پاکستان میں بلدیاتی انتخابات کی تاریخ زیادہ روشن نہیں ہے۔ ہمارے حکمران طبقات میں کبھی بھی نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی اور بلدیاتی اداروں کو مضبوط بنانے کی روایت نہیں رہی بلکہ ہمیشہ انہیں کمزور بنانے کی پالیسی اختیار کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ عام لوگوں کے مسائل کے حوالے سے گورننس ہمیشہ سے ایک اہم اور سنجیدہ مسئلہ رہا ہے۔ آج کل پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا معاملہ گرم ہے۔ نیا ایکٹ بن جانے کے بعد الیکشن کمیشن نے اپنا جاری کردہ شیڈول واپس لے لیا ہے۔ پنجاب میں آخری بار بلدیاتی الیکشن 2015ء میں ہوئے تھے اور یہ انتخابات بھی صوبائی حکومت نے اس وقت کرائے جب سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا۔ اگر سپریم کورٹ مداخلت نہ کرتی تو ممکن تھا کہ اُس وقت کی صوبائی حکومت بلدیاتی انتخابات سے گریز کرتی۔ گزشتہ دس برس میں پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا نہ ہونا یقینی طور پر سیاست اور جمہوریت کے مفاد میں نہیں اور عام آدمی کو ان مقامی اداروں کے نہ ہونے کی وجہ سے گورننس کے مسائل کا سامنا ہے۔
اگرچہ ماضی میں الیکشن کمیشن صوبائی حکومتوں کو الیکشن کرانے کا پابند کرتا رہا ہے مگر صوبائی حکومتیں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے باوجود ٹال مٹول سے کام لیتی رہیں۔ اسکی ایک مثال حالیہ دنوں میں دیکھنے میں آئی کہ جیسے ہی الیکشن کمیشن نے دسمبر کے آخری ہفتے میں لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2022ء کے تحت بلدیاتی الیکشن کرانے کا اعلان کیا تو پنجاب حکومت نے نیا ایکٹ پاس کرا لیا۔ اب نئے انتخابات 2025ء کے ایکٹ کے تحت ہوں گے۔ اس ایکٹ کی منظوری کے بعد صوبائی حکومت نے الیکشن کمیشن کی مدد سے نئی حلقہ بندیاں کرنی ہیں اور اس کے بعد ہی انتخابی شیڈول جاری کیا جائے گا۔ لہٰذا یہ بات یقینی ہے کہ اب دسمبر 2025ء میں بلدیاتی الیکشن کا انعقاد نہیں ہو سکے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ اگر پنجاب حکومت کو بلدیاتی انتخابات کی کڑوی گولی نگلنا پڑی تو ان انتخابات کو مارچ‘ اپریل تک طول دینے کی کوشش کی جائے گی۔ الیکشن کمیشن نے پنجاب حکومت کو حلقہ بندیوں کے قواعد و ضوابط فائنل کرنے کیلئے چار ہفتوں کی مہلت دی ہے‘ جس کے بعد حلقہ بندیوں کا شیڈول جاری کیا جائے گا اور پھر انتخابی شیڈول جاری ہو گا۔ ماضی میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا اعلان تو کرتی رہیں مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا اور اب بھی نیا بلدیاتی ایکٹ صوبائی حکومت کی ترجیح سے زیادہ الیکشن کمیشن کے دباؤ کا نتیجہ ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کیلئے الیکشن کمیشن اور کبھی اعلیٰ عدالتوں کو صوبائی معاملات میں مداخلت کرنا پڑتی ہے۔
1973ء کے آئین کے آرٹیکل 140اے کے تحت تمام صوبائی حکومتیں پابند ہیں کہ وہ اپنے اپنے صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کو یقینی بنا کر سیاسی‘ انتظامی اور مالی اختیارات مقامی سطح پر عوام کے منتخب نمائندوں کو منتقل کریں گی۔ آئین یہ بھی کہتا ہے کہ یہ سیاسی‘ انتظامی اور مالی اختیارات بیورو کریسی کے بجائے بلدیاتی اداروں کو منتقل کیے جائیں گے مگر صوبائی حکومتیں سیاسی و جمہوری حقوق اور آئین کی پامالی کیساتھ بلدیاتی اداروں کا استحصال بھی کرتی رہتی ہیں۔ یہ مسئلہ کسی ایک سیاسی جماعت کا نہیں بلکہ اقتدار میں شامل تمام جماعتیں اپنے اپنے صوبوں میں بلدیاتی اداروں کو نظر انداز کرتی رہی ہیں۔ 18ویں ترمیم کے بعد جیسے مرکز نے صوبوں کو اختیارات منتقل کیے تھے‘ اسی طرح صوبوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اضلاع کی سطح پر اداروں کو نہ صرف مضبوط بنائیں بلکہ انہیں مکمل خودمختاری بھی دی جائے تاکہ یہ ادارے عوام کے مسائل مقامی طور پر بہتر انداز میں حل کر سکیں۔ خرابی یہ ہے کہ صوبائی حکومتیں اور صوبائی ارکانِ اسمبلی اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کو تیار نہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اختیارات کی اس تقسیم سے انکی سیاسی طاقت کمزور ہو جائے گی۔ اسی سوچ کی بنیاد پر صوبائی حکومتیں بلدیاتی اداروں کو مضبوط بنانے کے بجائے ان کو کمزور رکھتی ہیں تاکہ وہی اختیارات پر قابض رہیں۔ پنجاب کا نیا منظور کردہ بلدیاتی ایکٹ 2025ء دیکھیں تو اس میں بھی عوام کے منتخب نمائندوں کے مقابلے میں بیورو کریسی کو اختیارات دیے گئے ہیں‘ جس سے بلدیاتی نظام مضبوط نہیں کمزور ہوگا۔ لوگوں کے روزمرہ کے مسائل جن میں تعلیم‘ صحت‘ روزگار‘ صاف پانی‘ سیوریج کا نظام‘ پارکوں کی دیکھ بھال‘ سڑکوں کی تعمیر ومرمت اور صفائی کا نظام وغیرہ شامل ہیں‘ عوام کی توقعات پر پورا نہیں اتر رہا اور لوگ حکمرانی کے اس نظام سے ناخوش ہیں۔ سیاسی جماعتیں اور انکی قیادت ہمیشہ ملک میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی باتیں کرتی ہے لیکن یہی جماعتیں بلدیاتی اداروں کو مقامی سطح پر مضبوط کرنے سے گریز کرتی ہیں‘ جو انکے دہرے معیارات کو سامنے لاتا ہے۔ صوبائی حکومتیں سمجھتی ہیں کہ بلدیاتی اداروں کو نظر انداز کر کے وہ ملک کے مسائل کو حل کر سکتی ہیں۔ یہ انکی نہایت غلط اپروچ ہے۔ دنیا بھر میں جہاں جہاں بھی اچھی گورننس ہے وہاں اسکی بڑی وجہ ان ملکوں میں بلدیاتی اداروں کو اہمیت دینا اور انہیں مضبوط بنانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ان ریاستوں میں حکمرانی کے نظام سے مطمئن ہیں اور حکومت پر اعتماد کرتے ہیں۔ پاکستان میں اسکے بالکل برعکس ہے۔ اسی لیے لوگ بلدیاتی اداروں کے نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں نئے صوبوں کی تشکیل کا مطالبہ کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو ملک کا اصل مسئلہ ارتکازِ اختیارات ہے۔ اس کیلئے ایک طرف جہاں نئے صوبے بننے چاہئیں‘ وہیں مضبوط بلدیاتی ادارے بھی ہماری ترجیحات کا اہم حصہ ہونے چاہئیں کیونکہ ان کی مدد سے ہم ملک میں گورننس کے نظام کی بہتری لا سکتے ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہمارے حکمران طبقات‘ چاہے ان کا تعلق کسی بھی صوبے اور کسی بھی جماعت سے ہو‘ ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کو تیار نہیں اور ایک ایسے نظام کا تحفظ کر رہے ہیں جو عوامی مفادات کے خلاف ہے۔
پنجاب میں فوری طور پر نہ صرف بلدیاتی انتخابات ہونے چاہئیں بلکہ بلدیاتی اداروں کو سیاسی‘ انتظامی اور مالی بنیادوں پر خود مختاری بھی دی جانی چاہیے تاکہ یہ ادارے عوامی توقعات پر پورا اتر سکیں۔ اگر سیاسی جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ ہم بلدیاتی اداروں کو نظر انداز کر کے مصنوعی طور پر اس نظام کو چلا سکتے ہیں تو وہ غلطی پر ہیں۔ کیونکہ آج دنیا بھر میں جمہوریت اور سیاست کو مضبوط بنانے اور عام آدمی کے مسائل کے فوری حل میں بلدیاتی اداروں کی نہ صرف بہت زیادہ اہمیت ہے بلکہ ان اداروں کو جمہوریت کی کلید سمجھا جاتا ہے۔ بلدیاتی اداروں کی کمزوری کا مسئلہ صرف پنجاب تک محدود نہیں‘ دیگر صوبوں میں بھی جو بلدیاتی ادارے ہیں ان میں اصل اختیارات پر صوبائی حکومتوں کا کنٹرول ہے اور مقامی ادارے بے بس نظر آتے ہیں۔ یہ بدقسمتی ہے کہ ہماری حکمران جماعتیں عوام اور عوام کے منتخب نمائندوں کو مضبوط بنانے کے بجائے بیورو کریسی پر زیادہ انحصار کرتی ہیں‘ جس کا لانگ ٹرم میں انہیں بڑا سیاسی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اس سے افسر شاہی مضبوط ہوتی اور عوام میں سیاسی جماعتوں کی بنیادیں کمزور ہوتی ہیں۔
پنجاب حکومت بلدیاتی انتخابات نہ کروا کر ایک طرف جہاں لوگوں کے سیاسی اور جمہوری حقوق کو سلب کر رہی ہے وہیں وہ آئین اور قانون کی پامالی بھی کر رہی ہے۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ پنجاب حکومت نے صوبائی اسمبلی سے عجلت میں جو بلدیاتی ایکٹ منظور کرایا ہے اسکی وجہ الیکشن کمیشن کا دباؤ ہے۔ اگر یہ دباؤ نہ ہوتا تو شاید اب بھی صوبائی حکومت اس بلدیاتی ایکٹ کی منظوری نہ دیتی۔ اب بھی کچھ لوگوں کو اس بات کا یقین نہیں کہ بلدیاتی انتخابات اگلے تین‘ چار ماہ میں ممکن ہو سکیں گے اور انکا کہنا ہے کہ حکومت اس برس تو کیا‘ اگلے برس بھی انکا انعقاد نہیں کرائے گی۔ پنجاب حکومت کیلئے بلدیاتی الیکشن کا انعقاد ایک بڑا چیلنج ہے۔ دیکھنا ہے کہ صوبائی حکومت اس ذمہ داری سے کس حد تک عہدہ برآ ہوتی ہے۔ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری بھی کم نہیں۔ اگر یہ لگے کہ صوبائی حکومت قصداً تاخیری حربے اختیار کر رہی ہے تو اسے اپنا آئندہ کا لائحہ عمل تیار رکھنا چاہیے۔