"SG" (space) message & send to 7575

28ویں آئینی ترمیم کی بازگشت

ملک کے سیاسی حلقوں میں 27ویں ترمیم کے بعد اب 28ویں ترمیم کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جو کام 27ویں ترمیم میں مکمل نہیں ہو سکا اسے 28ویں ترمیم کی منظوری کے ساتھ یقینی بنایا جائے گا۔ اس مجوزہ ترمیم میں نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) میں بھی تبدیلی متوقع ہے‘ جس کے تحت صوبوں سے تعلیم‘ صحت اور محکمہ بہبودِ آبادی کا شعبہ وفاقی حکومت کو منتقل کیا جائے گا اور صوبائی ووفاقی مالیاتی معاملات میں توازن پیدا کرنا بھی اس ترمیم کی اہم شق ہے۔
27ویں ترمیم میں ایم کیو ایم کی حمایت حاصل کرنے کیلئے اسے یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ مجوزہ 28ویں ترمیم میں بلدیاتی اداروں کو آئینی تحفظ دیا جائے گا تاکہ ان اداروں کو صوبائی سطح پر تسلسل کیساتھ چلایا جا سکے۔ اس سے قبل پنجاب اسمبلی میں بھی ایک قرارداد منظور کی گئی تھی‘ جس میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ بلدیاتی اداروں کو آئینی تحفظ دیا جائے لیکن سندھ میں پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کے اس مطالبے کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور نہ ہی صوبائی مالیاتی تقسیم کے فارمولے میں ایسی ترمیم چاہتی ہے جس سے اس کی صوبائی خود مختاری متاثر ہو۔ بلاول بھٹو یہ کہہ چکے ہیں کہ کوئی بھی حکومت یا سیاسی جماعت ہماری مرضی کے بغیر صوبائی سطح پر ترمیم نہیں کر سکتی‘ صوبائی حکومت کے معاملات میں مداخلت کی گئی تو ہم وفاق کے خلاف بھرپور مزاحمت کریں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ 26ویں اور 27ویں ترامیم کی منظوری کے دوران بھی پی پی نے مزاحمت کی تھی جس کی وجہ سے ترامیم کی منظوری میں رخنہ پیدا ہوا لیکن اس بار حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ 28ویں ترمیم بھی اسی طرح سے منظور ہو گی جس طرح سے پچھلی ترامیم منظور ہوئی تھیں۔ پیپلز پارٹی کا ماننا ہے کہ اگر وہ ایسی ترامیم کا سہارا لیتی یا انکی حمایت کرتی ہے تو اسے سندھ میں سیاسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی 18ویں ترمیم کو سندھ میں اپنی بڑی سیاسی طاقت سمجھتی ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ اسی کو بنیاد بنا کر ہمیں سندھ کارڈ کھیلنا ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ مقتدر حلقے 28ویں ترمیم میں پیپلز پارٹی کے تحفظات کو کس حد تک اہمیت دیتے ہیں یا ان کو کس حد تک دباؤ میں لایا جاتا ہے کہ وہ 28ویں ترمیم کی من وعن حمایت کریں۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ن) میں بھی ایسے لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ہمیں ایسی کسی ترمیم کی حمایت نہیں کرنی چاہیے جس سے صوبائی سطح پر سیاسی مشکلات میں اضافہ ہو۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ (ن)‘ اس وقت یہ جماعتیں ایک کمزور سیاسی پوزیشن پر کھڑی ہیں؛ البتہ اگر دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے کوئی مشترکہ سیاسی حکمت عملی اختیار کی تو کچھ معاملات میں رد وبدل ہو سکتا ہے۔ 28ویں ترمیم میں ایسی سیاسی گنجائش پیدا کی جا سکتی ہے جس سے ان دونوں جماعتوں کے سیاسی مفادات کو زیادہ ٹھیس نہ پہنچے۔
پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ اگر ایم کیو ایم کے بلدیاتی بل کی حمایت کی گئی تو اس سے سندھ کے شہری حلقوں میں ایم کیو ایم کی اہمیت بڑھے گی اور پیپلز پارٹی کو نقصان ہو گا۔ اس وقت کراچی کی سیاست میں بلدیاتی اداروں پر پیپلز پارٹی کا کنٹرول ہے اور ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ یہ کنٹرول اسے مقتدرہ کی طاقت کی بنیاد پر حاصل ہوا ہے‘ کراچی کے شہری حلقوں میں ایم کیو ایم کی سیاسی طاقت کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ مجوزہ 28ویں ترمیم میں جو کچھ ایجنڈے کا حصہ ہے‘ اس پر پیپلز پارٹی نے پہلے ہی سیاسی ماحول گرم کر رکھا ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ 28ویں ترمیم دراصل صوبائی مفادات کو کمزور کر کے ایک بار پھر وفاقی سیاست کو مضبوط کرنے کا منصوبہ ہے اور وہ اس کی مزاحمت کرنااپنا سیاسی حق سمجھتی ہے۔ لیکن اگر طاقتور حلقوں نے 28ویں ترمیم کا فیصلہ کر لیا ہے تو ایسے میں پیپلز پارٹی کس حد تک اپنے مؤقف پر کھڑی رہ سکتی ہے‘ یہ ایک اہم سوال ہے۔
پیپلز پارٹی کیلئے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس کے سیاسی مخالفین سندھ کی سیاست میں پہلے ہی یہ تحریک چلا رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے 27ویں ترمیم کی بنیاد پر سندھ کے مفادات کا سودا کیا ہے اور عدلیہ کو کمزور کرنے میں بھی اس کا حصہ ہے۔ پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ اگر اس نے 28ویں ترمیم میں کمزوری دکھائی تو سندھ میں اس کے سیاسی مخالفین مزید مضبوط ہو ں گے۔ بلدیاتی اداروں کے حوالے سے پیپلز پارٹی کا ماننا ہے کہ یہ صوبائی صوابدید کا معاملہ ہے اور صوبے اپنی مرضی و منشا کے مطابق اس میں ترمیم کرنے کا حق رکھتے ہیں‘ وفاقی حکومت کو ان معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ ممکن ہے کہ پیپلز پارٹی بلدیاتی اداروں کو تحفظ دینے کے معاملے میں کچھ لچک دکھا ئے البتہ صوبائی مالیاتی تقسیم کے معاملے میں وہ آسانی سے وفاق کا ایجنڈا قبول نہیں کرے گی۔ اس میں شک نہیں کہ بلدیاتی اداروں کو صوبوں کی سطح پر آئینی تحفظ حاصل ہونا چاہیے اور بلدیاتی انتخابات میں تسلسل کا ہونا بھی ازحد ضروری ہے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتوں نے بلدیاتی اداروں کے معاملے میں کمزوری دکھائی اور اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ملک میں بلدیاتی ادارے خاصی کمزور بنیادوں پر کھڑے ہیں۔ دوسری جانب یہ بھی دلچسپ امر ہے کہ بعض ججز اور وکلا تنظیموں نے 27ویں ترمیم کی منظوری پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے اور قانونی سطح پر اس ترمیم کو چیلنج بھی کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں وفاقی حکومت کی جانب سے 28ویں ترمیم کو پیش کرنا بذاتِ خود ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ پہلے ہی ملک میں سیاسی صورتحال غیر مستحکم ہے اور سیاسی محاذ کی حدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں 28ویں ترمیم سیاسی حدت کو مزید بڑھانے کا سبب بنے گی۔ وفاقی حکومت کا سب سے بڑا امتحان یہ ہو گا کہ وہ 28ویں ترمیم کی منظوری میں اپنی بڑی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کو کیسے راضی کرتی ہے۔ 28ویں ترمیم کی منظوری پیپلز پارٹی کی حمایت کے بغیر تو ممکن نہیں‘ اور جب تک پیپلز پارٹی کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر راضی نہیں ہوتی تب تک 28ویں ترمیم منظور نہیں ہو سکے گی۔ بلاول بھٹو پُرجوش ہیں مگر فیصلہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے کرنا ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ وہ اپنا سیاسی وزن کس پلڑے میں ڈالتے ہیں۔
ادھر پی ٹی آئی نے دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر 27ویں ترمیم کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ اس تحریک میں مولانا فضل الرحمن بھی ان کے ساتھ ہوں۔ کہا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے مابین پس پردہ بہت سے معاملات چل رہے ہیں۔ یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ مولانا فضل الرحمن کو محمود خان اچکزئی کی جگہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نامزد کیا جائے تو اس کے نتیجے میں ایک بڑی تحریک اٹھائی جا سکتی ہے۔ لیکن کیا ایسا ممکن ہو سکے گا‘ یہ آنے والے دنوں میں علم ہو جائے گا۔ وفاق کی کوشش ہوگی کہ وہ مولانا فضل الرحمن کو پی ٹی آئی کے پلڑے میں جانے سے روکا جائے تاکہ حکومت کے خلاف کسی بڑی تحریک کے امکانات پیدا نہ ہوں۔ اس کیلئے حکومت مولانا فضل الرحمن کو سیاسی طور پر کس طرح رام کرتی ہے‘ یہ بھی دلچسپ معاملہ ہو گا۔ مولانا صاحب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی قیادت سے زیادہ خوش نہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان سے جو وعدے کیے گئے تھے وہ پورے نہیں ہو ئے۔ بہرحال ملکی سیاست میں 28ویں ترمیم کا کھیل شروع ہو چکا‘ دیکھنا یہ ہے کہ اس کھیل میں کون سی جماعت کس پوزیشن پہ کھڑی ہوتی ہے اور کیا وہ قوتیں جو 28ویں ترمیم کو ہر صورت منظور کرانا چاہتی ہیں‘ اپنے ایجنڈے میں کامیاب ہو سکیں گی؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو اسکے بعد وفاقی حکومت میں شامل دونوں بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سیاسی طور پر کہاں کھڑی ہوں گی؟ موجودہ صورتحال میں اس بات کے امکانات زیادہ ہیں کہ مقتدر طبقہ 28ویں ترمیم کی منظوری سے کافی حد تک اپنے مقاصد کی تکمیل میں کامیاب ہو جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر سیاسی جماعتوں کی حیثیت مزید کمزور ہو جائے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں