب کے مشہورِ زمانہ چھ نکات کی جانب‘ جن کو بنیاد بنا کر عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں الیکشن مہم چلائی۔ پہلے نکتے کے تحت قراردادِ لاہور کے مطابق آئین کو حقیقی معنوں میں ایک فیڈریشن کی ضمانت دیتے ہوئے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منتخب مقننہ کی بالادستی اور پارلیمانی طرزِ حکومت پر مبنی ہونا چاہیے۔ دوسرا نکتہ تھا‘ وفاقی حکومت صرف دو محکمے یعنی دفاع اور امورِ خارجہ اپنے پاس رکھے گی‘ دیگر محکمے وفاق کی تشکیل کرنے والی وحدتوں کے یونٹس میں تقسیم کر دیے جائیں گے۔ تیسرا نکتہ تھا کہ ملک کے دونوں بازوئوں میں دو علیحدہ مگر باہمی طور پر تبدیل ہو جانے والی Swap کرنسی متعارف کرائی جائے یا پھر پورے ملک کے لیے ایک ہی کرنسی رائج کی جائے۔ تاہم اس کے لیے مؤثر آئینی دفعات کی تشکیل ضروری ہے تاکہ مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان کو رقومات کی ترسیل روکی جا سکے۔ مشرقی پاکستان کے لیے علیحدہ بینکنگ ریزروز قائم اور زمینی حقائق کے مطابق الگ مالیتی پالیسی اختیار کی جائے۔ چوتھا نکتہ‘ محاصل اور ٹیکسوں کی وصولی کے اختیار کو وفاق کی وحدتوں کے پاس رکھا جائے۔ مرکز کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہونا چاہیے تاہم فیڈریشن وفاقی وزارتوں کے ٹیکسوں میں حصہ دار ہو گی تاکہ وفاق اپنی ضروریات پوری کر سکے۔ ایسے وفاقی فنڈز پورے ملک سے جمع ہونے والے ٹیکسوں کے پہلے سے طے شدہ فیصد کے تناسب پر مشتمل ہوں گے۔ پانچواں نکتہ پانچ حصوں پر مشتمل تھا۔ (الف) دونوں بازوئوں میں زرِ مبادلہ کی آمدنی کے لیے دو علیحدہ اکائونٹس ہونے چاہئیں۔ (ب) مشرقی پاکستان کی آمدنی کو مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی آمدنی کو مغربی پاکستان کے کنٹرول میں ہونا چاہیے۔ (ج) مرکز کی زرِ مبادلہ کی ضروریات‘ دونوں بازوئوں کو مساوی طور پر یا کسی طے شدہ تناسب کے مطابق پوری کرنا ہوں گی۔ (د) ملکی مصنوعات کی دونوں بازوئوں کے درمیان میں آزادانہ نقل وحمل پر کوئی ڈیوٹی عائد نہیں کی جائے گی۔ (ہ) آئین کی روح سے وفاقی وحدتوں کو یہ اختیارات حاصل ہوں گے وہ غیر ممالک میں تجارتی مشن کے قیام کے ساتھ معاہدے‘ نیز تجارتی تعلقات قائم کر سکیں۔ چھٹا نکتہ‘ مشرقی پاکستان کے لیے ملیشیا یا ملٹری فورس کا قیام۔
آج خاص طور پر پنجاب اور دوسرے صوبے باہر کے ملکوں سے معاہدے کر رہے ہیں۔ شیخ مجیب الرحمن نے چھ نکات میں وفاق توڑنے کے لیے کوئی نکتہ نہیں رکھا تھا۔ مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان کی آبادی سے زیادہ تھی‘ جہاں کی اکثریت غدار نہیں بلکہ پاکستان بنانے والے تھے۔ پالیسی ساز گہرا سانس لیں‘ ٹھنڈا پانی پئیں‘ انائوں کے پہاڑ سے نیچے اُتریں اور صرف ایک نکتے پر سوچیں کہ کیا پاکستانیوں کی اکثریت جو عمران خان‘ حقیقی آزادی اور پی ٹی آئی کے ایجنڈے کے بارے میں ہمدردانہ نقطۂ نظر رکھتی ہے‘ وہ اکثریت غدار ہے؟
مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو غدار کہنے والوں کو شاعرِ عوام حبیب جالب نے جو جواب دیا وہ رہتی دنیا تک امر ہوگیا:
غلام ہم کو بنائے رہو گے تم کب تک
ہمارے سر کو جھکائے رہو گے تم کب تک
ہمارے حق کو دبائے رہو گے تم کب تک
وطن کو سولی چڑھائے رہو گے تم کب تک
اندھیرا ظلم و ستم کا مٹا کے چھوڑیں گے
چراغِ مادرِ ملت جلا کے چھوڑیں گے
آخر میں بس اتنا کہنا تھا‘ وہ بھی غدار نہیں جو پابندِ سلاسل ہے۔