"SG" (space) message & send to 7575

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات اور نئے صوبوں کی بحث

چیف الیکشن کمشنر نے صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے دیے گئے شیڈول کے مطابق الیکشن انتظامات کی تیاری کریں۔ چیف الیکشن کمشنر سلطان سکندر راجہ کہتے ہیں کہ کوئٹہ‘ اسلام آباد اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات ہر صورت ہوں گے اور اس پر الیکشن کمیشن کوئی سمجھوتا نہیں کرے گا۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی پارٹی کو ہدایت کی ہے کہ وہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کی تیاری شروع کر دیں جبکہ یہ خبر بھی ہے کہ وفاقی حکومت اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کے مقابلے میں ایک وفاقی کونسل تشکیل دینا چاہتی ہے جو اسلام آباد کے معاملات کو بلدیاتی سطح پر چلائے گی۔ دیکھنا ہو گا کہ الیکشن کمیشن اسلام آباد کی سطح پر وفاقی حکومت کے اس اقدام کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔ پنجاب حکومت نے بھی کہا ہے کہ وہ صوبے میں بلدیاتی انتخابات اپریل 2026ء میں کرانے کا ارادہ رکھتی ہے جبکہ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی نے پنجاب کے بلدیاتی ایکٹ 2025ء کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔ بلاول بھٹو پنجاب کی سیاست میں دوبارہ سرگرم ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں پنجاب کے بلدیاتی انتخابات پر اپنی توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی سیاسی پوزیشن وہ نہیں جو اس وقت مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کی ہے۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ (ن) ان کو نئے صوبوں کے قیام پر تحفظات ہیں۔ مختلف سیاسی حلقے اس بات کا اشارہ کر رہے ہیں کہ وفاقی حکومت 28ویں آئینی ترمیم کی مدد سے نیشنل فنانس کمیشن اور صوبائی خود مختاری کے مقابلے میں ایسے اقدامات کرنا چاہتی ہے جس کا مقصد صوبوں کے مقابلے میں وفاق کو مضبوط کرنا ہے۔
دوسری طرف چیئرمین دنیا میڈیا گروپ میاں عامر محمود نئے صوبوں کی اہمیت اور بحث کو پورے ملک میں اٹھا رہے ہیں۔ نئے صوبوں کی تشکیل سے گورننس کا نظام بہتر ہو گا اور ملک میں مالیاتی وسائل کی تقسیم کا نظام بھی منصفانہ ہو گا۔ ایم کیو ایم اور استحکام پاکستان پارٹی نے نئے صوبوں کی تشکیل کی حمایت کی ہے‘ البتہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) سمجھتی ہیں کہ نئے صوبوں کی تشکیل سے ان جماعتوں کی سیاسی گرفت ڈھیلی ہو جائے گی۔ اسی لیے یہ لگتا ہے کہ یہ جماعتیں بلدیاتی انتخابات بھی اسی لیے کرانا چاہتی ہیں کہ اس نظام کو مضبوط بنا کر صوبوں کی بحث کو پیچھے دھکیل سکیں۔
یہ سوال بہت سے حلقوں میں زیر بحث ہے کہ کیا حکومت پنجاب صوبے میں بلدیاتی انتخابات کرانے کیلئے سنجیدہ ہے اور کیا عملی طور پر یہ انتخابات ممکن ہو سکیں گے‘ کیونکہ موجودہ حالات میں جو سیاسی محاذ آرائی اور سیاسی تقسیم موجود ہے‘ اس فضا میں بلدیاتی انتخابات کرانا یقینا ایک بڑا سیاسی چیلنج ہو گا۔ لیکن پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ اگر آنے والے کچھ ہفتوں میں 28ویں ترمیم آتی ہے تو اس کی حیثیت کیا ہو گی اور کیا بلدیاتی اداروں یا نئے صوبوں کے حوالے سے بھی کوئی آئینی ترمیم ہو رہی ہے۔ اگر 28ویں ترمیم میں بلدیاتی نظام کے حوالے سے تبدیلیاں ہوتی ہیں تو پھر فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بھی ممکن نہیں ہو سکے گا۔ نواز شریف نے وفاقی حکومت کو کہا ہے کہ وہ این ایف سی ایوارڈ کی مدد سے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی وسائل کی تقسیم کے عمل کو بہتر بنائیں اور صوبوں کو ہر صورت ان کا حصہ ملنا چاہیے۔ یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ اس وقت سیاسی محاذ پر بلدیاتی اداروں اور نئے صوبوں کی تشکیل کے حوالے سے پس پردہ بہت کچھ ہونے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ یہ الگ بحث ہے کہ ملک میں نئے صوبے کیسے بنیں گے اور اس کا طریقہ کار کیا ہو گا۔ کیا موجودہ پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتیں نئے صوبوں کی تشکیل میں مثبت کردار ادا کریں گی؟ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف نئے صوبوں کی تشکیل کی بحث کافی سرگرم ہے تو دوسری طرف بیشتر سیاسی جماعتیں اس بحث میں یا تو خاموش ہیں یا اس کی مخالفت کرتی پائی جاتی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ان معاملات پر سیاسی جماعتوں کی کوئی تیاری نہیں اور نہ ہی ان کا ایجنڈا واضح ہے۔ تاہم یہ امر مسلم ہے کہ سیاسی جماعتیں گورننس کے نظام میں بہتری کیلئے مؤثر اقدامات کرنے میں ناکام ہیں اور اسی وجہ سے ملک کا گورننس کا نظام لوگوں میں مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ اگر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ملک میں گورننس کے نظام کو بہتر بنایا ہوتا اور لوگ اس نظام سے مطمئن ہوتے تو پھر نئے صوبوں یا بلدیاتی اداروں کی بحث شاید اتنی شدت اختیار نہ کرتی۔ گورننس کی ناکامی نے ملک میں نئے صوبوں کی ضرورت اور بلدیاتی اداروں کا احساس پیدا کیا ہے۔
پنجاب میں بلدیاتی انتخابات ہوتے ہیں تو پی ٹی آئی کی مشکل یہ ہے کہ ایک طرف تو الیکشن کمیشن ان کی سیاسی جماعت کی حیثیت کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں اور دوسری طرف جو سیاسی حالات بن رہے ہیں ان میں ان کیلئے انتخابات میں حصہ لینا آسان نہ ہو گا۔ بانی پی ٹی آئی کے حوالے سے مائنس ون فارمولے پر بھی بات ہو رہی ہے۔ مائنس ون فارمولے کی بات ملک میں کوئی نئی نہیں ہے اور ماضی میں نواز شریف‘ بینظیر بھی اسی فارمولے کا شکار ہوئے تھے مگر ان کو مائنس نہیں کیا جا سکا۔ اس لیے اب بھی یہ کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو آسانی سے مائنس کر دیا جائے‘ یہ ممکن نہیں ہو گا کیونکہ یہ سب جانتے ہیں کہ پی ٹی آئی میں سے بانی کو نکال دیا جائے تو پھر اس سیاسی جماعت کی کوئی حیثیت باقی نہیں بچتی۔ وقت آگیا ہے کہ سیاسی جماعتیں نظام کی بہتری کیلئے آگے بڑھیں اور نئے صوبوں کی بحث میں بھی اپنا مؤثر کردار ادا کریں کیونکہ اگر سیاسی جماعتوں نے گورننس کے نظام کی بہتری کیلئے کوئی مؤثر کردار ادا نہ کیا تو اس سے ملک میں ان کی اہمیت بھی ختم ہو کر رہ جائے گی اور لوگ سمجھیں گے کہ سیاسی جماعتیں گورننس کے نظام کی بہتری میں سنجیدہ نہیں۔ آئی ایم ایف نے بھی اپنی رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ پاکستان کو گورننس کی بہتری کیلئے بڑے اقدامات کرنا ہوں گے۔ یہ بات بھی محسوس کی جا رہی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں عوامی سطح پر نئے صوبوں کی بات آگے بڑھ رہی ہے اور لوگ اس میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ وجہ یہی ہے کہ لوگ گورننس کے موجودہ نظام سے ناخوش ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس کی بہتری کیلئے نئے سیاسی آپشن اختیار کیے جانے چاہئیں۔
بہرحال لگتا ہے کہ آنے والے کچھ ہفتوں یا مہینوں میں سیاسی سطح پر بڑی تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں اور ان بڑی تبدیلیوں میں ایک بڑی تبدیلی 28ویں ترمیم کی بنیاد پر صوبوں کے معاملات میں ہو گی۔ جو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں یا دیگر گروپ جو ایک دوسرے پر سیاسی دباؤ بڑھا رہے ہیں‘ اس کی وجہ بھی یہی لگتی ہے کہ ان کو محسوس ہو رہا ہے کہ موجودہ نظام میں بہت کچھ تبدیل ہونے جا رہا ہے تو ہمیں بھی کچھ نیا سوچنا ہو گا۔ لیکن ایسے لگتا ہے کہ ان تمام معاملات پر سیاسی جماعتوں کا اپنا کوئی ہوم ورک نہیں اور وہ ردِ عمل کی سیاست کر رہی ہیں‘ جس سے ان کا اپنا سیاسی قد بڑھنے کے بجائے کم ہو رہا ہے۔ اصل میں سیاسی جماعتیں جو اس وقت اقتدار میں ہیں یا وہ جو پہلے اقتدار میں تھیں‘ سبھی نے مسائل پیدا کیے ہیں اور سب مل کر مسائل کا کوئی بہتر حل تلاش نہیں کر سکی ہیں۔ جب تک سیاسی جماعتیں خود کو مضبوط جمہوری جماعتوں کے طور پر پیش نہیں کریں گی اس وقت تک ان کی اہمیت لوگوں میں نہیں بڑھ سکے گی۔ اس لیے ابھی سیاسی استحکام کیلئے سیاسی جماعتوں کو ہی کام کرنا ہو گا اور ان کو اپنی ترجیحات کو درست انداز میں آگے بڑھانے کی حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں