رواں سال اگست میں بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے سے جن معاملات میں تبدیلی کی توقع کی جا رہی تھی ان میں پاک بنگلہ تعلقات میں بہتری بھی شامل تھی کیونکہ عوامی لیگ کے طویل دورِ حکومت میں خصوصاً 2014ء کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات بہت محدود اور سرد مہری کا شکار تھے۔ اگرچہ اسلام آباد اور ڈھاکہ کے مابین سفارتی تعلقات برقرار تھے اور ایک دوسرے کے ہاں نہ صرف آنے جانے پر کوئی پابندی نہیں تھی بلکہ محدود پیمانے پر تجارتی تعلقات بھی قائم تھے‘ علاوہ ازیں جنوبی ایشیا کی تنظیم برائے علاقائی تعاون ''سارک‘‘ کے رکن ہونے کی سبب بھی پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین متعدد غیرسیاسی شعبوں میں تعاون جاری تھا مگر 2014ء میں حسینہ واجد حکومت کے دور میں مبینہ جنگی جرائم کے ارتکاب کے الزام میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سرکردہ رہنماؤں کو پھانسی دینے کے خلاف پاکستان کی پارلیمنٹ میں مذمتی قراراد منظور کیے جانے کے بعد حسینہ واجد کی حکومت نے پاکستان کے ساتھ تجارتی و ثقافتی تعلقات اور عوامی روابط پر پابندی عائد کر دی تھی۔ پاکستان کے بارے میں بنگلہ دیش کا یہ رویہ چونکہ عوامی لیگ کے دورِ حکومت سے مخصوص رہا ہے اور ماضی میں پاکستان کی طرف سے بنگلہ دیش کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے اور وسعت دینے کی کوششوں کا وزیراعظم حسینہ واجد نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا اس لیے اُن کے ملک سے فرار اور عوامی لیگ کے طویل دورِ حکومت کے خاتمے کے بعد اسلام آباد اور ڈھاکہ کے مابین بہتر روابط کا قیام اور نئے شعبوں میں تعاون کے فروغ کے امکانات کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ اس سلسلے میں نہ صرف دونوں طرف سے امید افزا بیانات دیے جا رہے ہیں بلکہ عملی اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر محمد یونس کے بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے ان کے ساتھ رابطہ کیا اور سیلاب سے متاثرہ افراد کیلئے امدادی سامان بھیجنے کی پیشکش کی۔ وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر ڈھاکہ میں پاکستانی ہائی کمشنر سید احمد معروف نے ڈاکٹر محمد یونس سے ملاقات کی‘ انہیں امدادی سامان کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ دونوں ملکوں نے تاریخی‘ مذہبی اور ثقافتی رشتوں کی بنیاد پر دوطرفہ تعلقات کو وسعت دینے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔ اب بنگلہ دیش کی نئی حکومت کی طرف سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت اور لوگوں کی آمد و رفت میں سہولت مہیا کرنے کیلئے پاکستان سے بنگلہ دیش بھیجے جانے والے سامان کی مکمل تلاشی اور ویزے کے اجرا کو مشکل بنانے کی پالیسی ترک کر دی گئی ہے۔ ڈھاکہ ایئر پورٹ پر پاکستانی مسافروں سے جو امتیازی سلوک کیا جا رہا تھا وہ بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین تجارت اور مال برداری کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ کئی دہائیوں کے بعد کچھ عرصہ قبل پہلی مرتبہ پاکستان کے ایک کارگو جہاز نے بنگلہ دیش کی بندرگاہ چٹاگانگ میں لنگر انداز ہو کر وہاں تجارتی سامان سے بھرے کنٹینرز اتارے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان نہ صرف دوطرفہ بنیادوں پر تجارتی‘ معاشی اور ثقافتی شعبوں بلکہ کثیر جہتی پلیٹ فارمز میں تعاون کی کافی گنجائش موجود ہے اور دونوں طرف سے اس جانب قدم بڑھانے کا ارادہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں قاہرہ میں آٹھ اہم ترقی پذیر ممالک کی سربراہی کانفرنس کے موقع پر وزیراعظم شہبازشریف اور بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر ڈاکٹر محمد یونس کی ملاقات میں بھی اس قسم کے خیر سگالی عزائم کا اظہار کیا گیا۔
حسینہ واجد کا پاکستان کے ساتھ تعلقات بارے رویہ یکطرفہ‘ متعصبانہ اور منفی تھا۔ ان کی حکومت کے خاتمے کے بعد دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں بہتری کے راستے میں کھڑی کی گئی بہت سی رکاوٹیں دور ہو گئی ہیں تاہم پاکستان میں بعض حلقوں کی طرف سے اس بارے میں ضرورت سے زیادہ خوش فہمی اور غیرحقیقت پسندانہ توقعات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اگر کچھ لوگ حسینہ واجد کی حکومت اور عوامی لیگ کے دور کے ختم ہونے سے یہ مطلب اخذ کر رہے ہیں کہ بنگلہ دیش اور پاکستان کے مابین 1971ء سے پہلے کی صورتحال بحال ہو جائے گی یا ''پاکستان کے حامی‘‘ گروپ برسراقتدار آ جائیں گے تو یہ ایک خوش فہمی ہوگی۔ اگر حسینہ واجد کے استبدادی دور سے نجات حاصل کرنے والے بنگلہ دیش کے بارے میں پاکستان نے زمینی حقائق کو نظر انداز کرکے کوئی پالیسی اختیار کی تو اس کا وہی حال ہوگا جو ہماری افغان پالیسی کا ہوا۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ بنگلہ دیشی انتہائی آزادی پسند اور قوم پرست لوگ ہیں۔ فرنگی سامراج کے خلاف ہندوستان میں پہلی مسلح جدوجہد بنگالیوں نے (1905ء میں) کی تھی‘ اس لیے وہ اپنے اندرونی معاملات میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت نہیں چاہتے۔ بنگلہ دیشی بھارت کے ساتھ تعلقات کے خلا ف نہیں‘ انہیں بھارتی حکمرانوں کے متکبرانہ رویے اور بنگلہ دیش کی اندرونی سیاست میں مداخلت پر اعتراض ہے‘ ورنہ وہ بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کر تے‘ خصوصاً اس صورت میں جب وہ تین اطراف میں بھارت سے گھرے ہوئے ہیں۔ 1971ء کے واقعات کے بارے میں ہمارے (پاکستان کے) خیالات یقینا مختلف نہیں‘ 16دسمبر کو ہر سال ہم سقوطِ ڈھاکہ کا سوگ مناتے ہیں جبکہ بنگلہ دیشی اُس دن آزادی کا جشن مناتے ہیں۔ اگر باہمی احترام اور برابری کی بنیاد پر دونوں ملکوں کے تعلقات کو فروغ دینا ہے تو 1971ء کے واقعات کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینا ہو گا۔ اس کے علاوہ ہمیں دونوں ملکوں کے مابین موجود مسائل کے حل کی بھی سنجیدہ اور مخلصانہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے ڈاکٹر محمد یونس کے ساتھ قاہرہ میں ملاقات کے موقع پر ان اختلافات کو دور کرنے کیلئے بات چیت کی پیشکش کی ہے۔
بنگلہ دیش کی طرف سے دو مطالبات کیے جاتے رہے ہیں۔ پہلا‘ سابقہ پاکستانی شہری یعنی بہاری نسل کے لوگ جنہیں 1971ء میں پاکستانی فوج کا ساتھ دینے کے الزام میں بنگلہ دیش اپنا شہری تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے۔ دوسرا‘ 1971ء سے پہلے کے متحدہ پاکستان کے اثاثوں کی تقسیم اور 1971ء کے آپریشن میں بنگالیوں کے مبینہ قتل پر ''معافی‘‘ کا مطالبہ۔ یہ مطالبات اتنے ہی پرانے ہیں جتنی بنگلہ دیش کی تاریخ‘ مگر حسینہ واجد کے علاوہ بنگلہ دیش کی کسی حکومت نے ان مطالبات پر زور نہیں دیا اور نہ ہی انہیں دونوں ملکوں کے مابین اچھے تعلقات کے قیام کے لیے پیشگی شرط قرار دیا۔1971ء میں جب پاکستان‘ بنگلہ دیش اور بھارت کے سہ فریقی مذاکرات ہو رہے تھے تو شیخ مجیب الرحمن نے یہ مطالبات اٹھائے ضرور تھے مگر ان کا رویہ مصالحانہ تھا‘ لیکن حسینہ واجد نے اپنے دورِ حکومت میں خاص طو پر 2014ء کے بعد ان مطالبات کو ضرورت سے زیادہ ہوا دی۔ بنگلہ دیش اوردیگر جنوبی ایشیائی ملکوں میں تاثر پایا جاتا ہے کہ مودی کے بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات کی جستجو میں حسینہ واجد نے پاکستان کے بارے میں معاندانہ رویہ اپنایا۔ اب جبکہ حسینہ واجد اور عوامی لیگ کا اقتدار ختم ہو چکا ہے اور بنگلہ دیش میں نئے سیٹ اَپ کی جانب سے بھارت کے ساتھ تعلقات کو نئے حقائق کی روشنی میں دیکھا جا رہا ہے‘ پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین خیر سگالی‘ دوستی اور باہمی احترام‘ برابری اور مشترکہ مفاد کی بنیاد پر تعلقات کے فروغ کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ اس سے نہ صرف دونوں ملکوں کے عوام مستفید ہوں گے بلکہ جنوبی ایشیا میں جیو سٹرٹیجک توازن کے قیام میں بھی مدد ملے گی کیونکہ خطے میں بھارت کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے ملک ہیں۔ اس سے گزشتہ آٹھ برس سے غیر فعال ''سارک‘‘ کو بھی فعال ہونے میں مدد ملے گی۔ بنگلہ دیش کے سابق صدر ضیا الرحمن نے اس علاقائی تنظیم کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔