"SG" (space) message & send to 7575

این ایف سی اجلاس کی اہمیت

نئے این ایف سی ایوارڈ کے ضمن میں چار دسمبر کو اسلام آباد میں بلائے جانے والے اجلاس کو وفاق اور صوبوں کے درمیان فنڈز کی تقسیم کے حوالے سے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 160کی شق دو کے تحت قومی مالیاتی کمیشن مختلف ٹیکس کیٹیگریز سے حاصل ہونے والی خالص آمدنی کی وفاق اور صوبوں کے درمیان تقسیم پر سفارشات مرتب کرے گا۔ نئے پیدا شدہ حالات میں وفاق آبادی کی بنا پر فنڈنگ کی تقسیم کے موجودہ عمل کو ختم کرکے سماجی کارکردگی اور مقامی حکومتوں کی فعالیت کو معیار بنانے پر زور دے رہا ہے۔ آبادی کے حوالے سے غلط اعداد و شمار کی باتیں بھی ہو رہی ہیں جس کے تحت صوبے اضافی وسائل کیلئے آبادی میں اضافہ ظاہر کرتے ہیں۔ 2009ء میں جاری ہونے والے ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کے محاصل کا حصہ ناقابلِ تقسیم محاصل میں 47فیصد سے بڑھا کر 57.5فیصد کر دیا گیا اور وفاق کا حصہ کم ہو کر 42.5فیصد رہ گیا۔ بعد ازاں سندھ‘ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کیلئے خصوصی اضافوں کے بعد یہ حصہ مزید بڑھ کر 59فیصد ہو گیا۔ جس کے بعد وفاق نے اپنے بڑھتے ہوئے مسائل کے باعث تقریباً ڈیڑھ کھرب روپے پٹرولیم لیوی نافذ کرکے وصول کیے‘ جس سے توازن وفاق کے حق میں ہو گیا۔ وفاق جی ڈی پی میں ایک فیصد اور صوبے 0.5فیصد اضافہ کی شرط پر بھی عملدرآمد نہ کرا سکے۔ اب وفاق نے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات اور خصوصاً سیلابی صورتحال کے باعث رواں مالی سال کیلئے طے شدہ معاشی شرح نمو کو پہلے ہی 0.7فیصد کم کر دیا ہے جبکہ وزارتِ خزانہ‘ وزارتِ دفاع اور آئی ایم ایف قابلِ تقسیم محاصل کا بڑا حصہ وفاق کو دینے کیلئے توازن تبدیل کرنے پر زور دے رہے ہیں‘ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آئین صوبوں کے حصے میں این ایف سی ایوارڈ میں کمی کی اجازت نہیں دیتا اور اس حوالے سے حتمی فیصلے مرکز اور صوبوں میں باہمی مشاورت سے ہی ہوسکتے ہیں۔ صوبوں کو ان کا حصہ آبادی‘ غربت اور ریونیو وصولی کی بنیاد پر ملتا ہے۔ بظاہر تو این ایف سی اجلاس میں وزیراعظم اور وفاقی حکومت کا براہِ راست فیصلہ سازی میں بڑا کردار نہیں ہوتا لیکن موجودہ حالات کے تناظر میں کہا جا رہا ہے کہ این ایف سی اجلاس میں سامنے آنے والی سفارشات پر حکومت اور اس کے اتحادی مل کر افہام و تفہیم سے فیصلہ کریں گے۔
قبل ازیں این ایف سی کو 27ویں آئینی ترمیم کا حصہ بنانے کی باتیں ہو رہی تھیں لیکن اس حوالے سے صوبائی حکومتوں کے بیانات اور تحفظات کے بعد یہ کام روک دیا گیا۔ اگرچہ اب حکومتی ذمہ داران 28ویں آئینی ترمیم کی تصدیق تو کر رہے لیکن این ایف سی سمیت بعض اہم ایشوز پر فیصلوں کو سیاسی مفاہمت سے مشروط قرار دیا جا رہا ہے اور اس حوالے سے خبریں ہیں کہ حکومتی اتحادیوں اور صوبائی حکومتوں کے درمیان مشاورت جاری ہے۔ ایسی خبریں بھی ہیں کہ حکومت این ایف سی کے حوالے سے آئی ایم ایف سے بھی بات کر رہی ہے مگر اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ‘ بہرکیف این ایف سی پر فیصلے یقینا آئی ایم ایف سے جاری پروگرام پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ مجوزہ این ایف سی ایوارڈ میں آبادی کا حصہ 83فیصد سے کم کرنے پر بھی مشاورت جاری ہے۔ این ایف سی کے حوالے سے صوبوں کے تحفظات کے بعد کہا جا رہا ہے کہ نئے این ایف سی میں صوبوں کے حصے پر کوئی کٹ نہیں لگے گا‘ بس وفاق پر پڑنے والے بوجھ میں سے کچھ صوبوں پر ڈالا جائے گا۔
این ایف سی کے حوالے سے کی جانے والی تیاریوں اور اس حوالے سے سامنے آنے والے تحفظات کا جائزہ لیا جائے تو بلاشبہ 18ویں آئینی ترمیم کے تحت وفاق سے صوبوں کو بھرپور وسائل اور مدد فراہم کی گئی ‘لیکن یہ فنڈنگ اضلاع کی سطح تک نہ پہنچ سکی جس پر ماہرین اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ 18ویں ترمیم میں صوبوں کی سطح پر فنانس کمیشن قائم کرکے اضلاع کو فنڈنگ کی ترسیل کی تجویز بھی تھی اور ضلعی سطح پر فنانس کمیشن بھی بننے تھے‘ اور ہر ضلع میں ترقیاتی عمل اور عوام کو درپیش مشکلات کا ازالہ ہونا تھا‘ لیکن عملاً دیکھنے میں آ رہا ہے کہ صوبوں کے پاس اضافی فنڈز موجود ہوتے ہیں لیکن انہیں اضلاع کی سطح پر ٹرانسفر سے گریز کیا جاتا ہے۔ یہی سبب مقامی حکومتوں کے قیام میں آڑے آ رہا ہے۔ جن صوبوں نے اپنے ہاں بلدیاتی انتخابات کرائے بھی ہیں وہ مقامی حکومتوں کو فنڈز فراہم کرنے سے گریزاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف جہاں این ایف سی ایوارڈ بارے تقسیم کے عمل میں ترمیم پر غور ہو رہا ہے وہیں مستقبل میں مقامی حکومتوں اور بلدیاتی نظام کو فعال اور بااختیار بنانے کی بات بھی کی جا رہی ہے۔ نئے صوبوں کی تحریک بھی زور پکڑ رہی ہے‘ اس کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ صوبائی حکومتیں اپنے اختیارات اور وسائل پر قدغن برداشت کرنے کو تیار نہیں اور مقامی حکومتوں کا خواب حقیقت نہیں بن پا رہا۔ بلاشبہ دفاع‘ خارجہ امور اور کرنسی کے معاملات وفاق کے سپرد ہوتے ہیں اور وفاق کو جہاں خارجہ معاملات میں ریاست کے مفادات کا تحفظ کرنا ہوتا ہے وہیں دفاع کا عمل بھی حکومت اور ریاست کیلئے اولین ترجیحات میں شامل ہو گیا ہے۔
بدلتے حالات میں وفاق کو مضبوط اور موثر بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ خطے کے حالات‘ خصوصاً دہشت گردی کے رجحانات اور تناؤ کی کیفیت میں ملک اپنے دفاع کے حوالے سے کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کر سکتا۔ رواں برس معرکۂ حق میں کامیابی کے بعد پاکستان کو بیرونی محاذ پر ملنے والی پذیرائی اور دنیا بھر کے اہم ممالک اور حکمرانوں کا علاقائی سطح پر پاکستان کو زیادہ اہمیت دینا جہاں ملک کی اہمیت بڑھا رہا ہے وہیں پاکستان میں مشرق و مغرب کے حکمرانوں اور ذمہ داران کی آمدورفت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کی بھی پاکستان پر خصوصی نظر ہے اور وہ پاکستان کیلئے جہاں امدادکو بڑھا رہے ہیں وہیں بہت سی شرائط کا پابند بھی بنا رہے ہیں۔ وفاق پر بڑھتا ہوا مالی دباؤ اب اسے صوبوں کو اپنے بوجھ میں حصہ دار بنانے پر مجبور کر رہا ہے۔ فی الحال تو صوبے اپنے اپنے اخراجات میں اضافے کا واویلا کرتے دکھائی دے رہے ہیں لیکن حالات کا تقاضا یہی ہے کہ اب صوبوں کو کچھ بوجھ اٹھانا پڑے گا اور وفاق کو ریلیف فراہم کرنا ہو گا۔ کیا صوبے اس حوالے سے مثبت کردار ادا کرپائیں گے؟
گیارہویں قومی مالیاتی کمیشن کا جو اجلاس چار دسمبر کو طلب کیا گیا ہے اس کی صدارت وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب کریں گے۔ اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزرائے خزانہ کے علاوہ قومی مالیاتی کمیشن کے دیگر اراکین بھی شرکت کریں گے اور اجلاس میں وفاق اور صوبے اپنی اپنی مالیاتی پوزیشن اور مسائل بارے بریفنگ دیں گے اور مذکورہ اجلاس میں ہی آئندہ اجلاسوں کا شیڈول طے ہو گا۔ یاد رہے کہ 2009ء میں جاری ہونے والا ساتواں این ایف سی ایوارڈ آج تک برقرار ہے حالانکہ اس کی آئینی مدت صرف پانچ سال ہوتی ہے اور اب گیارہویں قومی مالیاتی کمیشن کے اجلاس کے طویل عرصہ بعد انعقاد کو اس حوالے سے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ اس میں ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو ملنے والے بڑے حصے پر نظرثانی غیرمتوقع ہے۔ صوبے فی الحال نئے ایوارڈ میں اپنے حصے پر قدغن کیلئے تیار نظر نہیں آ رہے لیکن واقفانِ حال اسے نوشتہ دیوار قرار دے رہے ہیں۔ آئینی طور پر کسی بھی صوبے کا حصہ کم نہیں کیا جا سکتا اور این ایف سی ایوارڈ مرکز اور چاروں صوبوں کے اتفاقِ رائے سے طے پاتا ہے۔ وفاق کے ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبوں کے وسائل پر کٹ نہیں لگے گا لیکن صوبوں کو وفاق کا کچھ بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ کیا صوبے اس بوجھ کیلئے تیار ہوں گے‘ اس کا پتہ چار دسمبر کے اجلاس کے بعد لگے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں