امریکی شہر نیویارک میں ہونے والے میئر کے انتخابات میں 34سالہ زہران ممدانی نے کامیابی حاصل کرکے لوگوں کی توجہ بلدیاتی اداروں اور ان کی اہمیت کی طرف مبذول کرائی ہے۔ لوگوں کو اندازہ ہوا ہے کہ جمہوری ملکوں میں میئر کے براہِ راست انتخاب اور اس نظام کی عام لوگوں کیلئے کتنی زیادہ اہمیت ہے۔ زہران ممدانی کی جیت کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ امریکی صدر نے براہِ راست ان کے خلاف نہ صرف مہم چلائی بلکہ دھمکی بھی دی کہ اگر وہ جیت گئے تو وہ بطور صدر نیویارک کے مالیاتی فنڈز روک دیں گے۔ لیکن اس کے باوجود ووٹرز نے زہران ممدانی کو نہ صرف جیت سے ہمکنار کیا بلکہ اس نظام نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ امریکی صدر بھی ووٹرز کے فیصلے کو کسی صورت تبدیل نہیں کر سکتا۔ نیویارک سٹی کے میئر کا انتخاب یقینی طور پر پاکستان کی سیاسی قیادت بالخصوص حکمران جماعتوں کیلئے ایک سبق ہے کہ امریکہ میں مقامی حکومتوں کا نظام کس قدر مضبوط بنیادوں پر قائم ہے کہ امریکی صدر بھی اس نظام میں مداخلت نہیں کر سکتا۔
بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں بلدیاتی ادارے بہت کمزور ہیں اور صوبائی حکومتیں ان اداروں کو سیاسی بنیادوں پر مستحکم بنانے کیلئے تیار نہیں۔ جب بھی بلدیاتی اداروں کو مضبوط کرنے کی بات کی جاتی ہے تو صوبائی حکومتیں‘ چاہے ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو‘ اس نظام کو مضبوط بنانے کے بجائے بیورو کریسی کو مضبوط بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ ایک طرف ہم یہ کہتے ہیں کہ بلدیاتی ادارے جمہوریت کی نرسریاں ہیں لیکن صوبوں میں اس نظام کو قائم کرنے میں ہم سیاسی طور پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے اور اس نظام کو نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔ نیویارک سٹی کا حالیہ انتخاب محض ایک شہر کی قیادت کا انتخاب تھا‘ مگر لوگ بجا طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ اس مقامی نظام ہی سے ان کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نیویارک کے شہریوں نے میئر کے انتخاب میں بڑی گرمجوشی کا مظاہرہ کیا حتیٰ تک کہ امریکی صدر بھی اس انتخابی معرکے میں کود پڑے‘ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اگر شہر میں ان کی مرضی کا میئر منتخب نہ ہو سکا تو ان کی حکومت کیلئے کچھ مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔اب دیکھنا ہوگا کہ امریکی صدر نو منتخب میئر کے ساتھ تعاون کے امکانات کو کس حد تک بڑھاتے ہیں۔
جمہوریت کا حسن یہی ہوتا ہے کہ نچلی سطح پر زیادہ سے زیادہ مضبوط نظام موجود ہو اور وہ لوگوں کے بنیادی مسائل کو حل بھی کر رہا ہو۔ پاکستان میں جو سیاسی بے چینی پائی جاتی ہے‘ اس کی وجہ لوگوں کے بنیادی نوعیت کے مسائل ہیں۔ ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں ان مسائل کو حل کرنے میں بری طرح ناکام ہیں۔ اسی سبب لوگوں کو لگتا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مقابلے میں ان کی بہتری کیلئے بلدیاتی اداروں کا ہونا ناگزیر ہے۔ لیکن شاید ہماری سیاسی قیادتیں اب بھی ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کیلئے تیار نہیں اور نہ ہی وہ اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنا چاہتی ہیں۔ اسی تضاد کی وجہ سے پاکستان میں حکمرانی کا نظام بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔
ہمارے ملک میں جب بھی اصلاحات یا آئین میں ترمیم کی بات ہوتی ہے تو ہماری سیاسی قیادت بلدیاتی اداروں کو نظر انداز کر دیتی ہے۔ اس کا نتیجہ ملک میں حکمرانی کے بحران کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ مقامی سطح پر لوگوں کے بنیادی نوعیت کے مسائل بڑھ رہے ہیں اور وہ ان کا حل چاہتے ہیں۔ یہ جو صوبائی سطح سے نچلی سطح تک ہم فرسودہ اور روایتی نظام چلا رہے ہیں‘ وہ اپنی اہمیت گنوا چکا ہے اور اب لوگ ایک نئے نظام کے متلاشی ہیں۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان مسائل کا حل نئے صوبوں کی تشکیل میں پنہاں ہے اور کچھ لوگ بلدیاتی اداروں کی مضبوطی کی بات کرتے ہیں۔ دونوں باتوں میں وزن ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ جہاں نئے صوبے بننے چاہئیں وہیں بلدیاتی اداروں کو مستحکم کرنا بھی ریاست اور حکومت کی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔ مگر ہمارا حکمران طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر اختیارات نچلی سطح پر منتقل ہو گئے تو ان کی سیاسی طاقت کم ہو جائے گی اور لوگ وفاقی اور صوبائی نظام کے مقابلے میں مقامی نظام کو ترجیح دیں گے۔ صوبائی اسمبلیوں کے ممبران سمجھتے ہیں کہ بلدیاتی اداروں کی موجودگی میں وسائل کی تقسیم میں ان کا حصہ کم ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ صوبائی اسمبلیاں اور خود صوبائی حکومتیں بلدیاتی نظام کو مستحکم کرنے کیلئے تیار نہیں۔ لیکن اس طرزِ عمل کی وجہ سے سب سے زیادہ پریشانی اور مشکلات کا سامنا عوام کو ہے اور وہ ان حکومتی فیصلوں کی ایک بھاری قیمت چکا رہے ہیں۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر بھی ایک سے زیادہ مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ حکومتوں کو گورننس کے معاملات کو درست کرنا ہوگا کیونکہ اس نظام کی بہتری کے بغیر سیاسی اور معاشی ترقی کے امکانات محدود ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وفاقی اور صوبائی حکومتیں بلدیاتی اداروں کو مسلسل نظر انداز کر رہی ہیں اور نظام پر اپنا کنٹرول بڑھانا چاہتی ہیں۔ وہ اختیارات منتقل کرنے کے بجائے بیورو کریسی کی مدد سے اس نظام کو چلائے رکھنا چاہتی ہیں۔ عوام کے منتخب نمائندوں کے مقابلے میں بیوروکریسی کی مدد سے چلایا جانے والا نظام ہمارے ملک میں کئی دہائیوں سے چل رہا ہے مگر اس کے باوجود یہ نظام مطلوبہ نتائج نہیں دے سکا۔اس لیے حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ بیوروکریسی کی مدد سے چلنے والا نظام اپنی افادیت کھو بیٹھا ہے اور لوگ اب اس پر مزید اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ ایم کیو ایم سمیت کچھ جماعتوں نے مطالبہ کیا تھا کہ 27ویں ترمیم میں بلدیاتی اداروں کو بھی قانونی تحفظ دیا جائے تاکہ یہ نظام تسلسل کے ساتھ آگے بڑھ سکے۔27ویں ترمیم پارلیمنٹ میں پیش ہو کر منظوری کے مراحل میں ہے مگر بڑی سیاسی جماعتوں نے اس ترمیم میں بلدیاتی اداروں کو مضبوط کرنے پر کوئی خاص رضامندی ظاہر نہیں کی‘ اور اگر اب بھی بلدیاتی اداروں کو مستحکم نہ کیا گیا تو یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہو گی‘ کیونکہ کئی کئی برس تک بلدیاتی اداروں کے انتخابات نہ کرانا صوبائی حکومتوں کا وتیرہ بن چکا ہے اور وہ تمام اختیارات اپنی مٹھی میں بند رکھنا چاہتی ہیں۔
آج کی دنیا میں تمام ترقی یافتہ ملکوں میں مضبوط بلدیاتی اداروں کا نظام موجود ہے۔ ہم ان اداروں کی اہمیت سے انکار کر کے ملکی مسائل میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔آج کی دنیا میں یہ ممکن نہیں کہ ہر ضلع اور تحصیل میں صوبائی حکومتیں خود براہِ راست جا کر معاملات کی نگرانی کریں‘اس لیے مسائل کا حل مضبوط بلدیاتی ادارے ہیں۔ اس نظام کو بنیاد بنا کر صوبائی حکومتیں گورننس کے معاملات کو بہتر بنا سکتی ہیں۔ جب مقامی سطح پر بلدیاتی نظام مستحکم ہوگا تو یقینی طور پر اس کا اثر صوبائی اور وفاقی نظام پر بھی پڑے گا اور لوگوں کا اس نظام پر اعتماد بڑھے گا۔جب تک لوگوں کے مسائل کی بنیاد پر وسائل کی منصفانہ تقسیم کو ممکن نہیں بنایا جائے گا اور لوگوں کو مقامی سطح پر فیصلہ سازی میں شریک نہیں کیا جائے گا‘ اس وقت تک لوگ سیاسی نظام پر کیونکر اعتبار کریں گے۔عوام کے بیشتر مسائل مقامی نوعیت کے ہوتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کے مسائل کا حل بھی مقامی سطح پر‘ ان کی دہلیز پر ہو۔لیکن ایسا نہیں ہو رہا اور چھوٹے چھوٹے کاموں کیلئے لوگوں کو بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے جس سے ان کیلئے مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔پنجاب میں آخری بلدیاتی انتخابات 2015ء میں ہوئے تھے اور اس کے بعد ایک دہائی گزر چکی مگر اب تک بلدیاتی اداروں کے انتخابات نہیں ہو سکے۔پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کی صوبائی حکومتیں بلدیاتی اداروں کو مضبوط بنانے میں ناکام رہی ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے سیاسی نظام میں اصلاحات کریں اور ان اصلاحات کا مقصد عام آدمی کو زیادہ سے زیادہ ترقی کے عمل میں شامل کرنا ہونا چاہیے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب صوبائی حکومتیں سیاسی نظام کو بلدیاتی اداروں کی بنیاد پر استوار کریں۔