"MMC" (space) message & send to 7575

حقیقت پسند بنیں!

چند برسوں سے تسلسل کے ساتھ ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں کہ پاکستانی تارکینِ وطن پاکستان سے ترکیہ جاتے ہیں‘ وہاں سے لیبیا ہوتے ہوئے کشتیوں کے ذریعے یونان پہنچتے ہیں اور پھر وہاں سے آگے یورپ میں جہاں ٹھکانا ملے‘ ٹھہر جاتے ہیں۔ اس دوران کشتی ڈوبنے کے کئی حادثات ہوئے‘ مختلف ممالک کے غیر قانونی ذرائع سے جانے والے تارکینِ وطن سمندر میں ڈوب جاتے ہیں‘ حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں‘ بعض کو وہاں سے ملک بدر کر دیا جاتا ہے۔ یہ ایک ملک اور قوم کی حیثیت سے ہمارے لیے رسوائی کا باعث بھی ہے۔ جب ایسے واقعات ہوتے ہیں تو ہمارا الیکٹرانک میڈیا شور مچاتا ہے‘ انسانی سمگلروں کی دہائی دی جاتی ہے اور چند دن کے بعد یہ سب کچھ بھولی بِسری کہانی بن جاتی ہے‘ کیونکہ میڈیا کا آپس میں شدید مقابلہ ہے اور انہیں ہر لمحے تازہ خبر چاہیے‘ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ کوئی کہانی منطقی انجام تک پہنچ پائی ہے یا نہیں۔
ہمارے فہم کے مطابق ٹریول ایجنٹ کسی ملک کا اصلی یا جعلی ویزا لگاکر اپنے گاہکوں کوکراچی‘ لاہور یا اسلام آباد ایئرپورٹ سے بالعموم ترکیہ‘ بنکاک یا ایران لے جاتے ہیں اور پھر وہاں سے مختلف ذرائع سے غیر قانونی سفر شروع ہوتا ہے۔ اس میں یقینا ٹریول ایجنٹوں کی سنگدلی‘ شقاوت اور جائز وناجائز ہر ذریعے سے دولت جمع کرنے کی ہَوس بھی ہوتی ہے۔ لیکن تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی‘ انہیں یقینا گاہک کے طور پر ایسے بندگانِ ہوس مل جاتے ہیں جو ہر قیمت پر بیرونِ ملک جانا چاہتے ہیں۔ یہ بالعموم منڈی بہاء الدین‘ گجرات‘ لالہ موسیٰ‘ دینہ‘ جہلم اور سیالکوٹ کے لوگ ہوتے ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں کے تقریباً ہر قصبے‘ ہر گائوں یا ہر محلے سے کوئی نہ کوئی فرد بیرونِ ملک یورپ یا شمالی امریکہ میں موجود ہے اور وہ جب اپنے خاندانوں کو پیسے بھیجتے ہیں تو ان کا معیارِ زندگی بلند ہوتا ہے‘ پھراُس علاقے میں رہنے والے دوسرے لوگوں میں بھی مسابقت کی شدید خواہش پیدا ہوتی ہے۔ یہ وہ لوگ نہیں ہوتے جو نانِ شبینہ کے محتاج ہوتے ہیں‘ یہ بیس تیس لاکھ روپے خرچ کر کے اعلیٰ معیارِ زندگی کیلئے خطرات مَول لیتے ہیں۔ ہمارے ذرائع ابلاغ اور حکومت کی توجہ اس جانب بھی مبذول کرنے اور لوگوں کی اخلاقی تربیت کا بھی اہتمام ہونا چاہیے۔ بعض اوقات ان گروپوں میں بارہ سے سولہ سال تک کے لڑکے بھی شامل ہوتے ہیں‘ کیونکہ جرمنی وغیرہ نابالغ لڑکوں کو ملک بدر کرنے کے بجائے اپنے قوانین کے تحت انہیں تربیتی مراکز میں ٹھہراتے ہیں‘ انہیں مقامی زبان اور کوئی ہنر سکھاتے ہیں اور اجتماعی رہائش وخوراک کے علاوہ جیب خرچ بھی دیتے ہیں۔ ایک سفر کے دوران جرمنی میں مرسڈیز کاروں کے مرکز اسٹَٹ گارٹ کے اسلامک سنٹر میں 14سال کا ایک نوعمر لڑکا ملا‘ جو ہمارے رفیقِ سفر صاحبزادہ عبدالمصطفیٰ ہزاروی ناظمِ اعلیٰ جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور کا پہچاننے والا تھا‘ معلوم ہوا کہ اُس نے جامعہ میں حفظ کیا تھا اور اس کے والد بھاٹی گیٹ میں شِیر فروش ہیں۔ وہ ایک ایجنٹ کے ذریعے یونان تک پہنچا‘ لیکن وہاں سے ملک بدر کر دیا گیا‘ وہ پھر والدین کی مدد سے خرچ اُٹھا کر دوبارہ گیا اور آخرکار جرمنی پہنچ گیا۔ اب وہ نابالغ بچوں کے ایک تربیتی مرکز میں تھا‘ اُس نے ملاقات میں یہ سارا ماجرا ہمیں سنایا۔ نوعمر لڑکوں کو ایجنٹ ان کے والدین کے تعاون سے اس لیے بھیجتے ہیں کہ اگر وہ کسی طرح سے جرمنی وغیرہ پہنچ جائیں تو وہاں اُن کے لیے مواقع پیدا ہو جاتے ہیں۔یہ واقعات ہمارے معاشرے کی ایک مجموعی کیفیت کے آئینہ دار ہیں۔ ہم پورے واقعات اور سانحات کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنے کے بجائے کوئی ایک گوشہ پکڑ کر ''کاتا اور لے دوڑی‘‘ کے مصداق چل پڑتے ہیں اور میڈیا پر رونق لگا لیتے ہیں۔ ایک دو دن ٹی وی سکرین پر رونقیں لگ جاتی ہیں اور پھر سب قِصّۂ پارینہ بن جاتا ہے۔ منیر نیازی نے کہا تھا:
کُج اِنج وی راہواں اوکھیاں سَن؍ کج گَل وِچ غم دا طوق وی سی
کُج شہر دے لوک وی ظالم سَن؍ کُج سانوں مرن دا شوق وی سی
یہاں غموں کے طوق کے سبب لوگ سانحات کا شکار نہیں ہوتے‘ بلکہ روشن مستقبل اور حسین خوابوں کی تعبیر پانے کی خواہش لوگوں کو اس انجام سے دوچار کرتی ہے۔ یہ خواب اپنے دل ودماغ میں سجانے والے صرف نوعمر لڑکے اور جواں عمر ہی نہیں ہوتے‘ اُن کے والدین اور پورا خاندان یہ خواب دیکھتا ہے اور پھر اُس کی تعبیر پانے کی تگ ودو میں لگ جاتے ہیں۔ اپنے سارے اثاثے بیچ کر اپنے ہاتھوں سے اپنے پیاروں اور اولاد کو روانہ کرتے ہیں۔ ماضی کے واقعات بھی یقینا اُن کے علم میں ہوں گے‘ وہ انگریزی کے اس محاورے کا مصداق بن کر نکلتے ہیں: ''بہترین کی امید رکھو‘ لیکن بدترین انجام کے لیے بھی تیار رہو‘‘۔ الغرض یہ دھوکے میں نہیں مارے جاتے‘ یہ اپنی قسمت سنوارنے اور چمک دمک کی دنیا سجانے کے لیے خطرات مول لیتے ہیں۔ ظہیر دہلوی نے کہا تھا:
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار؍ اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
یہ 'جنون‘ بہتر مستقبل کے خواب ہیں اور یہ لوگ جب اپنے اردگرد ایسے خاندانوں کو دیکھتے ہیں جن کے ایک یا زیادہ افراد کسی نہ کسی طرح امریکہ‘ یورپ‘ کینیڈا یا آسٹریلیا وغیرہ پہنچ جاتے ہیں اور اس کے سبب ان کے حالاتِ زندگی بدل جاتے ہیں تو ان کے دلوں میں بھی ایسی امنگیں جنم لیتی ہیں۔ ہم نے بیرونِ ملک اُن لوگوں کی مَشقت کی زندگی کو دیکھا ہے‘ وہ دن رات خوب محنت کرتے ہیں اور گھر والوں کو راحتوں کا دلدادہ بنا دیتے ہیں۔ ادھر والے یہ سمجھتے ہیں کہ اُن ممالک میں شاید درختوں پر ڈالر‘ یورو اور پائونڈ وغیرہ پتوں کی طرح لٹکتے ہیں اور گر کر جھولی میں آ جاتے ہیں‘ ایسا ہرگز نہیں۔ ہم نے کئی شادی شدہ افراد ایسے دیکھے جن کی بیوی‘ بچے پاکستان میں ہیں اور وہ بعض صورتوں میں دس‘ پندرہ سال سے اُن سے دور ہیں‘ صرف وڈیو کال پر ایک دوسرے کا دیدار کر لیتے ہیں‘ یہ اذیت بھی ناقابلِ تصور ہے۔
پاکستان اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے‘ ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے۔ ایک آزاد وطن کی قدر معلوم کرنی ہو تو کشمیر‘ بھارت‘ فلسطین‘ میانمار‘ لیبیا‘ شام اور دیگر خطوں کے مسلمانوں سے پوچھیں‘ آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ ہمیں اپنی مقتدرہ سے بڑی شکایات ہیں اور جائز بھی ہیں‘ ہمیں مشرق ومغرب دونوں طرف اپنی سرحدوں پر خطرات لاحق ہیں‘ ہماری سرحدوں کے اندر کئی گروہ ریاست کے خلاف سرگرمِ عمل ہیں‘ ان میں بیرونی ایجنٹ بھی ہیں۔ آئے دن ہم خوارج سے تصادم اور مسلّح افواج کے جوانوں اور افسروں کی شہادتوں کی خبریں سنتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود الحمدللہ! پاکستان عراق‘ شام‘ لیبیا‘ لبنان اور فلسطین بننے سے بچا ہوا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ ہماری دفاعی قوت اس قابل ہے کہ ہم اندرونی اور بیرونی خطرات کا مقابلہ کر سکتے ہیں‘ اس پر پوری قوم کو اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ ہم پر یقینا پابندیاں بھی ہوں گی‘ لیکن ان پابندیوں کے باوجود جتنی آزادی ہمیں حاصل ہے‘ وہ ترکیہ سمیت دیگر مسلم ممالک کے شہریوں کو ہرگز حاصل نہیں ہے۔ ہمیں اس آزادی کی بھی قدر کرنی چاہیے اور اس کی حفاظت کیلئے فکرمند بھی ہونا چاہیے۔ ناشکرا پن ایک نفسیاتی بیماری ہے‘ اس سے نکلنے کی ضرورت ہے۔
یقینا اس وقت پاکستان معاشی مشکلات کا شکار ہے‘ زرِ مبادلہ کے اعتبار سے ہم شدید دبائو میں ہیں‘ بیروزگاری کی شرح بھی یقینا زیادہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود میرا یقین ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی بھوکا نہیں سوتا‘ بڑے شہروں میں غریبوں کیلئے لنگر خانے ہیں۔ ہم پاکستان بھر کا سفر کرتے رہتے ہیں‘ قصبوں اور دیہات تک سڑکیں ہیں‘ مارکیٹیں اور ہوٹل آباد ہیں‘ اب دیہات میں بھی کچے مکانات کم نظر آتے ہیں۔قصبات تک شادی ہال آباد نظر آتے ہیں‘ بجلی اور گیس کی سہولت بالعموم موجود ہے‘ ان سب نعمتوں پر ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے اور پاکستان کی قدر کرنی چاہیے۔ ہمارا میڈیا پاکستان کی جو تصویر پیش کرتا ہے‘ اس کی رو سے ہم بحیثیتِ قوم 'فرقۂ ملامتیہ‘ بن کر رہ گئے ہیں‘ اپنی تذلیل وتوہین سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں