"KMK" (space) message & send to 7575

ایک بار پھر وہی قصۂ شہرِ نا پُرساں … (آخری)

میں نے اپنی آنکھوں سے بابِ قاسم کی بائیں طرف مزار رکن الدین عالم کے کارنر پر پرانی فصیل کی تھوڑی سی باقیات دیکھی ہیں۔ فصیل کے اس حصے کی تھوڑی سی مرمت اس وقت ہوئی تھی جب محکمہ آثارِ قدیمہ نے مزار رکن الدین عالم کی تزئین و بحالی کی تھی۔ ایمانداری کی بات ہے کہ انہوں نے بحالی کا حق ادا کردیا تھا۔ ہر تبدیل ہونے والی اینٹ اسی سائز اور معیار کی تھی جو تعمیر کے وقت استعمال ہوئی تھی۔ اس کام کیلئے خصوصی طور پر خشت بھٹہ لگایا گیا اور اسی سائز اور کوالٹی کی اینٹیں پکا کر اس بحالی میں استعمال کی گئی تھیں۔
اب صورتحال یہ ہے کہ مٹی کے اونچے ٹیلے پر موجود اس قلعہ کی شمالی سمت‘ فصیل کے نہ ہونے کی وجہ سے اپنی جگہ سے کھسک رہی ہے۔ اس جگہ پر قائم کی گئی آرٹ گیلری کی دیواریں بھی اس کھسکائو کی زد میں آکر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی تھیں۔ یہ وہ سمت ہے جو بالکل خالی ہے اور اس جگہ پر فصیل بڑی سہولت اور آسانی سے تعمیر ہو سکتی ہے۔ اس طرف فصیل کی تعمیر نہ صرف اس قلعے کو اس کی حقیقی خوبصورتی اور اصلی شکل فراہم کرے گی بلکہ اس جانب فصیل کی تعمیر سے مٹی کے ٹیلے کا اپنی جگہ سے کھسکنا بھی رک جائے گا۔ یہ وہ سمت ہے جدھر مزار رکن الدین عالم ہے اور ٹیلے کے کھسکنے سے مزار کو مستقبل میں شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ یہ مزار اپنے عقیدتمندوں کیلئے صرف روحانی مرکز ہی نہیں بلکہ دنیا کا ایک ایسا شاندار تعمیراتی نمونہ ہے جیسے آپ عجوبہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ بیجاپور کے گول گنبد کے بعد اینٹوں سے تعمیر ہونے والا یہ دنیا کا دوسرا بڑا قطر والا گنبد ہے۔
1230ء سے 1324ء کے درمیان تعمیر ہونے والا یہ مقبرہ اس خطے میں چوکور بنیادوں پر تعمیر ہونے والے دیگر مقابر کے برعکس ہشت پہلو بنیادوں پر استوار ہے۔ اس تین منزلہ مقبرے کی پہلی منزل کے اوپر تعمیر ہونے والی دوسری ہشت پہلو منزل اس طرح ہے کہ اس کے آٹھ کونے پہلی منزل کے آٹھ کونوں کے دیواروں کے سنٹر میں ہیں۔ تیسری منزل گنبد کی ہے۔ پندرہ میٹر قطر کا یہ گنبد اپنی بنیادوں سے 35میٹر بلند ہے۔ ڈھلوان دار دیواروں والی آٹھ پہلو عمارت پر‘ اتنی بلندی پر اینٹوں سے بنا ہوا اس قدر بڑا گنبد دنیا میں اور کہیں نہیں ہے۔ گو کہ اس عمارت کو زلزلے اور دیگر آفات سے محفوظ کرنے کیلئے ہر پانچ سات میٹر کے بعد اینٹوں کی چنائی کے درمیان لکڑی کی تہہ لگا کر اور بنیادی سٹرکچر میں زمین کے اندر تک دھنسائے گئے لکڑی کے دیوہیکل شہتیروں نے اس محیر العقول عمارت کو صدیوں سے محفوظ و مامون سنبھال رکھا ہے لیکن یہ ممکن نہیں کہ نیچے سے زمین کھسک جائے اور اوپر والی عمارت سالم کھڑی رہے۔
والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کے قیام کا مقصد لاہور کے اندرون شہر کو دوبارہ پرانی اور اصلی حالت میں لانے کا ہے۔ اس اتھارٹی کو قائم ہوئے بارہ سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے‘ اس دوران ان سے اپنا کام تو مکمل نہیں ہو سکا اور اب اسے پورے پنجاب کے قدیم شہروں کو ان کی اصل شکل میں بحال کرنے کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔ مناسب ہے کہ یہ اتھارٹی اپنی صلاحیتیں ادھر اُدھر دوسرے شہروں میں صرف کرنے کے بجائے اپنی ساری توجہ اس کا م پر مرکوز کرے جس کیلئے اسے تخلیق کیا گیا تھا اور حکومت پنجاب کو بھی چاہیے کہ وہ صوبے کے دیگر شہروں کو تختِ لاہور کا باجگزار بنانے کے بجائے ان کیلئے ان کی علاقائی اتھارٹی بنائے تاکہ لاہور کی حکمرانی کا تصور ختم ہو سکے۔دنیا بھر میں ایسے معاملات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کا تصور پروان چڑھ رہا ہے جبکہ ہمارے ہاں ہر چیز کو مرکزیت سے باندھ کر خراب کرنے کے نظام سے چھٹکارا نہیں مل رہا۔قدیم ثقافتی اور تاریخی ورثے کی بحالی کی خاطر جنوبی پنجاب کے علاوہ شمالی پنجاب‘جس میں گندھارا تہذیب کا انمول خزانہ موجود ہے‘کیلئے علیحدہ علیحدہ کنزرویشن اتھارٹی بنا کر اسے والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کے تسلط سے نجات دی جائے۔ بندہ پوچھے کہ ملتان کا پروجیکٹ لاہور سے کیوں چلایا جائے؟ اور یہ ملتان‘ والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کے دائرہ کار میں کہاں سے آ گیا؟
چولستان کی پہچان قلعہ دراوڑ تو اپنی مضبوطی اور سر بلندی کے طفیل کسی حد تک بچا ہوا ہے لیکن صحرائے چولستان میں ریت کے سمندر میں ریت بنتے ہوئے قلعے جن میں موج گڑھ‘اسلام گڑھ‘میر گڑھ‘مروٹ‘خان گڑھ‘ خیرگڑھ‘بجنوٹ اور جام گڑھ قلعوں میں سے اکثر تہِ خاک ہو چکے ہیں اور دیگر رہی سہی ہستی سے عدم کی جانب گامزن ہیں۔ ملتان کی قدیمی عید گاہ کو اس پر قابض خاندان نے اپنی مرضی سے کی جانے والی بحالی اور تزئین و آرائش کے نام پر اس کی ملتانی کاشی گری اور نیلی ٹائل کے کام کی جگہ جدید ٹائل ورک اور اپنے خاندان کے بزرگوں کے نام لکھ کر اس کی ساری تاریخی حیثیت‘اصل خوبصورتی اور قدامت کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔
قلعہ کہنہ قاسم باغ ملتان کیلئے حکومت پنجاب کی جانب سے دو ارب 78کروڑ روپے کی منظوری اس قدیم قلعے کی بحالی کیلئے نہ صرف کافی ہے بلکہ اگر اس میں کھانچے بازی انتہا سے زیادہ نہ ہو جائے تو اس رقم سے اس قلعے کی ساری شکل اور شہر میں اس کا منظر نامہ بدل سکتا ہے لیکن سابقہ تجربات اور اس قلعہ کی بحالی کیلئے گزشتہ ایک عدد سیمینار میں ماہرین کی باتیں سُن کر یہ عاجز باقاعدہ طور پر اس رقم کے استعمال کے بارے میں صرف بدگمان ہی نہیں فکر مند بھی ہے۔
اگر اس قلعے کی بحالی اور تزئینِ نو کیلئے منظور ہو جانے والی رقم اُسی پرانے منصوبے پر خرچ کرنی ہے جو میں تین سال قبل سُن چکا ہوں تو میں اس پر صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ اس خطیر رقم کے کمیشن سے بہت سے لوگوں کا مستقبل تو سنور جائے گا مگر ملتان کے قدیمی قلعے کا مقدر نہیں سنور سکے گا۔ اس پرانے منصوبے میں اور بہت سی غیرمتعلق چیزوں کی بحالی و آرائش شامل ہے لیکن جو چیز کسی قلعے کیلئے سب سے ضروری اور بنیادی ہے وہ اس کی فصیل ہوتی ہے‘ اور وہی اس میں شامل نہیں۔ چولستان کے سینے پر ایستادہ قلعہ دراوڑ اپنی پُرہیبت فصیل کے طفیل ہی اپنی منفرد شاخت رکھتا ہے۔ دنیا بھر میں شاید ہی کوئی قلعہ ایسا ہو جس کے گرد حفاظتی حصار نہ ہو مگر ملتان کے اس قدیمی اور تاریخی قلعے کی بحالی اور تزئینِ نو کے منصوبے میں اس کی فصیل کا کوئی ذکر نہیں۔
ملتان شہر کے گرد بھی کبھی فصیل ہوتی تھی۔ اس فصیل کے اوپر شہر کے گرد ایک سڑک ہے جسے ہم ملتان والے ''النگ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ النگ بوہڑ دروازہ‘حرم دروازہ‘پاک دروازہ اور دہلی دروازہ سے ہوتی ہوئی دولت دروازے پر ختم ہوتی ہے۔ دولت دروازہ سے چوک بازار اور دوبارہ لوہاری دروازہ تک نہ فصیل تھی اور نہ ہی النگ ہے کہ یہ جگہ کسی زمانے میں قلعے کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔ شہر کی ساری فصیل تجاوزات کے پیچھے چھپ چکی ہے یا ختم ہو چکی ہے۔ چند سال قبل ملتان کے سابقہ ڈپٹی کمشنر عامر کریم خان نے پاک دروازے سے لوہاری دروازے تک تمام تجاوزات ختم کروا کر فصیل بحال کروائی۔ شہر کا یہ حصہ دن کو سورج اور رات کو قمقموں کی روشنی میں ایسا دمکتا ہے کہ دیکھ کر لطف آ جاتا ہے۔اس معمولی سے کالم نگار کی کیا مجال کہ وہ اربوں روپے کے اس پروجیکٹ سے کروڑوں روپے غتربود کرنے میں مہارت رکھنے والے فنکاروں کا ہاتھ پکڑ سکے۔ بس اتنی گزارش ہے کہ اس دو ارب 78 کروڑ کو ضائع ہونے سے بچانے کیلئے اس بحالی منصوبہ میں فصیل بھی شامل کی جائے اور ملتان کی سول سوسائٹی کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔ لگے ہاتھوں جنوبی پنجاب والڈ سٹی اتھارٹی بھی قائم کر دی جائے تو وسیب کا تاریخی اور ثقافتی ورثہ مزید برباد ہونے سے بچ سکتاہے۔ لاہور میں بیٹھے بابوؤں کو نہ یہ علم ہے کہ ملتان کا قلعہ کیسا تھا اور نہ یہ ادراک کہ اسے کیسا ہونا چاہیے۔ (ختم)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں