یہ کہانی اُس دور کے راوی سے منسوب ہے جب پنجاب میں راوی کی حکمرانی تھی۔ اگر راوی کا موڈ اچھا ہوتا تو پانی کے اس بادشاہ کی لہریں دھیمے ردھم سے چلتی رہتیں۔ ادھر موڈ خراب ہوا ادھر کھیت‘ فصلیں‘ ڈھور ڈنگر اور آبادیاں برباد ہونا شروع اور دریا کی زمین کا قبضہ واپس۔ لیکن ایسا تبھی ہوتا تھا جب کوئی مطلب پرست‘ جاہ پرست‘ منافع پرست اور اقتدار پرست یا شاہ پرست راوی کے اندر موقع پرستی کی حدِ تناسب میں تجاوز کرتا۔17ویں‘ 18ویں صدی کی اس کہانی میں شاہ کا مطلب شہنشاہِ انگلستان تھا‘ یا پھر ملکۂ ہندوستان۔ افرنگی راج میں ہمیشہ اپنی قابض فوجوں کو دو علیحدہ‘ علیحدہ گیریزن کے اندر رکھا جاتا۔ پہلا گیریزن برٹش رائل فورسز کے لیے مخصوص ہوتا تھا جبکہ نمبر دو یا بغلی گیرزن برٹش آرمی کے دیسی یا مقامی فوجیوں کے لیے۔ آپ نے انڈیا کے بے لاگ مسلم پروڈیوسر اور ٹیلنٹڈ ایکٹر عامر خان کی فلم ''لگان‘‘ شاید دیکھ رکھی ہو۔ ایک تاریخی تناظر کی تفہیم میں یہ فلم حائل ہوئی کہ شاید میری بات لگان کے تناظر میں آسانی سے سمجھ آ جائے۔ ایک ناقابلِ تردید حقیقت یہ ہے کہ مغربی استعمار کا پورے کا پورا سٹرکچر‘ صرف اور صرف امپیریل ازم اور کیپٹل ازم کے ستونوں پر کھڑا ہوا ہے‘ جس میں کمزور ملکوں کے خلاف ننگی جارحیت‘ بلا وجہ فرسٹ سٹرائیک والے حملے اور اپنی مرضی کے جنگی معاہدے کرنے کا آرٹ شروع دن سے چلا آتا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ کسی معاہدے میں ایک طرف قرض پر پلنے اور چلنے والے بھکاری ہوں اور دوسری طرف کرۂ ارض کی سب سے بڑی سپرپاور‘ تو ایسے میں معاہدے کے ToR's کون طے کرے گا؟
پچھلے کچھ ہفتوں سے اقتدار کے پجاریوں نے امریکی صدر ٹرمپ کی خوب چاپلوسی کی۔ مگر امریکہ بہادر نے وزیراعظم اور فارم 47 کے نظام کی اتنی کھل کر تعریف کرنا شروع کر دی کہ جس میں میرے ذہن ودماغ میں ٹلّیاں بجنے لگیں۔ چنانچہ میں نے اسی صفحے پر وکالت نامہ میں بھی‘ اور بابر اعوان آفیشل نیٹ ورک پر بول کر بھی اس خدشے کا اظہار کیا کہ اللہ خیر کرے امریکہ پھر سے اتنا مہربان کیوں ہے۔ محض دو ہفتے کے وقفے سے ہی امریکہ کی پراکسی بگرام جنگ منڈلانے لگی۔ آپ ذرا ایک دوسرے پہلو پر بھی غور کریں۔ ہمارا ایک پڑوسی‘ جو شہد سے میٹھا ہے‘ جس کی دوستی ہمالہ سے اونچی ہوا کرتی تھی‘ آج کل وہ تعلقات سائبیریا سے بھی زیادہ سرد اور یخ بستہ ہو چلے ہیں۔ جس ملک کی فارن پالیسی غیر سفارتکار حضرات سوچیں‘ پھر اُس کے Contour's تراشے جائیں‘ پھر اس فارن پالیسی کا واحد مقصد ملک کے چند غیر منتخب لوگوں کی PR کرنا ہو‘ پھر US, Westo Fixed فارن پالیسی سے پورے ملک کا مستقبل ٹانگ دیا جائے تو پھر باقی اتحادی پاکستان کیا کرنے آئیں گے؟ امریکہ کی حد سے بڑھی ہوئی خوشامد اور امریکی مفادات کے سامنے ٹوٹل سرنڈر سے بیزار ہوکر 78 سال کے بعد چین نے اپنی فارن پالیسی میں دو اہم قدم اُٹھائے۔
فارن پالیسی میں پہلا شفٹ: عوامی جمہوریہ چین نے برصغیر میں اپنے ''فارن پالیسی شفٹ‘‘ کو باقاعدہ طریقے سے ڈسپلے کر دیا۔ چینی فارن منسٹر مسٹر وانگ ژی سرپرائز وزٹ پر نیو دہلی جا پہنچے۔ اس موضوع پر مزید تفصیلات کے لیے مورخہ 22 اگست 2025ء کو اسی صفحے پر شائع ہونے والا وکالت نامہ ملاحظہ فرما لیں (کیا ہم پھر غلطی تو نہیں کر رہے؟؟)۔ اب حالات و واقعات نے ثابت کر دیا کہ ہم غلطی ہی کر رہے تھے۔ دنیا کا کوئی باشعور نظام‘ آرگینک حکومت اور ریاست فارن پالیسی میں سنگل ٹریک ہو کر نہیں چل سکتی۔
فارن پالیسی میں دوسرا شفٹ: یہ پچھلے کئی عشروں کی سب سے بڑی خبر تھی‘ جس کے نتیجے میں فوری طور پر امریکی فارن آفس کے سائوتھ ایشین ڈیسک کو متحرک ہونا پڑا۔ ہوا یوں کہ چینی وزیر خارجہ نے صرف بھارت کا دورہ نہیں کیا بلکہ انڈیا کے ساتھ عوامی جمہوریہ چین کی پارٹنرشپ کے MOU پر بھی دستخط کیے۔
اب جو 10 سالہ ڈیفنس ڈیل امریکہ نے بھارت کے ساتھ سائن کی ہے اُس کی بڑی اور فوری وجہ بھارت کے حوالے سے چین کو بیلنس کرنا ہے۔ دوسری جانب بھارت جو کھلے عام پاکستان کے حوالے سے جنگی تیاریوں میں مصروف ہے‘ صرف تیاریاں نہیں بلکہ ہمارے بارڈرز کے نزدیک فوجی مشقیں بھی کر رہا ہے‘ اس لیے امریکہ نے موقع مناسب جانا اور اس سے پہلے بھارت کے ساتھ پانچ پانچ سال کی پارٹنرشپ کرنے والے امریکہ نے پورے عشرے کے لیے دفاعی معاہدہ کر لیا۔ اس دفاعی معاہدے کے نتیجے میں بھارت کے اندر اطمینان کی لہر دوڑ گئی ہے۔ امریکہ کی خوشامد سے ہمیں کیا ملا؟ وہی جو تاجِ برطانیہ کے دیسی فوجیوں کو ملتا تھا۔ کرکٹ میچ میں گوری ٹیم کاکلر Yellow ہوتا تھا جبکہ غلام ملک کے دیسی فوجیوں کا کلر Blue۔ ہر میچ کے بعد گورا امپائر کھڑے ہو کر کہتا تھا: Welldone Blue, Yellow wins۔
اب آئیے اسی پالیسی سے لنک شدہ ایک اہم سوال کی جانب‘ جو ہمیں درپیش ہے اور ہمارے فیصلہ ساز اُس کا سامنا کرنے سے کترا رہے ہیں۔
آزادی سے انارکی تک کا سفر کیسے روکا جائے؟ جب سے جنریشن زی نے شعور کی آنکھ کھولی ہے‘ پچھلے دو عشروں میں عوامی مزاحمت ساری دنیا کا سب سے بڑا سیاسی لینڈ مارک بن گئی ہے۔ عوامی مزاحمت کا مطلب پبلک سڑکوں پر آئی‘ تبدیلی کے ایجنڈے پر احتجاج کیا اور Status Quo کے بٹھائے ہوئے حکمرانوں کے تاج وتخت ہوا میں اُچھالے گئے۔ جن ملکوں کے حوالے ہم اپنے سیاسی مباحث میں پیش کرتے ہیں اُن میں سال 2024ء بنگلہ دیش کوٹہ ریفارم موومنٹ‘ یو ایس اینڈ یو کے یونیورسٹی پروٹیسٹس‘ کینیا اینٹی ٹیکس پروٹیسٹ۔ پھر سال 2025ء گلوبل ویو آف پروٹیسٹس میں نیپال‘ مراکش‘ مڈغاسکر‘ انڈونیشیا‘ لداخ (انڈیا)‘ آزاد کشمیر اور سوڈان کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
عوامی جدوجہد کی فتوحات کی اس صدی میں بین الاقوامی امپیریل ازم اور نظامِ سرمایہ داری نے مظالم کے نئے طریقے اور ٹولز‘ دونوں دریافت کیے ہیں۔ جن میں سے سب سے زیادہ ہولناک اسلحہ وہ ہے جس کے بارے میں صدرامریکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا: مجھے پتا ہی نہیں تھا کہ یہ بھی ہمارے پاس ہے۔ سٹیٹ آف آرٹ‘ فائر پاور پر مبنی یہ گولہ بارود سب سے پہلے کھلے عام بڑی دیدہ دلیری سے ویسٹ بینک اور غزہ میں فلسطینی مسلمانوں پر استعمال ہوا۔ (جاری)